یقین کی آواز

نصیر ترابی

آوازوں کی دُھوم اور سماعتوں کے ہجوم میں یہ آواز ایک ایسی سماعت کی تمنائی ہے جو زیر وزبر کرتی ہوئی مادّی ناہمواریوں میں کسی اَخلاقی اُستواری اور کسی روحانی توازن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اپنے شجرۂ نسب کے اعتبار سے یہ آواز نہج البلاغہ کی نسل سے تعلق رکھتی ہے، لہٰذا اس فضائے جزر و مد اور اِس ہوائے گرم و سرد میں یہ آواز ظنّ و تخمین کی نہیں بلکہ یقین کی آواز ہے۔ یہ آواز الفاظ کی معاشیات اور افکار کی ریاضیات پر مشتمل ہے اور ایک ایسی نفسیات کی تشکیل میں منہمک ہے جو ہزار بے ثباتی کے باوجود آدمی کو ایک ثبات کی دینیات سے آشنا کر رہی ہے۔ یہ دینیات عقل کی دینیات ہے۔ مہیب تاریکی میں محیط روشنی کی دینیات… اس نسبت سے یہ آواز ثقہ اور اپنے استنباطی رُجحان کے باعث قدرے بلیغ ہو جاتی ہے۔ یہ آواز تغیّر و تحیّر کے اُٹھائے ہوئے سوال و جواب کی ہر نیکی و بدی سے آگاہ ہے اور افہام وتفہیم کے سلیقوں سے آراستہ بھی۔ یہ آراستگی اپنا ایک ذائقہ رکھتی ہے۔ اس میں شاعرانہ احتیاط کی مٹھاس کے ساتھ خطیبانہ احتساب کی چاشنی بھی کہیں کہیں کچھ تیز ہو جاتی ہے۔ یہ مٹھاس ، یہ چاشنی مَرج البحرین ہیں اس کے بطن سے ایک نخلِ نعمت نمو پارہا ہے۔ ہر چند کے اس آواز کی صوری تربیت میں نظمؔ طبا طبائی اور ضامنؔ کنتوری کا دخل ہے لیکن اقبالؔ اور یگانہؔ کے معنوی اثرات بھی اپنا ایک گوشۂ نفوذ رکھتے ہیں۔ اِس آواز کے پیچھے کتاب زاروں کی تہذیب اور فکری رزم گاہوں کے تمدّن سے ایک ایسا معاشرہ سامنے آتا ہے جس میں شدید ذمّے داری کا شعورِ احساس ملتا ہے۔ یہ احساس ایک تحریک کی صورت رکھتا ہے۔ یہ تحریک ظلم سے نفرت کرتی ہے اور آدمی کو مظلوم کے انتصار کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ انتصار، روحِ عصر ہے۔ یہ ہر عصر کے دائرے کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس انتصار کی اپنی الگ ایک تکوینی و تشریعی حیثیت ہے۔ اِس کی نفی کرنا گویا اپنے وجود کی نفی کرنا ہے۔ یہ انتصار نزول وصعود کی دو جدا گانہ کیفیتوں کا ایک ایسا اتصال ہے جیسے ایک شمع کی موجودگی میں اگر دوسری شمع روشن کی جائے تو دونوں کی روشنیاں ایک دوسرے کو اپنی جگہ سے منتقل کئے بغیر آپس میں اس طرح پیوند ہو جاتی ہیں کہ دونوں کے درمیان علیحدگی کا خط کھینچنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ سیرِ کمال ہے، یہ وہ معراج ہے جہاں پہنچ کر انتصار زمان ومکان کے اضافات و اعتبارات سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ اس انقطاع اور اس ار تضاع کی وجہ سے روحانی ارتقا کا تسلسل بے خلل اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ متناہی سے لامتناہی کی جانب سفر… پھر اس سفر میں ایک ایسا موڑ بھی آتا ہے کہ جس کے بعد آدمی پر زوال وفنا کے تمام استعاروں کا اطلاق محرمانِ حرف و ظرف کے نزدیک متروک سمجھا گیا ہے۔

پسِ سرورقِ ”شاخِ مرجان“

علّامہ رشید ترابی کا شعری مجموعہ

Scroll to Top