محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے
محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے
شرکت ہے احتیاج، صمد لاشریک ہے
بدبخت کون ہے نہ کُھلا سَب نے یہ کہا
کشتی کے ساتھ ڈوبنے والا شریک ہے
ہر فتح یاب کے لیے تنہا تھا تیرا نام
اب جشنِ فتح میں تو زمانہ شریک ہے
یہ دوست کا ہے غم تو مبارک مگر یہ سوچ
اِس غم میں کس قدر غمِ دُنیا شریک ہے
ظاہر میں دلفریب سہی ربطِ باہمی
دردِ دَروں میں کون کسی کا شریک ہے
ممکن نہیں کہ صرف شفق کا یہ رنگ ہو
اِس میں کسی کا خون بہت سا شریک ہے
مجبور پر عذاب ہے، کس طرح کا یہ عدل
جب ہر گُنہ میں عالمِ بالا شریک ہے
کانٹا کوئی چبھے تو اکیلا نہ جانیے
ایک اِس خلش میں وحشتِ صحرا شریک ہے
محشر لرز رہا ہے اِس آواز سے رشیدؔ
ہاں کون میرے قتل میں کتنا شریک ہے