نہ دشمنی نہ محبّت اگر نگاہ نہ ہو

نہ دشمنی نہ محبّت اگر نگاہ نہ ہو
کسی کا کوئی اندھیرے میں خیرخواہ نہ ہو

بنامِ عِلم و عمل خود فریبیاں کب تک
زمینِ مدرسہ آخر کو خانقاہ نہ ہو

مِنیٰ و مَشعر و زَمزم، طواف و بوسۂ حجر
کہا یہ کس نے عبادت میں رسم و راہ نہ ہو

بہ اعتبارِ اثر ہیں اُفق بھی سب کے جُدا
کہاں ہے فکر و نظر ایک، اشتباہ نہ ہو

یہ کون بیٹھا ہے رستے میں کجکلاہ فقیر
پناہ مانگ رہا ہے جہاں پناہ نہ ہو

قبولِ خیر کہاں، اصل میں جو خیر نہیں
جو روشنی کی طلب ہے تو دل سیاہ نہ ہو

سہارا ڈھونڈنے والے بلندیوں کو سمجھ
جب آئے زور میں طوفاں، یہ کُوہ کاہ نہ ہو

بنارہے ہیں جو ظالم کو مِل کے سب مظلوم
نظامِ عدلِ عمومی کہیں تباہ نہ ہو

نَفَس نَفَس پہ اِقامت طلب ہے ذوقِ سجود
قدم قدم پہ جو ڈر ہے کہ وعدہ گاہ نہ ہو

بس اُن کی بزمِ محبّت میں ہو اُنھی پہ نظر
مجھے پھر اپنا خیال آئے یہ گناہ نہ ہو

ستم ہے اُن کے لیے قید و بندِ عقل رشیدؔ
جو چاہتے ہیں کریں عیش، انتباہ نہ ہو

Scroll to Top