وہ جو اِک قطرہ ہے پانی کا ہَوا سے خالی

وہ جو اِک قطرہ ہے پانی کا ہَوا سے خالی
دلِ دریا میں ہے اور فکرِ فنا سے خالی

اب خلش ہے کہ نہیں پوچھنے والا کوئی
ہائے وہ گھر جو ہو سائل کی صدا سے خالی

فطرتِ ظلم جو دَم لے، تو سنبھل کر دیکھو
کتنے تَرکش ہیں یہاں تیرِ جفا سے خالی

ہے نتیجے میں وہ ناکام، زمانے کی قسم
زندگی جس کی رہے کرب و بَلا سے خالی

دِیدنی نور سے ہے نار کا یہ فصلِ قریب
دل ہی دوزخ ہے جو ہو صدق و صفا سے خالی

میں ہوں صیّاد، قفس میں تو رہے ذکرِ قفس
اب رہا گھر تو رہے تیری بلا سے خالی

باغباں دل پہ گراں، سخت گراں ہے یہ بہار
پھول ہی پھول مگر بُوئے وفا سے خالی

غفلت اِک سانس کی رستے سے ہٹادیتی ہے
دلِ بیدار ہے اِمکانِ خطا سے خالی

زندگی کو تو بہرحال گزرنا ہے رشیدؔ
کام آجاتے ہیں پھر بھی یہ دِلاسے خالی

Scroll to Top