مولا نا کلبِ صادق (خطیب و دانشور لکھنؤ، انڈیا)

(ترابی صدی کے موقع پر ان کے انٹرویو سے اقتباس)

میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ مجھے آج یہ موقع ملا ہے کہ میں خطیبِ عالمِ اسلام حضرت علّامہ رشید ترابی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کچھ اپنے خیالات پیش کروں۔

      میں یہ بات پہلے عرض کر دوں کہ میں اُن کے انتہائی قدر دانوں میں ہوں۔ اس لیے کہ وہ ایک ایسے خطیب تھے جن کی خطابت کی بنیاد بہت ٹھوس مطالعے پر تھی۔ عربی کے بھی اسکالر تھے، پرشین کے بھی اسکالر تھے، اُردو کے بھی اسکالر تھے، نثر پر بھی ان کو قدرت تھی، نظم پر بھی ان کو قدرت تھی۔

      میری بد قسمتی یہ ہے کہ میں کیونکہ ہندوستان میں رہتا ہوں، اس لیے مجھے ان کی صرف ایک مجلس میں شرکت کا موقع ملا اور وہ بھی میرے بچپنے کا زمانہ تھا، جب جٹ لینڈ میں مجلسیں ہوتی تھیں۔ جب لکھنؤ سے والدِ ماجد تشریف لائے تھے۔ میں بھی اُن کے ساتھ ہی حاضر ہوا اور وہی میری پہلی اور آخری تقریر تھی جس کو میں نے نیچے بیٹھ کر اور وہ منبر پر تشریف فرما تھے اور اُن کی تقریر کو میں نے سنا اور اسی دن سے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ میں اُن کا دیوانہ ہوں۔ پھر براہِ راست اُن کی تقریر سننے کا مجھے شرف حاصل نہیں ہوا، لیکن اُن کے ٹیپ اور سی ڈیز کے حوالے سے ان کی مجالس سے برابر استفادہ کرتا رہا۔ اُن کی مجلسوں کی بنیاد ہمیشہ گہرے مطالعے پر ہوا کرتی تھی ۔

      میں یہ بات عرض کر دوں کہ شاعری ہو یا خطابت، اگر اس کی بنیاد گہرے مطالعہ پر نہیں ہوتی ہے تو چاہے مشاعرے میں یا مجلس میں یا جلسے میں تعریفوں سے چھتیں اُڑ جائیں لیکن اس کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے۔ بہت سے شعراء اور بہت سے خطباء پیدا ہوئے جو اپنے اپنے دور میں قولمن الملک بجارہے تھے اور آج ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنی شاعری جیسے غالب، جیسے میر، جیسے جوش ، جیسے اقبال جنہوں نے فکر عمیق پر رکھی اور اس کے بعد شاعری کے میدان میں قدم اُتارا، اُن کی شاعری کو دوام حاصل ہو گیا۔ اسی طرح سے وہ خطباء کہ جنہوں نے اپنی خطابت کی بنیاد گہری فکر پر رکھی، عمیق مطالعے پر رکھی، ان کی خطابت مجھے یقین ہے کہ بہت زمانے تک ہمارے لیے سر چشمۂ فیض اِن شاء اللہ بنی رہے گی۔

      علّامہ رشید ترابی مرحوم کی اتنی خصوصیات ہیں جن کو اس مختصر سے انٹرویو یا بر یفنگ میں نہیں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اُن کا گہرا مطالعہ، اُن کا اندازِ فکر، اُن کا مثبت طرزِ فکر، ان کی دل کو لبھانے والی آواز، ان کے اشارے اور گسائے ایسے تھے کہ اگر چہ وہ اپنے مسلک کے نظریات میں بہت سخت تھے اور ان کو اس سخت رویّے کا حق حاصل تھا لیکن پھر بھی اُن میں جو خاص بات تھی جو ان کے بعد اب کم از کم یہاں پاکستان میں دیکھنے میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ اگر چہ مسلک کے اعتبار سے پکّے شیعہ تھے لیکن میری اطلاع میں یہ بات ہے کہ ان کی مجلسوں میں سنّی اور سنّیوں کے جو ذیلی مکاتب فکر ہیں، مثلاً بریلوی، دیوبندی، سلفی، مقلّد، غیر مقلّد اور خانقاہی ان میں سے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی ایسا فرقہ نہیں تھا جس کے افراد شریک ہو کر ان کی مجلسوں سے فیض نہ اٹھاتے ہوں اور بعد میں ان مجلسوں کا ذکر اپنی اپنی زبانوں پر نہ کرتے ہوں۔

