نہج البلاغہ اور علّامہ رشید ترابی

علّامہ طالب جوہری (خطیب و دانشور )

( ترابی صدی یادگاری لیکچر سے اقتباس)

سخن ہائے گفتنی میرے پاس بہت تھے، لیکن میں نے انتہائی مختصر ترین الفاظ میں ‘”نہج البلاغہ“ کا مختصر ترین تعارف کرانے کی کوشش کی۔

سمجھ میں آگئی نہج البلاغہ؟۔۔۔ کتنی عجیب کتاب ہے!

عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے جو لوگ ہیں، جنھوں نے خطابت کی، ہم نے بزرگوں کو سنا نہیں لیکن بزرگوں کی باتیں تو سنی ہیں۔ کسی نے شعوری طور پر نہج البلاغہ کو بنیاد بنا کر مجلس نہیں پڑھی، خواہ سرنامۂ کلام میں نہج البلاغہ پڑھی ہو یا نہج البلاغہ کو درمیان میں quote کیا ہو۔ اس لیے کہ اس میں labour بہت لگتی ہے۔ نہج البلاغہ یاد کرنی پڑتی ہے۔ اس کی اوّلیت کا سہر اعلّامہ ترابی مرحوم کے سر بندھا ہوا ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ نہج البلاغہ کو مرکزی بنیاد بنا کر اپنی مجلسوں میں پیش کیا۔

      میں حوالہ دے رہا ہوں، میں خود موجود نہیں تھا۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر سالانہ مجالس ہوا کرتی تھیں۔ ان مجلسوں میں ایک سال علّامہ موصوف نے نہج البلاغہ پر تقریرفرمائی۔ پوری مجلس کا مرکزی موضوع نہج البلاغہ تھا۔ اور وہ خطبہ تھا جو علیؑ نے چیونٹی پر دیا۔ چیونٹی پر بولتے بولتے کائنات پر بولنے لگے اور کائنات پر بولتے بولتے پھر چیونٹی پر آئے۔ (وقت ہوتا تو میں آپ کی خدمت میں وہ خطبہ بھی پیش کرتا )۔ اس کے بعد علیؑ نے ایک عجیب جملہ کہا کہ کائنات کو دیکھو اور چیونٹی کو دیکھو اور چیونٹی کو دیکھو تو نہیں اندازہ ہوگا کہ جو خالقِ ”نملہ“ ہے وہی خالقِ”نخلہ“ ہے۔ جس نے چیونٹی بنائی اُس نے کھجور کا درخت بھی بنایا ہے۔ اس طریقے سے چیونٹی سے توحید پر اور کھجور سے توحید پر استدلال کیا ہے۔

      علّامہ مرحوم نے جو تقریر کی، وہ غالباً اتنی انوکھی اور جدید تھی کہ اُس زمانے کے لکھنؤ کے ہفت روزہ ‘”سرفراز“ نے اس پر ادارتی نوٹ لکھا اور کہا کہ اگر یہ رواج ہوگیا تو ذاکری خطابت کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ اُنھوں نے اپنی کسی تقریر میں اس کا حوالہ دیا تھا۔ میں نے سنا تھا اس لیے اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ تو علّامہ کی ذات وہ ذاتِ گرامی تھی جس پر نہج البلاغہ طاری تھی۔ میں سچی بات کہہ رہا ہوں ۔

      اچھا یہ جملہ جو میں نے کہا، تو میں نے بہت زیادہ نہیں سنا۔ اس لیے کہ اُن کا جو پرائم ٹائم تھا، اُس وقت میں نجف کا طالبِ علم تھا۔ اس سے پہلے میری لاشعوری کا زمانہ تھا۔ بعد میں بہت کم سنا لیکن اتنا مجھے معلوم ہے اور جو معلوم ہے وہی عرض کر رہا ہوں ۔۔۔ انھوں نے جب مجالس ( پڑھنے ) کا آغاز کیا تو وہ اپنے خطبے میں کہا کرتے تھے۔ بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِى ذِكْرُهُ شَرَفٌ لِلذَّاكِرِينَ وَشُكْرُهُ فَوْزٌ لِلشَّاكِرِينَ وَ يَا مَنْ طَاعَتُهُ نَجَاةٌ لِلْمُطِيْعِيْنَ‏.

