کیا اُن کا کرم ہم پہ ستم جن کے نہیں ہیں
کیا اُن کا کرم ہم پہ ستم جن کے نہیں ہیں
اُن سے ہمیں کیا کام ہے ہم جن کے نہیں ہیں
دیتی ہے صدا بارگہِ عقل میں تقدیر
محفل سے اُٹھیں نام رقم جن کے نہیں ہیں
کیا سطوتِ ماضی کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
وہ چند نَفَس، نقشِ قدم جن کے نہیں ہیں
کوئی تو سہارا بنے بُت ہو کہ خدا ہو
کیا اُن کا بھرم دیر و حرم جن کے نہیں ہیں
ایسوں کے فسانوں میں کہاں درد کی لذّت
غم خوار بھی شائستۂ غم جن کے نہیں ہیں
میں سوچ رہا ہوں اُنھیں کیا کہہ کے پکاروں
گمنام ہیں وہ نام بھی کم جن کے نہیں ہیں
سنگِ در و سجدہ ہے طلسمِ رہِ اُلفت
کیا اُن کا خدا ہوگا صنم جن کے نہیں ہیں
ہمّت کی ہے بنیاد، بلندیِ نظر پر
بے حوصلہ لشکر ہیں علَم جن کے نہیں ہیں
ہے سادگیٔ و راستیٔ ذوق سلامت
صنعت سے بچیں زُلف میں خم جن کے نہیں ہیں
قربانیٔ بے خوف ہے اِک شرطِ تاثّر
کیا لکھتے ہیں وہ ہاتھ قلم جن کے نہیں ہیں
صَد شُکر رشیدؔ آپ کے دشمن ہوئے یکجا
وہ مِل گئے افکار بہم جن کے نہیں ہیں