عِلم

نورِ صبحِ ازل کی یہ امواج
ذرّے ذرّے میں ضَوفگن ہیں سراج

سطحِ تاریخ پر نہیں ہے عِلم
فکرِ غوّاص کو ملا یہ تاج

ہم نے ہر شے کو سرسری دیکھا
عِلم ہے نور اور نظر ہے زُجاج

ربطِ اشیاء کا یہ مجرّد عِلم
ہے بشر کا ظہور میں محتاج

عِلم شیرازہ بند عالَم کا
فی الحقیقت ہے عقل کا سرتاج

عِلم ہے نورِ وحی سے مربوط
جہل ظلمت ہے، ظلمتوں کا راج

عِلم مرکز ہے، کائنات محیط
عِلم و تخلیقِ لفّ و نشر ہیں آج

عِلم کی انتہا ارے توبہ
عِلم نے عقل سے لیا ہے خراج

عِلم ہے عرشِ منتہائے کمال
خطِّ سیرِ بشر میں یہ معراج

عِلمِ شارح اَنا شناس ہُوا
عِلمِ حق سے اِسی اَنا کی لاج

ہے یہی تو اَنا مدینۂ عِلم
ہے درِ شہر اِسی اَنا کا مزاج

ربِّ زِدنی صدائے فکر و نظر
ہے سلُونی یہاں کا رسم و رواج

جب حدیں ٹوٹتی ہیں، عِلم کہاں
کیوں انا الحق کہے کوئی حلّاج

ادبِ زیست اُس پہ ہے لازم
جس کا آغاز نطفتہٍ امشاج

کوئی جاہل وَلی نہیں ہوتا
معرفت بحرِ علم ہے موّاج

عِلم کیا ہے بصیرتِ نبویؐ
اہلِ دل کے لیے یہی منہاج

عِلم ہی سے یقیں طلب ہے رشیدؔ
ہر شک و ریب کا ہے عِلم، علاج

Scroll to Top