Early Sixtees کی بات کر رہا ہوں ۔ یہ صحیفۂ سجادیہ میں امام زین العابدین ؈ کی دعا کے تین جملے ہیں۔

 الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِى ذِكْرُهُ شَرَفٌ لِلذَّاكِرِينَ حمد اس اللہ کی کہ جس کا ذکر ذاکرین کے لیے شرف ہے وَشُكْرُهُ فَوْزٌ لِلشَّاكِرِينَ اور اس کا شکر کرنے والوں کے لیے کامیابی ہے اور طَاعَتُهُ نَجَاةٌ لِلْمُطِيعِين اور اس کی اطاعت ہے نجات ہے اطاعت کرنے والوں کے لیے ۔ آخری زمانے میں سورۂ اعراف کی آیت پڑھتے تھے۔

الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ ہَدٰىنَا لِـھٰذَا۰ۣ وَمَا كُنَّا لِنَہْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰىنَا اللہُ۰ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۰

      درمیان میں پوری زندگی انھوں نے دو خطبے پڑھے اور دونوں نہج البلاغہ کے خطبے تھے۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي إِلَيْهِ مَصَائِرُ الْخَلْقِ وَ عَوَاقِبُ الْأَمْر۔۔۔ حمد اُس اللہ کی کہ ساری مخلوقات کی بازگشت اس کی طرف ہے اور سارے اُمور اُسی کی طرف پلٹ کے جانے والے ہیں۔

       نَحْمَدُهُ عَلَى عَظِيمِ إِحْسَانِهِ وَ نَيِّرِ بُرْهَانِهِ وَ نَوَامِي‏ فَضْلِهِ وَ امْتِنَانِه‏۔ ہم حمد کرتے ہیں اس کے فضل و کرم کی، ہم حمد کرتے ہیں اس کی روشن دلیلوں کی ۔ ہم حمد کرتے ہیں کہ اس کی جو نعمتیں ہیں وہ متواتر ہیں۔

      اس کے بعد کا ایک جملہ چھوڑ کے وہ خطبے میں پڑھا کرتے تھے ۔ لَمْ يُولَدْ سُبْحَانَهُ فَيَكُونَ فِي الْعِزِّ مُشَارَكاً پیدا نہیں ہوا کہ اُس کا باپ اس کی عزت میں شریک ہو جاتا۔ وَ لَمْ يَلِدْ فَيَكُونَ مَوْرُوثًا هَالِكًا اور اُس نے پیدا نہیں کیا کہ اگر وہ پیدا کرتا تو اس کا وارث ہو کے مرجاتا۔

      نوف بکالی ہمارا بہت بڑا راوی ہے۔ کبھی اس آدمی پر پھر بات کریں گے۔ وہ کہتا ہے کہ کوفے کے شہر میں جعدہ ابنِ ہبیرہ مخزومی نے ( جو کہا جاتا ہے کہ علیؑ کا بھانجا تھا) ایک پتھر لاکے رکھا اور علیؑ اس پتھر پر کھڑے ہو گئے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ علیؑ کے ماتھے پر سجدے کا نشان تھا۔ تلوار علیؑ کے بغل میں حمائل تھی اور وہ خُرمے کے چھالوں سے بندھی ہوئی تھی۔ علیؑ کے جسم پر اُونی لباس تھا۔ کھدر۔ علیؑ کے پیروں میں جوتی نہیں تھی بلکہ انھوں نے خرمے کے پتّے لپیٹ لیے تھے اور اس کیفیت میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا ( جس کا اقتباس علّامہ مرحوم اپنے خطبے میں پیش کرتے تھے ) یہ خطبہ واقعی پڑھنے کے لائق ہے اور اگر پڑھو گے تو سمجھ میں آئے گا کہ تمہارا خدا کون ہے۔

      اِس خطبے کے بعد اُنھوں نے جو خطبہ برسہا برس پڑھا (وہ یہ تھا)۔ اَلحَمْدُ لِلهِ الَّذِي لَا يَفْرُهُ الْمَنْعُ وَالْجَمُودَ وَلَا يُكَذِبِهٖ الْإِعْطَآ وَلْجُودُ۔ إِذ كُلُّ مقطٍ مُنْتَقَص سِوَاهُ. وَكُلُّ مَانِعٍ مَذْمُوْماً مَاخَلَاهُ.

