ہَوا ہَوس کی چلی نفس مشتعل نہ ہوا
ہَوا ہَوس کی چلی نفس مشتعل نہ ہوا
جسے یہ بات میسّر ہوئی، خجل نہ ہوا
گزر چلا مَن و تُو سے فضائے ہُو کا حریف
بشر وہی جو گرفتارِ آب و گِل نہ ہوا
یہ اور بات ہے ظالم کی نیند اُڑ جائے
ارادتاً مِرا نالہ کبھی مُخل نہ ہوا
سکونِ فکر، سکونِ نظر، سکونِ حیات
خمیرِ زیست اِن اجزاء پہ مشتمل نہ ہوا
جو زخم دل پہ لگے، مٹ گئے مگر غمِ دوست
مِری حیات ہے یہ زخم، مُندمل نہ ہوا
بہار میں بھی نہ تھا ناز دل کی قوّت پر
خزاں کے دور میں بھی قلب مضمحل نہ ہوا
سکونِ دل نہ ملا دولتیں مہیّا کیں
بہت تھے اہلِ دُول ایک اہلِ دل نہ ہوا
اثر پزید وہ قصّہ ہے جس میں درد بھی ہو
بغیرِ درد کوئی کیف منتقل نہ ہوا
ضدیں تمام زمانے کی اِک جگہ کردیں
مذاق ہوگیا، ہستی کا میرا دل نہ ہوا
خطا یہ تھی کہ جھنجھوڑا ہے خود پرستوں کو
رشیدؔ ایسی خطاؤں پہ منفعل نہ ہوا