پھر اُس کو غرض کیا ہے بہارِ گزراں سے
پھر اُس کو غرض کیا ہے بہارِ گزراں سے
جس پھول کی تکمیل ہوئی زخمِ خزاں سے
کیا جانیے کیا حشر ہو گلشن کا سَحر تک
اچھا ہے سرِ شام نکل جائوں یہاں سے
اے بے خبرِ نفع و ضرر، زیست سے حاصل
بازار کی رونق ہے فقط سُود و زیاں سے
وہ فرصتِ غم اور نشیمن کی بہاریں
ماضی کے یہی نقش تو ہیں آج دُھواں سے
اُس صبح کے مشکوک اُجالے سے ہے بہتر
وہ رات جو بیگانہ رہے وہم و گماں سے
گُل محرمِ اَسرار ہیں اور ہم ہیں وہ محروم
رُو دادِ چمن سنتے ہیں کانٹوں کی زباں سے
اے نزع کے ہنگام، بس اِک سانس کی مہلت
میں اُن کا پتا پوچھ رہا ہوں رگِ جاں سے
کیا آپ کے جلووں سے کوئی وقت ہے خالی
آتا ہے اندھیرا نہیں معلوم کہاں سے
شاید مجھے رستے میں وہ مل جائیں ترابیؔ
میں دُور نکل جائوں ذرا کون و مکاں سے