      سترہ سال اُنھوں نے یہ خطبہ پڑھا۔ عجیب خطبہ ہے۔ حمد اُس اللہ کی کہ اگر وہ کسی کو دینے سے روک لے تو اُس کا روکنا اس کے لیے عیب نہیں بنتا۔ یعنی عجیب بات ہے کہ اگر اللہ کسی سے نعمتیں روک لے تو اُس کا روکنا اُس کے لیے عیب نہیں بنتا اور اگر اللہ کسی کو دے دے تو اُس کے دینے سے اُس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس لیے کہ وہ واحد سخی داتا ہے کہ جب دے تو اُس کا خز نہ اُتنے کا اتناہی رہتا ہے اور وہ واحد ذات ہے پوری کائنات میں کہ اگر رو کے تب بھی عدل ہے اور اگر دے دے تب بھی عدل ہے۔

      علّامہ کی پوری زندگی پر نہج البلاغہ طاری تھی کہ انھوں نے نہج البلاغہ سے ہی خطبوں کا انتخاب کیا۔ حد تو یہ ہے کہ اُن کی شاعری کا جو مزاج بنا وہ بھی نہج البلاغہ سے بنا۔

      ساری دنیا متفق ہے کہ اُن کی خطابت کا عالمی معیار ہے۔ خطابت کی ایک صورت ہوتی ہے ایک مفہوم۔ صورت یعنی الفاظ معنی یعنی مفہوم۔ وہ اپنی خطابت کی صورت اور معانی دونوں میں منفرد تھے۔ آواز کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر لفظ کا ایک ردھم ہے اور یہ ردھم اگر لحن میں آئے تو ترنّم بن جاتا ہے اور اگر نثر میں آئے تو خطابت بن جاتا ہے۔

      نظم میں بولنے کا ایک اسٹائل ہے آپ نے مرثیہ خانوں کو سنا ہو گا۔ آپ نے مکالمے سنے ہوں گے۔ ڈائی لاگ سنے ہوں گے۔ یہ بھی ایک علم ہوتا ہے۔ آپ نے لحن میں شاعری سنی ہوگی۔ وہ بھی بولنے کا ایک طریقہ ہے۔ علّامہ مرحوم نے سب سے پہلے لفظوں کا انتخاب کیا پھر لفظوں کا صحیح تلفظ کہ اُن کو کس طریقے سے بیان کیا جائے گا۔ پھر الفاظ کے زیرو بم۔ اس سے خطابت کی صورت بنائی اور خطابت میں جدید موضوعات کو موضوعِ سخن بنایا، مثلاً بندگی، اسلام میں عدل کا تصور، منشورِ حقوقِ انسانی۔ ان سارے موضوعات پر آپ نے گفتگو فرمائی۔

      اگر زمانے نے مہلت دی تو میں بتاؤں گا کہ نہج البلاغہ سے علّامہ نے کہاں کہاں استفادہ کیا۔ حد یہ کہ انھوں نے اپنی شاعری میں نہج البلاغہ سے استفادہ کیا۔ میں ایک شعر پر اپنی گفتگو کو تمام کر رہا ہوں۔ علی شریعتی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ علیؑ سیّدہؑ کے بعد بڑے تنہا تھے یعنی بات کرنے کے لیے کوئی میسر نہ تھا۔ ایسے میں نہج البلانہ کو پیش کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بات کرنی تو آتی تھی سمجھنے والے موجود نہ تھے۔ اس بات کو ایک شعر میں علّامہ ترابی نے کہا اور اس سے بہتر کہنا ممکن نہیں ہے

درد اندازِ دَرماں سے سوا ہوتا ہے

ہائے وہ عقل جو نرغے میں ہو نادانوں کے

*****

   میں اپنے بچپن ہی سے قبلہ مرحوم علّامہ رشید ترابی کی شخصیت کا مداح و معترف رہا ہوں اور آج بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ ان کا انداز خطابت منجملہ توفیقاتِ الٰہی تھا۔ وہ اپنے اسلوبِ خطابت کے اوّل و آخر تھے۔ مرحوم اگر چہ رسمی طور پر اسلامی علوم میں کسی مدرسے کے فارغ نہیں تھے لیکن ان علوم سے ان کی شناسائی حیرت انگیز اور لائقِ اتباع تھی۔ اتنی ہی حیرت انگیز ان کے مطالعے کی وسعت تھی جس کا اظہار جابجا اُن کی خطابت میں ہوتا تھا۔ خطابت ترابی صاحب قبلہ اَعلی اللہ مقامہٗ کی شخصیت کی ایک جہت ہے، جب کہ اُن کی دوسری جہتیں بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں، ان پر بھی تفصیلی اور سیر حاصل گفتگو ہونی چاہیے ۔ (علّامہ طالب جوہری) ”منبر کا دوسرا نام“

Scroll to Top