نثر کے انیسؔ

سیّد ہاشم رضا ( ممتاز شاعر وادیب اور معروف (ریٹائرڈ) سینئر سول سرونٹ )

جس دن علّامہ رشید ترابی نے مجھے اور اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دیا، اُس دن میں کراچی سے بہت دور لاہور میں تھا۔ جیسے ہی مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو بے ساختہ میرے منہ سے یہ جملہ نکلا۔

”ہائے اب ہم میں کوئی دبیرؔ نہیں“

      مجھے دبستان انیسؔ کے ایک جلسے میں شرکت کے لیے راولپنڈی جانا تھا۔ اس جلسے میں ذکر انیسؔ کا تھا تو ذاکرِ شہدائے کربلاؑ علّامہ رشید ترابی کا ذکر کیسے نہ آتا چنانچہ میں نے علّامہ رشید ترابی کو صرف ایک جامع فقرے میں یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ۔

”علّامہ رشید ترابی اس دور میں نثر کے انیسؔ تھے“

      میں نہ انیسیہ ہوں اور نہ دبیر یہ۔ لیکن دورِ حاضر ہوں اگر میں نے انیسؔ و دبیرؔ کو مجسم دیکھا اور بولتا ہوا سنا ہے تو وہ انیسؔ اور وہ دبیرؔ علّامہ رشید ترابی ہی تھے اور اگر علّامہ رشید ترابی کے دوست اور ہم مشرب نواب بہادر یار جنگ کو بھی اس موقع پر یاد کر لیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ نواب بہادر یار جنگ اور علّامہ رشید ترابی دونوں سیاست کے انیس ودبیر تھے دونوں میں تین چیز میں بڑی مشترک تھیں۔

”اسلام، اقبال اور پاکستان“

دونوں اسلام کے مبلّغ دونوں اقبال کے حافظ ، دونوں نظریۂ پاکستان کے عاشق جاں نثار، بہادر یار جنگ پاکستان نہ دیکھ سکے۔ البتہ علّامہ رشید ترابی اس اعتبار سے شادکام عاشق ہیں، کہ بالآخر انہیں ان کے محبوب یعنی پاکستان کی مٹّی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔

      کہتے ہیں کہ ”ذکرِ حق میں نہ زبان کبھی تھکتی ہے اور نہ ذاکر کو کبھی تھکن محسوس ہوتی ہے۔“ یہ قول بلاشبہ علّامہ رشید ترابی پر صادق آتا ہے۔ ایک ایک دن میں تین تین مجلسیں پڑھتے تھے لیکن اس کے باجود تر و تازہ اور مزید بولنے کے لیے پھر سے تازہ دم ۔ بڑے دل والے تھے۔ دل سے بولتے تھے اس لیے ان کی بات بھی سننے والوں کے دل میں اُترتی جاتی تھی اور ان کی دلآویز باتیں سن کر سننے والا حیرانی سے سوچتا تھا کہ :

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

دل والے بالآخر بیماریِ دل ہی سے فریش ہوتے ہیں۔ علّامہ بھی دل کے مرض بلکہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ میں عیادت کے لیے گیا اور اُن سے عرض کیا ”اب بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ دل پر پہلا حملہ قدرت کی طرف سے پہلی وارننگ ہوتا ہے کہ اب آگے احتیاط سے زندگی بسر کرو۔“

بدن سا شہر نہیں دل کا بادشاہ نہیں

اس خمسہؔ سے بڑھ کو کوئی سپاہ نہیں

مگر دل والے کب کسی کی نصیحت سنتے ہیں۔ اُن کی بے احتیاطی کا ایک واقعہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔

       میں گزشتہ سال چہلم کی مجلس میں ایک غلط فہمی کے باعث نہ جا سکا۔ غلط فہمی علّامہ صاحب کی علالت کے باعث پیدا ہوئی تھی وہ جناح اسپتال کے شعبۂ امراضِ قلب کے ایک بستر پر دراز تھے۔ میں نے سوچا، علّامہ تو چہلم کی مجلس پڑھنے نہیں جاسکیں گے، لیکن دوسرے دن مجھے بہت سے دوستوں نے بتایا کہ علّامہ رشید ترابی نے مجلس پڑھی اور خوب پڑھی۔ میں حیران کہ کہاں جناح اسپتال کا بستر اور کہاں مجلس کا منبر، مجھے یقین نہ آیا تو میں اُنھی سے تصدیق کرنے سیدھا جناح اسپتال کے کارڈیو ویسکولر انسٹیٹیوٹ پہنچا۔ علّامہ بستر پرلیٹے تھے۔ میں نے مجلس پڑھنے کی بابت پوچھا تو بولے۔

