مجبور تِرے ذکر سے ہیں ذکر نہیں اور
مجبور تِرے ذکر سے ہیں ذکر نہیں اور
لیکن ہے اثر اِس کا کہیں اور کہیں اور
اے جذبِ سفر خستگیٔ شوق مبارک
رُکتے ہیں قدم، دل کی ہے آواز نہیں اور
یہ راکھ یہ چنگاریاں اِس شاخ کے نیچے
کیا اپنے بھی تنکوں کو رکھوں لاکے یہیں اور
جب نقشِ قدم اُن کے مٹاتا ہے زمانہ
ہر نقش کو لے لے کے اُبھرتی ہے زمیں اور
معلوم ہے پروانے حقیقت میں ہیں کتنے
وہ شمع بجھاتے ہیں کہ ہوجائے یقیں اور
دن ڈھل گیا بیٹھا ہوں گزرگاہ میں اُن کی
ایسے میں وہ آجائیں تو مرجائوں یہیں اور
میں آپ کو ڈھونڈ آیا ہوں امکاں کی حدوں تک
اب آپ مجھے ڈھونڈ کے لے جائیں کہیں اور
اے قافلہ سالار ترابیؔ پہ کرم کر
وہ ایک نہیں، بیٹھے ہیں کچھ خاک نشیں اور