      یہ بہت خاص بات تھی۔ میں ظاہر ہے باہر سے آیا ہوں مجھے کسی پر Comment کرنے کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اتنی بات میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے فرقے کی وہ جنگ جو علّامہ رشید ترابی کے دم سے قائم تھی، اُن کے انتقال کے بعد اب سب لوگ مل کر بھی اس جنگ کو نہیں کر پا رہے ہیں۔

      بہر حال جو اس دنیا میں آیا ہے اُسے اس دنیا سے جانا ہے۔ میری یہ گزارش ضرور ہے کہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے علّامہ رشید ترابی کی جو تقاریر ہیں، اُن کو ایسے انداز سے preserve اور محفوظ کر لیا جائے کہ اُن کی لائف پچیس،تیس برس کی نہ ہو بلکہ اُن کی لائف ہمیشہ کی ہو اور اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے تا کہ انٹرنیت کے ذریعے سے غیر ذمّے دار لوگوں کی وہ غلط سلط باتیں جو دوسروں تک پہنچائی جارہی ہیں، ان کے مقابلے میں شیعیت کا صحیح نقطۂ نظرصحیح prospectus میں پیش ہو سکے تا کہ دنیا سمجھ سکے کہ اصل تشیُّع کیا ہے۔

      اصل تشیُّع خالص اسلام اور خالصِ دین کے علاوہ اور کوئی شے نہیں ہے۔ ہمیشہ سے ہم کو اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ہم وحدتِ اسلامی کو برقرار رکھیں ۔ علّامہ رشید ترابی مرحوم نے ہمیشہ ہی یہ محاذا اپنے پیشِ نظر رکھا۔ کچھ لوگوں کی مخالفت کے باوجود، کیونکہ اُن کو یقین تھا اپنے موقف کی صداقت کا، اس لیے اس موقف پر جمے رہے اور اسی لیے ایک اُن کے دم کی وجہ سے پاکستان میں شیعوں اور سنّیوں میں ہمیشہ بہت اچھے روابط قائم اور برقرارر ہے۔

      میں ایک طالبِ علم ہوں، میرا اُن سے کوئی تقابل نہیں ہے لیکن بہر حال میں بھی یہ جانتا ہوں کہ اسلام کی نجات اسی میں ہے کہ مسلمان دِین کو اُو پر رکھیں اور مسلک کو نیچے رکھیں ۔ یہاں problem یہ ہو جاتی ہے کہ ہم مسلک کو او پر کر دیتے ہیں اور دین کو نیچے کر دیتے ہیں۔ جس دن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے مسلک الگ الگ ہیں جو ہمارے بنائے ہوئے ہیں اور دین ہمارے معبود کا بنایا ہوا ہے اس لیے معبود کے بنائے ہوئے دِین کو ہمیں اوپر رکھنا چاہیے اپنے بنائے ہوئے مسلک کو نیچے رکھنا چاہیے۔ اِن شاء اللہ اُسی دن یہ سارے مسائل حل ہو جا ئیں گے۔

      میں مرحوم کی قابلِ فخر اولاد نصیر ترابی، طلحہ ترابی اور میرے بھائی علّامہ عقیل ترابی، اللہ اُن کو شِفا عطا فرمائے، ان سب سے پُر خلوص روابط رکھتا ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ اِن نشاء اللہ مرحوم نے جو شمع روشن کی تھی، اُس کی روشنی کو یہ لوگ برقرار رکھنے میں پورا پورا تعاون کرتے رہیں گے۔ اور اُن کے نام کے ساتھ ساتھ اُن کا مشن بھی اِن شاءاللہ تا قیامِ قیامت روشن اور باقی رہے گا ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

Scroll to Top