وقت

گردشِ ارض و مہ و خورشید و انجم کا نظام
اِک تغیّر کا ہے خالق، وقت شاید جس کا نام

وقت یعنی اِک زبان زد لفظ ہے، خارج زِد صف
جو نہیں منّت کشِ تعریف، ایسا عرفِ عام

چند ٹکڑے ہیں زمانے کے تسلسل میں کہیں
یعنی پہنائے فضا میں نقطہ بائے ارتسام

کہتے ہیں یہ وقت، قاطع ہے کوئی تلوار ہے
سیل و باد و برق و ظلّ و راہ جس کے اور نام

کوئی کہتا ہے ہمارا وقت تھا جو جاچکا
کوئی کہتا ہے کہ وقت آئے گا اپنا لا کلام

کس طرح آتا ہے وقت اور کس طرح جاتا ہے وقت
مُبتدا ہے یا خبر، پیغامبر ہے یا پیام

کوئی سیلابِ مسلسل ہے حقیقت میں یہ وقت
ہم تماشا کررہے ہوں، یہ گزرتا ہو مُدام

یا تو ہم رفتار میں اپنی سریع السَیر ہیں
وقت اِک انداز پر قائم ہے، ہم ہیں تیزگام

یا مخالف سمت پر ہوتی ہے ہم دونوں کی سَیر
یا ہیں دونوں ہم سفر، وہ تیز ہے ہم سُست گام

ہم نے کاٹا وقت کو یا وقت نے کاٹا ہمیں
یا یہ دونوں کٹ رہے ہیں اور کسی کا حکمِ عام

کیا غضب ہے ہر قدم پر غیر کا محتاج ہوں
مرضیٔ اغیار پر ہے وقت کا میرے قیام

وقت میرا اور رہینِ دورِ خورشید و قمر
وقت میرا اور زمیں کی گردشِ پیہم کا نام

کیوں نہ یہ سمجھیں کہ وقت اپنا اضافی ہوگیا
گردشِ عالم پہ جب ہوں منحصر سب اپنے کام

وقت میرا شیشۂ ساعت میں ذرّے خاک کے
وقت میرا سایۂ اشجار سے ہو فیض کام

ابنِ آدمؑ مقصدِ تخلیق میرِ کائنات
ڈھونڈتا ہے ہر قدم پر دوسروں کی صبح و شام

صبح میری ہے جو مجھ پر رحم کھائے آفتاب
شام میری ہے جو مغرب میں اُفق ہو لالہ فام

وقت کی خاطر ہر اِک گردش کی محتاجی ہوئی
یہ فقیری روز و شب کی، یہ گدائی صبح و شام

وقت کی میں بھیگ مانگوں، کیا یہ ہے منشائے وقت
مجھ پہ کیوں طاری ہے آخر وقت کا معیارِ عام

سب کا یکساں وقت ہوجائے خلافِ عدل ہے
ہے جُدا سب کے لیے اِک ابتدا اِک اختتام

وقت میرا میں بتائوں، ہے یہ نبضِ بے قرار
وقت میرا میرے اس دل کی ہر اِک دھڑکن کا نام

اِس لہو کی ہر اُچھلتی بوند میں اِک وقت ہے
ہر نَفَس کی آمد و شُد ایک ساعت کا نظام

ذرّے ذرّے کے لیے ہے اُس کی ساعت اُس کا وقت
اُس کا اپنا کیف و کم ہے اُس کی اپنی صبح وشام

