مناجات
قمرِؑ بنی ہاشم کی خدمت میں
دلِ آفت زدہ کے راز ونیاز
آج سُنتا ہے ایک بندہ نواز
کیا حقیقت سے مل گیا ہے مجاز
تیری درگاہ اور مِری آواز
ذرّہ ہم بزمِ آفتاب ہُوا
مجھ سَا ناچیز باریاب ہُوا
مجھ کو دیکھو بھلا مِری اوقات
طالبِ نور ہو اندھیری رات
لیکن اے جلوۂ تمام صفات
ہر فنا کو ہے جستجوئے حیات
آستانِ شہید پر دِل ہے
ذرّہ یوں مہر کے مقابل ہے
نور ہی نور ہے حیاتِ شہید
بندگی میں وہی فرید و وحید
حاصلِ زندگی تھی قتل کی عید
موت نے کردیا ہے قابلِ دید
اِذنِ رَب سے جہاں شہادت ہے
پھر وہی باعثِ شفاعت ہے
اس شہادت سے ہے حضور مراد
یعنی حاضر سے کیجئے استمداد
جو ہو موجود وہ سُنے فریاد
مان لے بات اُس کی ربِّ عباد
زندگی کا وہ مُدّعا ہوجائے
مظہرِ لُطفِ کبریا ہوجائے
قُربِ حق سے ہوا یہ راز عیاں
عِلم، قدرت حیات سب ہے یہاں
اذنِ رب سے عطا ہے، شرک کہاں
کیوں نہ روشن ہو پھر مہِ عرفاں
بنی ہاشم کے چاند جلوہ گر
اِس اندھیرے میں اب اُجالا کر
اُس اُفق پر ہوا ہے تیرا ظہور
ہے وِلائت سے جو فضا معمور
اُس جگہ کا رہا یہی دستور
کوئی سائل پھرا نہیں مہجور
ایک اِک آہ کا صلہ دے دیں
بے طلب حسبِ حوصلہ دے دیں
پھر بھی حُکمِ طلب مشیّت ہے
یعنی اذنِ دُعا عنایت ہے
احتیاج آدمی کی فطرت ہے
یہ فقیر آج محوِ طاعت ہے
ہو اجازت تو اب سوال کروں
تم، جو سُن لو تو عرضِ حال کروں
بے قراروں کا اِک قرار ہو تم
دلِ مومن کا اعتبار ہو تم
آلِ طہٰؐ کا افتخار ہو تم
نائبِ شیرِ کردگار ہو تم
جو بلا آئی تم نے روکی ہے
تم نے شبیرؑ کی مدد کی ہے
وہ دو عالم کا مقتدا شبیرؑ
وہ خدائی کا رہنما شبیرؑ
وہ محمدؐ کا لاڈلا شبیرؑ
فاطمہؑ کا وہ مہ لقا شبیرؑ
کام اُمّت کا جو سنوارتا ہے
وہ مدد کو تمھیں پکارتا ہے
لُٹ چکی جب حسینؑ کی سرکار
نہ رہے کوئی یاور و انصار
ایک مظلوم تھا ہزاروں وار
گِھر گیا ابنِ حیدر کرّارؑ
پُشتِ مرکب پہ جُھک گئے شبیرؑ
بھائی کو ڈھونڈتے چلے شبیرؑ
دی صدا بھائی اب مدد کو آئو
آئو عبّاسؑ دشمنوں کو ہٹائو
یہ ضعیفی، یہ دل، جگر کے گھائو
اے مِرے شیر کیا کروں بتلائو
فوج کا رنگ اب بگڑتا ہے
آئو زہراؑ کا گھر اُجڑتا ہے
گئی آواز جب یہ نہر کے پاس
تڑپ اُٹھا کوئی بدرد و یاس
رو کے بولے یہ شاہِ درد اساس
رب کی مرضی ہے سو رہو عبّاسؑ
نہ ہو بے چین، چین آتا ہے
دو گھڑی میں حسینؑ آتا ہے
تم نے کی ہے حسینؑ کی نُصرت
قُربِ حق سے ملی عجب قوّت
