کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی

کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی
آیا جہاں اندھیرا وہیں روشنی ہوئی

حدِّ نظر ہے اور، ہے کچھ اور حدِّ علم
ہر شے میں کوئی شے ہے یقیناً چُھپی ہوئی

بازارِ زیست میں ہے امانت ہر ایک جنس
فی الحال ایک جان ہے وہ بھی بِکی ہوئی

جن کو خزاں میں صبر و سکوں سے مِلا قرار
آئی بہار اُن کا پتا پوچھتی ہوئی

ساتھی اگر جہاد کا ہے، بے وفا نہیں
اِس راہ میں خدا کے لیے دوستی ہوئی

یہ حال ہے گزشتہ اندھیرے بھی ساتھ ہیں
یہ ضد ہے شمع ہاتھ میں ہو اور بجھی ہوئی

نیّت بخیر، ختم سفر ہے خدا گواہ
اِک زندگی کی فکر میں یہ زندگی ہوئی

اپنی اضافتوں سے ہے کچھ تازگی رشیدؔ
انسان سُن رہا ہے کہانی سُنی ہوئی

Scroll to Top