میری سب گھڑیاں، مِرے اوقات، میری زندگی
یہ ہے میرا وقت میرے ہاتھ میں اس کی زِمام

چند گنتی کے نَفَس ہیں جن کا مجموعہ حیات
اور ناقدری نَفَس کی زندگی کا اختتام

غفلتِ پیہم سے ظاہر اختصارِ زندگی
قدر کی ساعت میں بیداری ہے ہستی کا دَوام

اِک دقیقہ کس کو کہتے ہیں مجھے احساس کیا
وقت کا اِک کم سے کم حصّہ زِرُوئے انقسام

اِس دقیقے کو مگر وہ وسعتیں بھی دی گئیں
زندگی بھر میں احاطہ جن کا سعیٔ ناتمام

ہے شعاعِ مہر کی یہ تیز رفتاری مثال
کچھ دقیقوں میں فلک سے ارض تک جس کا خرام

دعوتِ فکر و نظر ہے سُرعتِ رفتارِ نور
پھیلتی ہیں جب شعاعیں، ہے نظر کو اذنِ عام

سوچ اے ناداں یہ مہر و ماہ و انجم سب کے سب
ایک انساں کے مقابل میں ہے اب تک جنسِ خام

جس طرح لحظوں، دقیقوں پر ہے ساعت منقسم
اِس طرح سے ہر نَفَس کا بھی ہے ممکن انقسام

ایک پتّا جس کی وقعت چشمِ ظاہر میں نہیں
ذرّہ بیں نے دیکھ ڈالے اس میں لاکھوں ہی مَسام

ایسے ہی ہر سانس میں لاکھوں ہیں درجے قدر کے
چشمِ بینا کے لیے ممکن ہے یہ بھی ارتسام

گر رہِ حق میں نَفَس کا ایک اِک حصّہ ہو صَرف
پھر عمل ہو مستمر اور ہو حیات ایسی دوام

پھر تو ایسے وقت سے دُنیا مِلا لے اپنا وقت
اور اِن ہی ساعتوں پر ہو دو عالم کا نظام

مشرق و مغرب میں گھومے لحظہ کچھ باقی ہی تھا
عرش تک جاکر پلٹ آئے، دقیقہ ناتمام

وزن میں اپنے عبادت دو جہاں کی کم رہی
اِک دقیقے میں چلی تلوار ، نکلا حق کا نام

ایک ایسا نفس جو بِک جائے حق کی راہ میں
صدقے اُس کی نیند پر عالم کی بیداری تمام

وقت کو اپنا بناتے ہیں خداوندانِ وقت
اور دو عالم کو انہی کے وقت سے پڑتا ہے کام

وقت اِن کا یہ کسی کے وقت کے تابع نہیں
یہ مہ و خورشید اِن کے وقت کے طائر بہ دام

ہاں یہیں رُک جائے چلتے چلتے اِک دن آفتاب
ہاں یہی تشریحِ وانشقّ القمر کا ہے مقام

ایک طاقت جذب کی ہے ایک طاقت دفع کی
عقل نے ثابت کیا ہے دو ہَوا اور ایک بام

ذرّے ذرّے میں ثَرا سے تا ثریّا دفع و جذب
ہے بہ حدِّ ظرف ان دو طاقتوں کا انضمام

ہے بشر طاقت میں جذب و دفع کی سب سے قوی
اور پھر خیر البشرؐ کی طاقتوں میں کیا کلام

یعنی جس دم جذب نے چاہا ہُوا کوئی قریب
دفع سے پھر اُس کو واپس مل گیا اُس کا مقام

فکر یہ تھی کیسے ہے ممکن قمر کا انشقاق
منقلب کیو ںکر نہ ہوجائے زمیں کا یہ نظام

قوتِ مطلق کے آگے شکل یہ بھی سہل ہے
ناتواں کو غیر ممکن ہو تو ہو یہ انصرام

جذب سے کھینچا قمر کو اُس کی طاقت توڑ کر
دفع سے روکا زمیں کو تَا نہ اُلٹے یہ نظام

چاند سورج کی پرستش میں بشر ہے آج تک
کیا خبر اِس کو کہ قوت کا ہے کس پر اختتام

تا بہ سرحدِّ زباں لا اَعبدُ مَا تعبدُون
اور دل میں آج تک ہے لات و عُزّیٰ کا مقام

اب تک ابعادِ ثلاثہ میں ہے یہ اُلجھا ہوا
اب تک اصنامِ اضافی کا ہے دل میں احترام

ڈوبتے تاروں کو اس نے آج تک دیکھا نہیں
بس طلوعِ نجم سے تارِ نظر کو اس کے کام

ھٰذا ربّی کہہ رہا ہے ہر چمکتی چیز کو
لا اُحِبّ الّافلیں کیوں کر کہے، یہ ہے غلام

جو ہوا طالع اُفق پر اُس کو لازم ہے غروب
گردشِ پیہم سے ٹُوٹے جارہے ہیں سب کے جام

ایک یا ہر ایک میں پنہاں ہے کُل نفع و ضرر
ایک سے بھاگے ہوئے ہر ایک کے دامن کو تھام

