تاریخ منجلی از مصرعۂ دبیر ۱۹۷۳ء
مرگِ انیسؔ خطابت ۱۳۹۳ء
علّامہ روزگار ۱۹۷۳ء
آفتاب آسمان دیں علّامہ رشید ترابیؔ ۱۹۷۳ء
فکرِ مخزون دل ضیاء الحسنؔ الموسوی العبقاتی
ہُوک سی اٹھتی ہے دل میں دیکھ کے منبر کو آج
ہائے علّامہ ترابی ہائے علّامہ رشید
وہ خطابت جس یہ سایہ تھا لسان اللہ کا
مصلحِ طرزِ قدیم و بانیٔ طرز جدید
خود خطابت جس کے اندازِ خطابت پر
فدا نطق جس کے حلقۂ حُسنِ ارادت کا مُرید
جس کو حاصل تھا روایت کا وہ زرّیں
سلسلہ ہے جو آقائے بروجروی سے تاشیخِ مفید
زندگی تھی وقف جس کی بہرِ اذکارِ
حسینؑ تھی یہی دُھن وہ محرّم ہو کہ وہ ہو ماہِ عید
مدحِ مولاؑ میں رہا جو عمر بھر رطب
اللسان کیوں نہ انعام اس کا ساقیِ کوثرؑ کی دید
یا علیؑ کہہ کے جو اِس دنیا سے
رخصت ہو گیا موت کا پیغام تھا گویا کہ جینے کی نوید
قبر میں روزِ وفاتِ ضامنؑ و ثامن گیا
اے زہے قسمت کہ ہے راہِ رضاؑ کا وہ شہید
اے حسنؔ تاریخِ رحلت فیضِ رُوح القدس ہے
دونوں مصرعوں سے ہے ظاہر عظمتِ علمِ فقید
اِک گُل بے رنگ ہے یا گوہرِ بے آب ہے (۴۶۰)
طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے رشید (۱۳۳۳)
۱۹۷۳ء
نوٹ: مرگِ انیسؔ خطابت سے ہجری اور علّامۂ روزگار کے عدد شامل کر کے عیسوی تاریخ نکلتی ہے۔ ہمز ہ کا ایک مستقل عدد حسبِ مسلک اساتذ ۂ عظیم مثلا نعت خان عالی وغیرہ لیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو ” گلبنِ تاریخ“ ، تصنیف حکیم میری مہدی حسین رضوی المؔ اور دیگر فنی کتب ) موسویؔ