کیا خبر دل کا رُخ ہے کس کی طرف
کیا خبر دل کا رُخ ہے کس کی طرف
فاصلہ ہے میانِ شخص و ہدف
بے حسی پر نہ ٹوکنے والے
درد کے ساتھ ہے یہ دل کا شرف
ظرف سے بھی ہوں آشنا آنکھیں
اہلِ گوہر نہیں ہر ایک صدف
اب کوئی راز چھپ نہیں سکتا
بات آئی سَلَف سے تابہ خَلَف
اپنی فطرت کو آج کیا بدلیں
حق ہمیشہ رہا ہے تیغ بکف
ہے جُنوں کا یہ مشغلہ شاید
کیوں پرکھتا ہے کوئی سنگ و خزف
ایک ہی سمت لے کے جائے گی
جس کے سر میں رہی ہوائے نجف
غیب سے متّصل رہے تو کہو
عقل ہی ہے بُراق اور رَفرف
کچھ اندھیرا ہٹے تو حال کُھلے
ہے یہی تو چراغ کا مصرف
مانگنے کے لیے ہے نامِ حق
یا یہ پھر رہ گیا برائے حلَف
زندگی ہے تو ذِکرِ دوست بھی ہے
اِک نَفَس بھی جہاں نہیں ہے تَلَف
نصرتِ حق میں چند لفظ رشیدؔ
لکھ سکو تو یہی رہے مُصْنَف