ایک ہی کے وقت کا مرہونِ منّت میں رہوں
دوسروں کے وقت پر اے کاش جینا ہو حرام

وقت کے اس راز کی والفجر میں تفسیر ہے
یعنی جس دن کے لیے تھا دس شبوں میں اہتمام

تھی جہاں ہر شب، شبِ قدر انفرادی شان سے
ایسی دس راتیں تھیں جس کا ایک دن ہم احترام

ایک ایسا دن کہ جس میں ایک ہی سے ربط تھا
ربط بھی ایسا کہ یہ تھا عبد وہ رَب کا مقام

صبح سے تا عصر کچھ محدود ہی تھیں ساعتیں
دوپہر میں کس قدر مصروف تھے وہ شاد کام

کچھ دقیقوں کا وہ سجدہ قدر کی کُل رُوح تھی
منقسم ہوجائے عالم پر تو نکلیں سب کے کام

اپنے وعدے کا جنھیں تھا زندگی بھر انتظار
وقت پر مرنے کا جن کے ہورہا تھا اہتمام

سب ہی جیتے ہیں مگر ہے وقت پر جینے میں لطف
سب ہی مرتے ہیں مگر ہے وقت پر مرنے میں نام

وقت کو تو ہم نے کاٹا وقت سے اب کیا گِلہ
زندگی بے قدر گزری موت پر کیا اتّہام

وقت سارا منحصر ہے قدر پر، گَر یہ نہ ہو
پی کے آبِ زندگی انساں رہے گا تشنہ کام

اپنی قیمت میں شبِ قدر اَلْفِ شہرٍ سے سِوا
یعنی قیمت قدر پر موقوف ہے بالالتزام

گر بشر کو قدر ہو تو ہر نَفَس خود پھیل جائے
نور کی رفتار سے اُس کا عمل ہو تیز گام

دہر کی صدیاں ہیں گویا کچھ دقیقے نور کے
گر بشر نوری ہو طُولِ عمر میں پھر کیا کلام

نور میں پنہاں ہے کوئی کچھ دقیقوں کے لیے
اور ہم صد ہا برس سے منتظر ہیں صبح و شام

جس کا اپنا وقت ہو اور جس کو اپنا انتظار
ہے وہی قائمؑ جسے حق نے دیا مطلق قیام

پھر اضافت ہے، اگر بدلے مکاں بدلے زماں
لامکاں ہے عصر کا حاکم زمانے کا امامؑ

اے الٰہی شانِ غَیبت، آپ ہیں رُوحِ دُرود
اے محمدؐ کی حقیقت، آپ ہی عینِ سلام

اور کتنی دیر ہے اب صبح ہونے میں حضور
اور کب تک ہم کو رُلوائے گی یہ غربت کی شام

ہے فضا میں اب بھی اِک معصوم ہچکی کی صدا
جیسے دم توڑے کوئی ننھا سا بچہ تشنہ کام

کوئی بچی چیختی پھرتی ہے شاید دشت میں
جل رہا ہے جیسے اُس کے جسم کا کُرتہ تمام

لُٹ رہا ہے کیا کہیں صحرا میں کوئی قافلہ
اِک دُھواں سا ہے کہ جیسے جل رہے ہوں کچھ خیام

گیارہویں کے چاند سے تفصیلِ محشر پوچھ لے
بارہویں سردار، سُن لے اب یہ عرضِ ناتمام

العجل اے وارثِ خونِ شہیداں العجل

انتقام، اے منتہائے آہِ زہراؑ، انتقام

Scroll to Top