کیا معرفتِ حق کا کوئی رنگ رہے گا
کیا معرفتِ حق کا کوئی رنگ رہے گا
آئینۂ دل پر جو یہی زنگ رہے گا
بے درد سے دُوری ہے رہِ حق کا سلیقہ
ہر درد زَدہ دل کا یہ آہنگ رہے گا
محسود کی نازش نگہ و دل کی ہے وسعت
حاسد کی نگہ تنگ ہے دل تنگ رہے گا
اِس دِین کو جو کھیل سمجھتا ہے سمجھ لے
ماضی سے چلا آتا ہے یہ ننگ رہے گا
جس دل میں رہیں قاتل و مقتول برابر
ہر تول میں باطل کا وہ پاسنگ رہے گا
یہ جذب نہیں اصل میں ہے دفع کی کوشش
ہر صُلح میں اِک فیصلۂ جنگ رہے گا
منصوص اثر کی بھی رہے گی یہی عظمت
کعبہ میں پئے بوسہ اگر سنگ رہے گا
جب تک ہے خمیر اُلفتِ حق کا رگ و پے میں
مظلوم کی نصرت کا یہی ڈھنگ رہے گا
شاید ہے کسی آہ کا مارا ہوا گلشن
تاحشر بھٹکتا ہُوا ہر رنگ رہے گا
حیراں ہے رشیدؔ آج ہر اِک طرزِ امیری
کب تاج رہا ہے جو یہ اَورنگ رہے گا