کیوں کوئی بیٹھے کہیں دیوار وار

کیوں کوئی بیٹھے کہیں دیوار وار
جائے گُل، گُل باش و جائے خار، خار

عشق کی جھوٹی نمائش کے لیے
ہوگیا اپنا گریباں تار تار

ہر نَفَس پُرعزم سرداری کے ساتھ
دیکھتا ہے دیدۂ بیدار دَار

غم وہ ہے جو رُوح کی لذّت بنے
کیوں رہے پھر آپ کا غمخوار خوار

کاسہ لیسی اور پھر دل میں عناد
ہو رہے ہیں کس قدر عیّار یار

ظلم سے کوئی اگر حق چھین لے
دل نہ مانے گا یہاں زِنہار ہار

کیا خبر کیا مصلحت ہے درمیاں
آپ چُپ ہَوں، میں پکاروں بار بار

غیرِ حق کی سمت کیوں میلان ہے
ہے یہی تو رشتۂ زُنّار نار

عشرت و عبرت اضافی ہیں رشیدؔ
کوئی خوش ہو کوئی روئے زار زار

Scroll to Top