مکتبۂ خطابت
فردوس عالم
( دانشور اور خطیب ) اسلام آباد
علّامہ رشید ترابی صاحب مرحوم ، بلا شبہ صرف اپنے وقت ہی کے نہیں بلکہ ہر آنے والے وقت کے بھی بہت بڑے خطیب ہیں۔ خطابت کوئی بھی کر رہا ہو لیکن اُس کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں ترابیانہ انداز موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جو بھی خطیب منبر سے مخاطب ہونے کی سعادت حاصل کر رہا ہے دو براہ راست یا بالواسطہ، دانسته یا نا دانسته، اتفاق یا اراد تا علّامہ رشید ترابی مرحوم کے اندازِ خطابت سے متاثر نظر آتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ متاثر ہونا کوئی غلط بات نہیں۔ یہ کسی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پہنچانا ہوتا ہے۔ اگر علّامہ صاحب مرحوم کی فکر، اُن کی تحقیق اور اُن کے مطالعے سے نئی نسل استفادہ کرے، تو بڑی سعادت کی بات ہے۔ ہاں البتہ نئی نسل پر یہ تہذیبی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگ جہاں بھی اور جب بھی علّامہ صاحب مرحوم کی فکر سے استفادہ کر رہے ہیں یا اُن کے فقرے دو ہرارہے ہیں تو وہاں علّامہ صاحب مرحوم کا حوالہ ضرور دیں۔
علّامہ رشید ترابی صاحب کے افکار اور ان کے خیالات واقعی ایسے ہیں کہ وہ اپنے اثرات ضرور چھوڑتے ہیں، خصوصا طالبِ علمی کے زمانے میں، جب کہ شخصیت کی تعمیر کا وقت ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں سندھ یونیورسٹی کا طالب علم تھا کہ علّامہ صاحب مرحوم حیدرآباد تشریف لانے والے تھے۔ ہمارے تمام گھر والے اُن کی مجلس سننے کے لیے جار ہے تھے، مجھے اُس روز سے اگلے ہی دن یو نیورسٹی کے لیے ایک تقریر کی تیاری کرنی تھی، لیکن میں پھر بھی رات کو علّامہ ترابی صاحب مرحوم کی تقریر سننے چلا گیا۔ یقین جائیے کہ اُن کی تقریر کا ایک جملہ میرے لیے اگلے روز یو نیورسٹی میں میری تقریر کا بنیادی استدلال بن گیا اور وہ جملہ یہ تھا۔ ”علم جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اشارہ بن جاتا ہے۔“
علّامہ رشید ترابی مرحوم نے صرف یہی نہیں کہ افکار و خیالات عطا فرمائے بلکہ خطابت کو تہذیب عطا کی۔ خطابت صرف بولنے کا نام نہیں بلکہ گفتگو کی تہذیب کا نام ہے۔ علّامہ صاحب نے اس تہذیب سے دنیا کو روشناس کرایا۔ منبر پرنشست کیسی ہو ، خطبہ کیا ہو اور کیسا ہو، جملوں کی ادائیگی، آواز کا اُتار چڑھاؤ کیا ہو اور بات کہنے کا پیرا یہ اور اسلوب کیا ہو۔ یہ سارے کے سارے پہلو علّامہ رشید ترابی صاحب مرحوم کا عطا کردہ سرمایہ ہے۔
خطیب کی ذمّے داری صرف یہی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ وقت کے لیے کچھ کہہ کر چلا جائے، بلکہ اُس کی ذمّے داری معاشرے کی تعمیر وترقی اور معاشرے میں امن و امان قائم رکھنا ہوتا ہے۔ علّامہ صاحب مرحوم اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی انجام دیتے تھے۔ ان کی تقاریر سننے کے لیے نہ صرف مسلمانوں ہی میں سے مختلف نظریات رکھنے والے بلکہ خاصی تعداد میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آتے تھے۔ وہ ایسی کوئی بات نہیں کہتے تھے جس سے کسی کی دل شکنی ہو بلکہ اسلامی تعلیمات اور واقعۂ کربلا کے حوالے سے اتحاد و یکجہتی، محبت واخوت اور امن و آشتی کا پیغام دُور دُور تک پہنچاتے تھے۔
خطابت کو اشعار سے زینت دینا کوئی نیا کام نہیں لیکن جس محنت اور جستجو کے ساتھ علّامہ رشید ترابی مرحوم نے خطابت کے دوران اشعار پڑھے دو ان کا اپنا مخصوص انداز تھا۔
میں بہت فخر کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ میں نے علّامہ اقبال ، غالب اور میر انیس کو جوتھوڑا بہت سمجھا ہے، وہ علّامہ رشید ترابی مرحوم کی تقاریر ہی سے سمجھا ہے۔ جس تلاش کے ساتھ وہ ان اکابرین کے اشعار پڑھتے تھے، وہ واقعی ان ہی کا حصہ اور ان ہی کا ورثہ ہے۔ ساری کی ساری تقاریر کا سلسلہ علّامہ اقبال، غالب، میرانیس کے کلام پر مبنی کرنا علّامہ ترابی مرحوم کی تحقیق اور جستجو کی دلیل ہے۔
منبر کی رونق مسلسل قائم رہے گی ۔ خطیب آتے رہیں گے لیکن میرا دل پوچھتا ہے کہ دوسرا ترابی کب اور کہاں سے آئے؟ نگاہ تلاش جب اس سوال کا جواب چاہتی ہے تو ذہن کے کسی گوشے سے علّامہ رشید ترابی مرحوم ہی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایک داعی آواز ، ایک آفاقی آواز اور ایک زندہ آواز ، علّامہ مرحوم صرف ایک نسل ہی کے نہیں بلکہ ہرنسل کے خطیب ہیں۔ علّامہ رشید ترابی مرحوم صرف خطیب نہیں بلکہ مکتبۂ خطابت ہیں۔