نہیں ہے آتشِ زرتُشت

نہیں ہے آتشِ زرتُشت، روز و شب نہ جلے
یہ دل ہے جلوہ گہِ طُور، بے سبب نہ چلے

ہے باغباں کی یہی مصلحت تو عبرت ہے
جلا ہے میرا نشیمن تو سب کا سب نہ جلے

ہوائے دہر سے شعلے بھڑک رہے ہوں جہاں
خدا کی شان ہے، کوئی ہو جاں بلب نہ جلے

دل و نگاہ کی وسعت عجب بلندی ہے
حسد ہے دل میں تو کیوں کوئی کم نسب نہ جلے

بھڑک رہی ہے جو یہ شمع بے سلیقہ ہے
ہَوا کے رُخ کو سمجھ لے تو بے ادب نہ جلے

بنَا ازل میں جو قانونِ شمع و پروانہ
یہ لکھ دیا گیا کوئی ہَوا طلب نہ جلے

نگاہِ لطف جو مجھ پر تھی بزم میں تو کہا
یہ اِک چراغ زیادہ جلا ہے، اب نہ جلے

رشیدؔ عِلم سے اپنے حیات روشن ہے
ہر ایک دَور میں تھے یہ چراغ، کب نہ جلے

Scroll to Top