مٹا ہے کبرِ عبادت کس اہتمام کے ساتھ
مٹا ہے کبرِ عبادت کس اہتمام کے ساتھ
کہ دو سجود ہیں واجب ہر اِک قیام کے ساتھ
ہے سب کو دانۂ بے دام کی طلب لیکن
ہر ایک دانہ زمیں پر ہے ایک دام کے ساتھ
نہ تھی جو فکر مسلسل سُبک مزاجوں کی
ہر ایک سمت میں دوڑے ہوائے بام کے ساتھ
زباں پہ حرفِ دُعا ہے تو ساتھ دِل بھی جُھکے
کِیا دُرود کو واجب مگر سلام کے ساتھ
خدا کے گھر میں بشر کے تصرّفات ہیں یہ
خلیلؑ آج بھی باقی ہیں اِک مقام کے ساتھ
دماغ توڑ کے یہ دن گزارنے والے
ابھی تو دل بھی جلے گا چراغِ شام کے ساتھ
خواصِ فکر میں یہ ہے کہ حشر پر ہو نظر
رہا ہے نشر کا پہلو مگر عوام کے ساتھ
اِدھر ہے عقل کی قوت اُدھر ہے لشکرِ جہل
ہیں صف بہ صف حق و باطل کس التزام کے ساتھ
رشیدؔ میرے تعارف میں دیر کیا ہوگی
میں آئوں گا سرِ محشر مرے امامؑ کے ساتھ