مولانا احترام الحق تھانوی

(خطیب و دانشور )

علّامہ رشید ترابی کی خطابت سے متاثر ہونے والے لوگ شاید ہی کوئی مقام ایسا ہو جہاں مسلمان اُن کے نام اُن کے کام اور اُن کے فن خطابت سے واقف نہ ہوں

آج پاکستان کے قیام کو ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے اور جب ہندوستان سے ہجرت کر کے میرے والد یہاں کراچی تشریف لائے تو میری عمر اس وقت ساڑھے چارسال تھی۔ گویا کراچی میں اور یہیں ہوش سنبھالا۔ میرے والد گرامی رحمۃ اللہ کی جو شخصیت تھی، اس کی بنا پر ان کے پاس خاص بھی اور عام بھی لوگوں کا اجتماع رہتا تھا ، ملاقاتیں رہتی تھیں ۔ تو ذرا جب ہوش آیا مگر اتنا ہوش نہیں تھا کہ ہمیں یہ پتا چلے کہ سنی کیا ہوتا اور شیعہ کیا ہوتا ہے، لیکن بہر حال اتنی سمجھ ضرور تھی کہ علماء کا مقام ہے ہمارے معاشرہ میں اور سوسائٹی میں ، اپنے والد صاحب کے ساتھ جو لوگوں کی محبتیں تھیں، انھیں دیکھ کے بھی مجھے اِس کا اندازہ ہوتا تھا، لیکن مجھے اکثر و بیشتر پھر ان کے ساتھ ان کی محفلوں میں اور ان کے دوستوں میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا تو میں نے یہ دیکھا کہ اس وقت خود علماء بھی علماء کا اتنا احترام کرتے تھے اور اس میں یہ امتیاز کسی مذہب کا یا مسلک کا میں نے نہیں دیکھا کہ اس کے بغیر ایک دوسرے کا احترام جو تھا وہ ایک ایسے درجے پر تھا جس کا آج میرے خیال میں تصور بھی کرنا مشکل ہے۔

      میرے والدِ گرامی رحمۃ اللہ علیہ کے دوستوں میں اور جو اس دور کے اکابر تھے، اُن میں ایک نام بہت سننے کو ملتا تھا اور ذہن میں یہ آتا تھا کہ یہ بھی کوئی غیر معمولی اور کوئی بہت بڑی شخصیت ہیں۔ وہ جناب علّامہ رشید ترابی مرحوم کا نام تھا اور جب ہم اور بڑے ہوئے، یہ اتفاق تو نہیں ہوا کہ میں کبھی اُن کی کسی مجلس میں حاضر ہوتا۔ اُن کی مجلس میں کیا ہمارے گھر میں جو ہمارے والد تھے وہ پاکستان کی سطح کے خطیب تھے۔ ہم کبھی اُن کی تقریروں میں بھی دلچسپی لے کے نہیں جاتے تھے اس لیے کہ جب گھر کی بات ہوتی ہے تو اس کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ پورے ملک میں ہر مذہب اور ہر مکتبِ فکر کی محبتیں اُن لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں کہ جو خود معاشرہ میں اور سوسائٹی میں محبتوں کی اور الفتوں کی فصل تیار کرتے ہیں اور اس کا بیج ڈالتے ہیں اور جو لوگ معاشرہ کو ٹکڑے کرنے کا کام انجام دیتے ہیں اور تقسیم کرنے کا اور ان کے مابین نفرت پیدا کرتے ہیں، معاشرہ ان کو کبھی وہ مقام نہیں دیتا کہ جو مقام علّامہ رشید ترالی رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل تھا اور بلاشبہ آج صرف پاکستان میں نہیں، برصغیر پاک و ہند ہی میں نہیں بلکہ ان کی تقریروں سے اور ان کی خطابت سے متاثر ہونے والے لوگ شاید ہی کوئی مقام ایسا ہو کہ جہاں مسلمان اُن کے نام سے اور اُن کے کام سے اور اُن کے اس فنِ خطابت سے کہ جس کے ذریعے سے وہ قرآن کریم کے مضامین اپنے مخصوص انداز سے بیان کیا کرتے تھے، واقف نہ ہوں۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر ان سے محبت کرنے والے اور ان سے تعلق رکھنے والے موجود تھے ۔

      آج علّامہ رشید ترابی بھی دنیا میں نہیں ہیں اور میرے والدِ گرامی مولانا احتشام الحق تھانوی بھی موجود نہیں ہیں لیکن یہ بات میرے لیے اعزاز کی اور سعادت کی ہے کہ علّامہ رشید ترابی کے صاحبزادگان ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے اسی طرح سے کوشاں ہیں کہ جیسا اُن کا حق بنتا ہے اور وہ اس میں لگے ہوئے ہیں اور اِدھر میں اپنے والد کی طرف سے اس حق کو ادا کر رہا ہوں جو دوستی کی حیثیت سے ان دونوں کے درمیان تھا۔

      اللہ تعالیٰ ملک میں ایسے حضرات اور ایسے پچھلے اکابر کی طرح اب ایسے لوگ عطا فرمائے جو ملک کی بقا اور سالمیت کے اس نازک دور سے جس سے ملک گزر رہا ہے، اِس میں وہ لوگ ایک دوسرے کو ملانے کا ، جوڑنے کا اور محبتیں قائم کرنے کا وہی اسلوب اور انداز اختیار کریں جو علّامہ رشید ترابی مرحوم اور اُن کے دوسرے ہم عصر اکا بر نے کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق عطافرمائے اور اس ملک میں امن و امان اور سلامتی کے لیے کام کرنے کی ہر فرد کو اُس کی حیثیت کے مطابق اور اُس کی استطاعت کے مطابق اللہ پاک تو فیق عطا فرمائے ۔ وآخر دعوانا الحمدللہ رب العالمین۔

Scroll to Top