      ”ہاں میں مجلس پڑھنے گیا تھا، ہر چند کہ میرا ارادہ نہ تھا لیکن موضوع تھا جنگی قیدی۔ امامِ عالی مقامؑ بھی تو اسیر تھے آلِ ؑرسولؐ بھی اسیر اور اب اُمّتِ رسولؐ کی اسیری کا ذکر، دل نہ مانا، چلا گیا ۔“

میں نے پوچھا ”مگر آپ اسپتال سے نکلے کیسے؟“

      مسکراتے ہوئے بولے، ”میں نے دیکھا کہ سامنے میدان صاف ہے۔ ڈاکٹر کوئی نہیں تھا، نرسیں مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔ میں چپکے سے لفٹ تک پہنچ گیا ، لفٹ مین نے حیران ہو کر پوچھا ”آپ کہاں جارہے ہیں؟ “ میں نے کہا۔ نیچے ۔۔۔ ہمیں بھی نیچے لے چلو“

      لفٹ مین نے سوچا کہ شاید نیچے ٹہلنے جارہا ہوں۔ اس نے نیچے پہنچا دیا، باہر میرا ڈرائیور مجھے دیکھ کر حیران، اُس نے پوچھا تو میں نے بتادیا کہ مجلس پڑھنے جارہا ہوں ۔ ڈرائیور نے کہا ”مگر آپ کے جسم پر نہ شیروانی اور نہ سر پر ٹوپی ہے، مجلس کیسے پڑھنے جائیں گے آپ۔“

      تو میں نے ڈرائیور سے کہا ”تو جاؤ پھر اُوپر سے میری شیروانی اور ٹوپی لے آؤ مگر احتیاط سے کہ کسی کو پتا نہ چلے“

      ڈرائیورٹوپی اور شیروانی لے آیا، ہم گئے اور مجلس پڑھ آئے۔

پکارتی تھی اسیری مجھے مذامت تھی

جب آنکھ بند کیجئے عابدؑ کے دھیان میں

آواز تاز یانوں کی آتی ہے کان میں

      میں نے عرض کیا انیسؔ کا ایک شعر اُن کے نام کے بجائے آپ کے اسمِ گرامی سے پڑھتا ہوں تا کہ آپ اس شعر ہی کے پیش نظر اپنی صحت کے بارے میں محتاط ہو جائیں کہ

رشیدؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

      مسلمان کی حیثیت سے یہ ہم نہیں کہ سکتے کہ علّامہ رشید ترابی کی موت بے وقت ہوئی۔ پچھلے دنوں یہاں لیاقت علی خان شہید کے لیے ایک جلسہ ہور ہا تھا تو کسی مقرر کہا۔ لیاقت علی خان کی موت ناوقت ہوئی۔ میں نے تصحیح پیش کی۔ ناوقت نہیں کہا جائے، بلکہ نا گہاں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ موت برحق ہے۔ فوق البشر رسول اکرمؐ 63 برس عمر کے تھے تو وصال پاگئے ۔ یعنی اُن کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ لہٰذا موت کا شکوہ کیا جو برحق ہے، لازم ہے۔ ہاں البتہ موت کا غم اور ماتم تو فطری ہے۔ اس لیے علّامہ ترابی کی موت کا شکوہ کیا۔ ان کی موت کا الم یقیناً بے پایاں ہے۔

      علّامہ رشید ترابی کا حافظہ واقعی خداداد تھا۔ آپ کتابیں پڑھ کر علم کو بڑھا سکتے ہیں لیکن حافظہ کیسے بڑھا سکتے ہیں۔ حافظ تو یقیناً خدا کی دین ہے۔ ہر موضوع کے لیے ان کا حافظہ مددگار تھا۔ ایک بار میرے بھائی کاظم رضا مرحوم کی مجلس میں پوچھا۔ ”کس موضوع پر بولوں“۔ میں نے عرض کیا۔ ”ادب“

      انھوں نے ادب کے موضوع پر ادب کا دریا بہانا شروع کر دیا۔ کلامِ پاک میں شاعروں کے بارے میں ایک آیت ہے کہ شاعر مجنوں ہیں، ان کے قریب نہ جاؤ۔ علّامہ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ”شاعر مجنوں ہیں ان کے قریب نہ جاؤ“ سوائے ان شاعروں کے جو ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔

      علّامہ ترابیؔ بھی ظلم کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ وہ آزادیِ فکر اور آزادیِ اظہار کے سب سے بڑے علمبر دار تھے۔ انھوں نے اس معاملے میں ایک سخت گیر آمرانہ حکومت کی بھی پروا نہیں کی ۔ 1958ء میں جب پہلی بار مارشل لاء کی حکومت پاکستان پر مسلط ہوئی تو اُس وقت کے سیکریٹری اطلاعات نے حکم جاری کیا کہ  ”جب تک علّامہ رشید ترابی کی تقریر کا مسوّدہ پہلے ریڈیو پاکستان کے حکّام سے منظوری حاصل نہ کرلے مجلسِ شامِ غریباں ریڈیو پاکستان سے نشر نہ کی جائے ۔“

