میری موت
بارگاہِ ختمی مرتبتؐ سے استمداد
تھیں یہی انگڑائیاں اِک دن جوانی کی بہار
نزع کے جھٹکوں میں جن کا ارتقا ہے آشکار
سَر اُٹھاکر یہ سمجھتے تھے کہ دنیا بس میں ہے
اب جھکی گردن کہ جب دنیا ہوئی سَر پر سوار
مسکراتے تھے جوانی کی بہاریں لُوٹ کر
اب ہنسی آتی ہے جب لُٹنے کو ہے اپنی بہار
ہوسکے تو روک کر اِن جانے والوں سے سنو
اِن کی دنیا کا فسانہ وہ فریبِ اقتدار
مل سکے تو شوق سے دنیا کی ہر نعمت کو لو
پہلے مستحکم تو کرلو اپنا دستِ رعشہ دار
زندگی آغاز میں شفّاف اِک آئینہ ہے
موت کے انجام تک اُس پر جِلا ہے یا غبار
گود میں لے کر کھلونے جیسے بچّہ سو رہے
لے کے دُنیا قبر میں سوتے ہیں کتنے ذِی وقار
کتنے رنج و غم ہیں لازم اِک مسّر ت کے لیے
کتنی موتیں نخلِ ہستی کے لیے ہیں برگ و بار
رونقِ بازار بن جاتی ہے ظالم زندگی
جب نکلتے ہیں گھروں سے سب پریشاں روزگار
زندگی کو یاد کرنا موت کے ہنگام پر
ہے یہ دستورِ جہاں سب مرنے والوں کا شِعار
زندگی میری، مِری دُنیا کا ہنگامِ عمل
موت میری، میرے ہنگامِ عمل کا اختصار
زندگی بھی ہے اضافی، ہے اضافی موت بھی
ہم نہیں ہوں گے مگر ہوں گے یہی لیل و نہار
ہم نہ ہوں گے یونہی چمکے گا ستارہ صبح کا
شامِ غم خونِ شفق سے یونہی ہوگی اشکبار
ذرّے ذرّے کے لیے اُس کا عروج اُس کا زوّال
غنچے غنچے کے لیے اُس کی خزاں اُس کی بہار
زندگی کیا ہے کسی گلشن میں آویزاں قَفَس
موت کیا ہے خودبخود پیدا ہو گر راہِ فرار
زندگی کشتِ عمل کی آبیاری سر بہ سر
موت کیا ہے فکرِ حاصل، انتظارِ برگ و بار
لَیسَ للاانسان اِلّا ما سَعَی ہے زندگی
کانَ امرُ رَبّکَ پر موت کا ہے انحصار
زندگی اور موت یہ دو منزلیں ہیں رُوح کی
ایک منزل حَصر کی ہے ایک منزل بے حِصار
زندگی مرکز پہ آکر کام کرنا رُوح کا
موت گویا انتشارِ رُوح، یعنی ختمِ کار
زندگی ارمان کے تارے کی جگمگ رات بھر
موت اُس تارے کا گِرنا ٹُوٹ کر بے اختیار
زندگی گونگے تخیّل کے لیے خوابِ عجیب
موت اِک سعیٔ تکلّم، چونک پڑنا ایک بار
زندگی وہ اختیار اپنا جہاں، باطن میں جبر
موت یعنی جس کا ظاہر جبر، باطن اختیار
زندگی کیا ہے سراپا اعتبارِ آرزو
موت کیا ہے فی الحقیقت آرزوئے اعتبار
زندگی کیا ہے مسلسل غیر محسوس اِک سفر
موت کیا ہے بے ارادہ ایک منزل پر قرار
زندگی کیا ہے تلاشِ دوست کی حیرانیاں
موت وعدے کی گھڑی ہے یعنی خاموش انتظار
کاش وہ آتے، وہ آئے، آگئے وہ آگئے
میرا جانا اُن کا آنا، وقت کم باتیں ہزار
آنے والے میری دُنیا کیا چُھپائوں کیا کہوں
داستاں اِک عمر کی اور دو نَفَس کا اختصار
السّلام اے راز دارِ خلوتِ بزمِ ازل
السّلام اے صبحِ اوّل فخرِ جنسِ اعتبار
السّلام اے منتہائے نعرہ ہائے ہُوکشاں
موت کو آسان کر اے وقت کے پروردگار
جام چھلکا، آنکھ جھپکی، ہم چلے، ساقی اُٹھا
نزع کی ہچکی لگی، میں آنے والے پر نثار
وہ رگیں کھنچنے لگی، پتھرا گئیں آنکھیں رشیدؔ
وہ اُٹھا رونے کا غُل، ہٹنے لگے تیماردار