مولانا کوثر نیازی

(خطیب، ادیب و دانشور )

تو آج کئی خطیب ان کی آواز اور ان کے انداز کی نقالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نقل نقل ہے اور اصل اصل

      علّامہ رشید ترابی اصلاً، حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتے تھے، کراچی میں سکونت پزیر ہوئے۔ مجلس خوانی میں بڑے باکمال تھے۔ انداز اتنا دلکش اور دلنشین تھا کہ لوگ گھنٹوں بیٹھے سنتے رہتے اور پھر بھی سیر نہ ہوتے۔ حضرت علّامہ جدید علوم سے بھی بہرہ ور تھے، اس لیے اُن کی تقریریں بڑی خیال انگیز ہوتی تھیں۔ وہ مذہب اور سائنس کے تقابل میں نہیں بلکہ باہمی تعاون اور تفاہیم میں یقین رکھتے تھے۔ فقروں کی ادائیگی کا انداز ان کا مخصوص تھا، جس میں ہاتھوں کے اشاروں کی آمیزش ایک عجب ماحول پیدا کر دیتی تھی۔ حضرت علّامہ رشید ترابی زندہ تھے تو مجالس میں اُنہی کا طوطی بولتا تھا اور اب وہ مرحوم ہو چکے ہیں تو آج کئی خطیب اُن کی آواز اور اُن کے انداز کی نقّالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نقل نقل ہے اور اصل اصل۔

      حضرت علّامہ کے ساتھ کئی مرتبہ شہادتِ حسینؑ اور سیرت النبیؐ کے جلسوں میں تقریر کرنے کا اتفاق ہوا اور ہر بار میں اُن کی خطیبانہ صلاحیتوں اور وسعت مطالعہ کا گہر انقش دل پر لے کر اُٹھا۔ اتحادِ اسلامی انھیں دل سے عزیز تھا۔ مجال ہے جو کبھی ان کی کسی بات سے کسی دوسرے مسلک کے لوگوں کی دل آزاری ہو ۔ جدید سائنسی علوم کے حوالے سے نئی نسل پر اسلام کی حقّانیت واضح کرتے، زبان میں ایک عجیب شکوہ اور طنطنہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اُردوزبان و تراکیب ہاتھ باندھے دوران خطابت اپنے استعمال کی التجا کر رہے ہیں۔ اللہ نے تموّل دیا تھا اور اس کے ساتھ دل کے بھی غنی تھے۔ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے اور ہمیشہ دوسروں کو دے دلا کر خوش ہوتے۔ سخن فہم بھی تھے اور سخن گو بھی۔ خود بھی شعر کہتے تھے، دوسروں سے بھی سنتے تھے۔ آخری بار مرض الموت میں عیادت کو حاضر ہوا ، دل کے مریض تھے۔ اطلاع حاضری کی پہلے سے بھجوا رکھی تھی۔ وہ اپنے اندازِ خاص میں دوستانہ سواگت کو تیار تھے۔ میرا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھا، جیسے بتا رہے ہوں، اب کچھ ہی دنوں کا مہمان ہوں۔ دوسرے ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی پہنائی اور اپنے پسندیدہ عطریات کا مجموعہ پکڑا دیا اور پھر ایک لازوال مسکراہٹ اُن کے چہرے پر پھیل گئی، جیسے ایک بوجھ سینے سے اتر گیا ہو۔

Scroll to Top