ہر جگہ آپ قاف سے تا قاف
ہر جگہ آپ قاف سے تا قاف
میرا گھر بھی نہیں قصور معاف
بڑھ کے کون و مکاں کو گھیرنہ لے
ہے لہو صبح و شام کے اطراف
کچھ تو کہہ رسم و راہ کے دشمن
یہ خدا کا مکان اور غلاف
دست و پا، چشم و گوش سب اپنے
اب ہیں کس کے گواہ، کس کے خلاف
یہ مکاں آپ کا سر آنکھوں پر
میں ہوں اور میری حسرتوں کا طواف
ہر اندھیرے میں ظلم ہوتا ہے
روشنی آگئی تو ہے انصاف
وہ کسی کا ہو درد، دل تڑپے
سُن لیا خیر میں نہیں اسراف
ہر زمیں پر ہمارا خرمن تھا
ذکرِ اَسلاف تابہ کَے اَخلاف
پھر پتنگوں نے سمت بدلی ہے
شمع روشن نہ ہو تو کس کا طواف
حُسن اور عشق وقفِ عام سہی
اپنی نسبت کے ساتھ ہیں اوقاف
فکرِ دامن میں رہ گئی دُنیا
اِس طرف ہوگیا گریباں صاف
بے خودی میں رشیدؔ کی گزری
آپ سمجھیں اِسے نہ لاف و گزاف