اے علیؑ عزم، کربلا ہمّت
رہ گئی حشر تک یہی طاقت
جسمِ ایماں میں تم سے دم باقی
کٹ گئے ہاتھ ہے علَم باقی
دین و دنیا میں اے ولیِ حیات
سب کی بخشش ہے اب تمہارے ہات
نازشِ فاطمہؑ ہے یہ سوغات
روزِ محشر یہی ہے وجہِ نجات
قولِ معصومؐ آشکارا ہے
دستِ عبّاسؑ کا سہارا ہے
اے علیِؑ ولی کے نورِ نظر
دخترِ مصطفےٰؐ کے قلب و جگر
ہے تمہاری ہی یاد شام و سحر
مِری دُنیا بھی ہے عجب محشر
تم جو چاہو تو پھر ہے کیا مشکل
ابنِ مشکل کشاؑ، کُشا مشکل
کٹ چکی زندگی بُری کہ بھلی
سب حقیقت حضور پر ہے جلی
شیرِ حق، نائبِ علیِؑ ولی
اب تو آجائیے کہ جان چلی
صبرِ مظلومِ کربلاؑ کی قسم
آپ کو آپ کی وفا کی قسم
میری ہستی کا یہ ورق فریاد
دے رہا ہے غم و قلق فریاد
غم سے سینہ ہے میرا شق فریاد
اے علمدارِؑ فوجِ حق فریاد
اپنے دامن میں اب چُھپا لیجے
مررہا ہوں شہا بچا لیجے
اے شہیدِ فلک وقار سنو
ابنِ حیدرؑ کے غمگسار سنو
بنتِ زہراؑ کے پردہ دار سنو
قصۂ درد ایک بار سنو
کچھ سُنا لوں تو دل بہل جائے
غم کا مارا ہوا سنبھل جائے
ابرِ صِدق و صفا، فراتِ وفا
حرزِ بازوئے سیّد الشہدا
دِلِ زینبؑ کی مستجاب دُعا
ہمّتِ قلبِ حضرتِ زہراؑ
اے حسینی یقین کے وارث
عبدِ صالح، زمین کے وارث
کس کے گھر پر میں ناتواں جائوں
در بدر ہو کے نیم جاں جائوں
تم جہاں کہہ دو میں وہاں جائوں
کون میرا ہے میں کہاں جائوں
اب میں کیا جائوں گا کسی در پر
زندگی کٹ گئی اِسی در پر
چھائی ہے ظلم کی گھٹا ہر سُو
اپنے غمّاز غیر حیلہ جُو
نکتہ چیں دوست طعنہ زن ہے عَدُو
اے سکینہؑ کے شیفتہ عمّو
شکوۂ رنجِ دہر لایا ہوں
اِک وسیلے کے ساتھ آیا ہوں
شام کی قید میں وہ اِک بچی
آکے دروازے پر کھڑی ہوتی
دن جو ڈھلتا تو وہ پکارتی تھی
اے چچا جان آئو رات ہوئی
اُسی بچّی کا واسطہ عبّاسؑ
قیدِ غم سے کرو رہا عبّاسؑ
بند تھی قیدِ یاس و حرماں میں
بس چچا ہی تھے قلبِ ناداں میں
کیسا کٹتا تھا وقت زنداں میں
چُھپتی تھی جاکے ماں کے داماں میں
چیختی تھی طمانچے کھا کھا کر
اے چچا جان دیکھئے آکر
اے ابوالفضلؑ میری شہزادی
لطفِ شبیرؑ کی جو تھی عادی
ہائے اُس کی ہوئی یہ بربادی
قید میں ہے پُھپی سے فریادی
کان زخمی ہے لال چہرہ ہے
خون رُخسار سے ٹپکتا ہے
واسطہ ہے مِرا یہی رُخسار
اِس کے صدقے میں اب شہِ ابرارؑ
غم سے مجھ کو نکالیے اِک بار
اب شفا پائے یہ دلِ بیمار
دل کو راحت پئے حسینؑ ملے
ہائے عبّاسؑ اب تو چین ملے