منبر افروز شبستانِ خطابت ہیں رشید
نسیم امروہوی
(ممتاز شاعر و دانشور)
علّامہ رشید ترابی ؒ ہر سال ماہِ رمضان المبارک میں اپنی قیام گاہ پر پورے ماہ بعدِ افطار قرآنِ کریم کی تفسیر بیان فرماتے تھے۔ رمضان المبارک کے آخری دن ملک کے ممتاز شاعر حضرت نسیمؔ امروہوی صاحب تفسیر کا لبِ لباب نظم کرکے پیش کرتے تھے۔ ۱۹۷۶ث کے رمضان المبارک میں علّامہ ترابیؒ نے سورۂ فتح کی تفسیر بیان فرمائی تھی اور آخری دن حسبِ معمول حضرت نسیم امروہوی نے اس تفسیر کی رُوح ایک مسدّس میں نظم کی تھی جس کے ابتدائی نو بند جو علّامہ ترابی ؒ کے متعلق ہیں، ہم نذرِ قارئین کررہے ہیں:
دُور دنیا سے ہوں میں آلؑ کے دامن سے قریب
ہر سخن مقصدِ پیغمبر ذوالمننؐ سے قریب
طائرِ فکر ملائکؑ کے نشیمن کے قریب
اور قلم اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا سے قریب
اِسی سُورے کے مفسر کی ثنا کرتا ہوں
حق شناسی کا جو حق ہے وہ ادا کرتا ہوں
میں نہیں مدحتِ اربابِ جہاں کا خوگر
زر کے انبار اگر ہَوں تو لگادوں ٹھوکر
ہاں وہ مدّاح کے ممدوح کی جن پر ہو نظر
ہوں وہ شاعر کہ خطیب اُن کا یہ حق ہے مجھ پر
چومئے ان کو جو ہَوں روئے کتابی ایسے
کل انیسؔ ایسے تھے اور آج ترابیؔ ایسے
فاتحِ معرکۂ نطق و فصاحت ہیں رشیدؔ
واعظِ انجمنِ رُشد و ہدایت ہیں رشیدؔ
ذاکرِ مجلسِ اَسرارِ شہادت ہیں رشیدؔ
منبر افروز شبستانِ خطابت ہیں رشیدؔ
خاک میں ”فاضلِ طینت“ کا جو سرمایہ ہے
بوترابیؔ ہیں ترابیؔ کا لقب پایا ہے
خطبۂ حکمتِ قرآن خطابت اُن کی
افصحِ دہر کا فیضان فصاحت اُن کی
صرف پیرایۂ تبلیغ بلاغت اُن کی
منزلِ مدح میں مہدیؑ سے ہدایت اُن کی
خود بھی تفسیر کے لائق ہیں مفسر ہی نہیں
صاحبِ ذکر بھی ہیں صرف یہ ذاکر ہی نہیں
کشورِ پاک میں یہ ذکرِ حسینیؑ کی فضا
زورِ تقریر سے ان کے ہوئی قائم بخدا
نطق ہے آپ کا اعجازِ تکلّم گویا
نمکینیٔ سخن شاہِ سلونیؑ کی عطا
ان کی تقریر میں اِک وہ بھی مقام آتا ہے
جس جگہ عرش سے منبر پہ کلام آتا ہے
اے زہے ماہِ مبارک کے یہ وعظ اور یہ بیاں
اِک غذا رُوح کی اِک دعوتِ صومِ رمضاں
سورۂ فتح کی تفسیر کا نادر عنواں
دم بدم قلب پہ سامع کے نزولِ قرآں
نطق قبضے میں ہے تاثیر ہر اِک بات میں ہے
یہ بیاں انا فتحنا کا فتوحات میں ہے
الله الله یہ آیات کی محکم تفسیر
ایک موضوع پہ اِک ماہ مسلسل تقریر
اور تقریر بھی ایسی کہ ہدایت تاثیر
قدرت لفظ و بیاں لطفِ خداوندِ قدير
ذاکری صلِّ علیٰ نکتہ وری کیا کہنا
ذکر میں فکر کی بھی جلوہ گری کیا کہنا
وعظ و تفسیر میں سن سن کے کلامِ باری
روزہ داروں پہ نمازوں کا تھا عالَم طاری
صوم کی جان مئے عشق کی یہ سرشاری
یہی گویا سحری اور یہی افطاری
لطفِ منظر سے بھی اِس کیف کی تائید ہوئی
ختم جب فتح کی تفسیر ہوئی، عید ہوئی
بحثِ تفسیر میں وہ فکر و نظر کی دعوت
حج کی تجویز، سفر، صلح، شکوک و بیعت
مژدۂ فتح، غنائم، غضبِ حق، لعنت
غلبہ دِین کا، توثیقِ رسالتؐ تمّت
اُن کی بھی مدح و ثنا جو ہیں نبیؐ کے ہمرا
اُستوار ایسے کہ حق جیسے علیؑ کے ہمرا