نظر شناس رفیقوں کا ساتھ جب چُھوٹا

نظر شناس رفیقوں کا ساتھ جب چُھوٹا
چمن کا ذکر جو کرتے تھے روز و شب، چُھوٹا

غضب ہراس تھا جس دن ہٹے نشیمن سے
عجیب یاس سے دل نے کہا کہ اب، چُھوٹا

وہی ہے عقل کے نزدیک احتجاج کی رُوح
جو راز بن کے کوئی حرف زیرِ لب چُھوٹا

یہ حُسن و عشق کی باتیں سہی، وقار گیا
کسی کے ہاتھ سے جب رشتۂ ادب چُھوٹا

بہانہ ڈھونڈتی ہے مصلحت رہائی کا
اسیر کیا کوئی زنداں سے بے سبب چُھوٹا

ہمارے اور بھی ساتھی تو اُس قفس میں تھے
ذرا سی دیر کو سوچو تو کون کب چُھوٹا

زمانہ ساز جو یہ پیرہن پہن کے چلے
نمی ہوا میں بھی آئی تو رنگ سب چُھوٹا

رشیدؔ قدر کے قابل ہے کچھ وہی انساں
جو ناکَسوں میں گِھرا اور بصد تعب چُھوٹا

Scroll to Top