کلامِ سکوت

صہباؔ اختر

کلام، ساکت ہے، حرف چپ ہیں

 تمام آئینۂ ظرف چپ ہیں

ٹھہر گئی فکر کی روانی   اُجڑ گیا عالمِ معانی

حجابِ ظلمت گرا دیا ہے

یہ کس نے سورج بجھادیا ہے

وقارِ لَوح و قلم لُٹا ہے میں

کس سے پوچھوں کہ کیا ہوا ہے

کسی کو اپنا پتا کہاں ہے

شکستِ دل کی صدا کہاں ہے

خطیبِ اعظم کو ڈھونڈتی ہے

بس ایک چُپ ہے، کہ گونجتی ہے

وہ جب بھی لہرا کے بولتا تھا

گرہ ستارہ کی کھولتا تھا

ستارے لفظوں سے ٹُوٹتے تھے 

اُجالے ہونٹوں سے پھوٹتے تھے

کبھی وہ طوفانِ گفتگو تھا

کبھی وہ بارانِ جستجو تھا

کبھی گرج تھا، کبھی کڑک تھا

کبھی مہک تھا، کبھی چمک تھا

کبھی وہ ناوک، کبھی وہ مرہم

کبھی وہ شعلہ، کبھی وہ شبنم

ہزار چہرہ جمال تھا وہ

کہ علم و فن کا کمال تھا وہ

بصد تفکّر، بصد ذہانت

بصد تکلّم، بصد خطابت

کبھی دلِ بے فراغ بن کر

کبھی سراپا دماغ بن کر

رسولِ حقؐ پر نظر جماکر

حسینیت کا علم اُٹھاکر

فنونِ علم و ہنر جگاکر

چراغِ دانش سے لو لگا کر

اشارۂ بوترابؑ پاکر

فرازِ منبر پہ سر جھکاکر

وِلائے حق کو اُبھارتا تھا

دِلوں میں قرآں اُتارتا تھا

حسینؑ مظلوم کی صدا تھا

وہ مرثیہ خوانِ کربلا تھا

غلامِ ابنِ بتولؑ تھا وہ

خطیبِ آلِؑ رسولؐ تھا وہ

گہے مدینہ، گہے نجف تھا

ہر ایک دَر سے اُسے شرف تھا

سحابِ علم و ہنر کی بارش

رشیدِ حکمت، شہید، دانش

جسے تھی حاصل ستارہ تابی

جو فخرِ انجم تھا وہ تُرابی

کبھی تبسّم تھا وہ وفا کا

کبھی وہ آنسو تھا کربلا کا

وہ عقل و علم و ہنر کا پیکر

رئیسِ مجلس، انیسِؔ منبر

طلوعِ آفاقِ حق پسندی

صلیبِ عیسائے درد مندی

جہادِ علم و ہنر کا غازی

کلیمِ طورِ سخن نوازی

وہ ایک دریا، ہزار دریا

وہ نطق کا بے کنار دریا

دماغ شاداب کررہا تھا

جو سب کو سیراب کررہا تھا

زمیں کی تہ میں وہ سو رہا ہے

کہ حوضِ کوثر سے جا ملا ہے

فراق کس زیب و زین کا ہے

صلہ یہ ذکرِ حسینؑ کا ہے

کہ اُس کو روئیں گے لوگ برسوں  

رہیں گے آنکھوں میں سوگ برسوں

فنائے لوح و قلم کہاں ہے

وجودِ حق کو عدم کہاں ہے

کری ہے آلِؑ نبیؐ کی خدمت

سمجھ کے منجملۂ عبادت

حسینیت کا کرم سلامت

اب اُس کی تُربت پہ تاقیامت

سحاب رحمت کا چھایا ہوگا

رِدائے زہراؑ کا سایا ہوگا

 

Scroll to Top