کیا بتائوں کش مکش کب سے حق و باطل میں ہے
کیا بتائوں کش مکش کب سے حق و باطل میں ہے
یہ فسانہ کچھ زباں پر ہے، بہت کچھ دل میں ہے
کتنی طوفاں خیز موجیں سر جُھکادیتی ہیں روز
کس قدر خاموش ہیبت فطرتِ ساحل میں ہے
اپنی اپنی راہ میں دونوں ہیں مصروفِ عمل
فرق اِک نیّت کا لیکن بسمل و قاتل میں ہے
ہر فسانہ کیف زا ہے اپنے افسانے کے ساتھ
درد دُنیا کا ہے جب تک درد اپنے دل میں ہے
میں زمانہ ساز بنتا لیکن اے عقلِ غیور
تیری چاہت کا خمیر اب تک اِس آب و گِل میں ہے
دیکھیے کیا حشر ہو، رستے میں ہُوں، نیّت بخیر
پائوں تھک کر رہ گئے ہیں، دل مگر منزل میں ہے
چند آنسو، چند آہیں، کچھ ندامت کچھ نیاز
عمر بھر کی محنتِ برباد اِس حاصل میں ہے
لے رہی ہے قدرتِ خاموش پیہم انتقام
عکس بسمل کا ابھی تک دیدۂ قاتل میں ہے
سوچ لے اے مبتلائے فکرِ منزل سوچ لے
لذّتِ جاوید محنت میں ہے یا حاصل میں ہے
عقل کے خرمن ہَوس کی بجلیوں میں ہیں رشیدؔ
ایک دُنیا جل رہی ہے روشنی محفل میں ہے