کیا بتائیں نزع میں یہ رُوح کیوں بالیدہ ہے

کیا بتائیں نزع میں یہ رُوح کیوں بالیدہ ہے
لذّتیں ساحل کی وہ جانے جو طوفاں دِیدہ ہے

کچھ محبّت کچھ عداوت ہیں یہ دل کی دھڑکنیں
یہ نہیں تو فرق کیا مُردہ ہے یا خوابیدہ ہے

خاکساری دام ہے جب زُہد ہے اُلجھا ہوا
ذکرِ عمّامہ نہ کیجے مسئلہ پیچیدہ ہے

کس طرح پلکیں بچھائے راہ میں چشمِ قبول
خیر و بد کو کیوں نہ پرکھے جب نظر سنجیدہ ہے

عافیت میں پَل کے دل ہے عافیت ناآشنا
فصلِ گل کی قدر کیا کرتا خزاں نادیدہ ہے

کس فضیلت پر ہیں نازاں خُوگرِ ظلم و ستم
موشگافی کیا کریں گے مُو بمو ژولیدہ ہے

طُور پر کیسا بھروسہ، بے خودی کا کیا علاج
طالبِ دیدار آئے ہیں، نفس دُزدیدہ ہے

غم کی شادابی سلامت چند اشکوں کے سوا
اِس کتابِ زندگی کا ہر وَرَق بوسیدہ ہے

درمیاں سے کوئی قصّہ سن کے کیا سمجھے رشیدؔ
زندگی میں داستاں سے داستاں چسپیدہ ہے

Scroll to Top