      علّامہ ترابی نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں لکھ کر تقریر نہیں کرتا۔ اور حاضرین کو دیکھنے کے بعد تقریر کے موضوع کا انتخاب سرِ منبر کرتا ہوں اس لیے پہلے سے کیا بتلا سکتا ہوں کہ میں کیا تقریر کروں گا ۔ چنانچہ دو سال 1958ء اور 1959 ء ریڈیو پاکستان سے شامِ غریباں نشر نہ ہوئی لیکن حق کی آواز کسی ریڈیو کی محتاج نہیں ہوتی البتہ ریڈیو حق کی آواز کامحتاج ہوتا ہے۔ اس لیے محکمۂ اطلاعات اور ریڈیو پاکستان کو ہار ماننی پڑی اور 1960ء سے علّامہ رشید ترابی کی مجلس ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے ہر سال سنی اور دیکھی جاتی رہی۔

      مگراب 1974 ء سے شامِ غریباں علّامہ رشید ترابی کی آواز کو ترستی رہے گی۔

      ہر چند کہ علّامہ رشید ترابی ہمیں یقین دلاتے رہیں گے کہ

بعد از وفات تربت مادر زمیں مجو

در سینہ ہائے مردم عارف مزار ما

(میں بعدِ مرگ بھی بزمِ وفا میں زندہ ہوں، تلاش کر میری محفل مِرا مزار نہ پوچھ )

میری ڈائری کا ایک وَرَق ملاحظہ فرمائیے۔ 14 جون کو علّامہ رشید ترابی پر دل کا شدید دورہ پڑا۔ 16 جون کو ان کا بلڈ پریشر نقطهٔ صفر تک پہنچ گیا۔ میں نے جب کارڈیو ویسکولر انسٹیٹیوٹ میں ان کی مزاج پرسی کی تو اُنھوں نے فرمائش کی کہ ان کی طرف سے ایک مناجات لکھوں۔ میں نے دوسرے دن اُن کی خدمت میں یہ اشعار پیش کردیئے۔ مجھے ان اشعار کا بڑا صلہ ملا یعنی اُن کی پر خلوص دُعائیں ملیں۔ وہ اشعار یہ ہیں:

حکمت میں اپنی شانِ کریمی دِکھا تو دے

تُو کار ساز ہے مِری بگڑی بنا تو دے

تُو نے دیا ہے خلق کو مال و منال و زر

اے ربِّ ذوالجلال مجھے آسرا تو دے

دلداریوں سے تیرے زمانہ ہے فیضیاب

میرے دلِ حزیں کی حرارت بڑھا تو دے

طوفانِ ابر و باد نے گھیرا ہے چار سُو

کشتی میری بچا کے کنارے لگا تو دے

مخلوق کہہ رہی ہے کہ خالق کوئی نہیں

اِک اور آب و گل کا تماشہ بنا تو دے

اِک شور ہے کہ بعدِ فنا زندگی نہیں

اِن غافلوں کو حشر کا منظر دکھا تو دے

وِکھلا دے منکروں کو جھلک روزِ حشر کی

پل کے لیے حجاب کے پردے گِرا تو دے

گو مستحق نہیں ہیں دِیئے جا رہا ہے تُو

 جو تجھ سے پھر گئے ہیں انھیں کچھ سزا تو دے

جنت کو لوگ کہتے ہیں خوش فہمیِ خیال

کوثر کی ایک موج جہاں میں بہا تو دے

کہسار میں بہار بھی ہے آبشار بھی

دو چار ریگزار میں چشمے بہا تو دے

یوسفؑ کا حُسن قصّۂ پارینہ ہو گیا

دُنیا تڑپ اُٹھے کوئی ایسا بنا تو دے

عقل رسا ہر ایک کو حاصل ہو جب تلک

محکم یقین گر نہیں خُوئے وفا تو دے

صدیوں سے سب کو عیسیِٰؑ دوراں کی ہے تلاش

ربِّ مسیح تھوڑے سے مردے جِلا تو دے

صدقہ تِرے رسولؐ کا آلِؑ رسولؐ کا

برسوں کی ذاکری کا مجھے کچھ صلہ تو دے

دُنیا کو آستانۂ وحدت پہ پھیر دوں

صرف اِک شہید حق کا مجھے خوں بہا تو دے

Scroll to Top