علّامہ رشید ترابی کی خطابت کبھی متروک نہیں ہو سکتی
علّامہ ذکی باقری (خطیب و دانشور ۔ کینیڈا)
(ترابی صدی کے موقع پر اُن کے انٹرویو سے اقتباس)
بسم الله الرحمٰن الرحيم وَهو خير نَاصر و معين وَ قَال الله الحَکِیْم. اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ .
قرآن کتابِ ہدایت انسانی ہے جس میں ہر وہ شے جو انسان کی ہدایت کے لیے ہے قرآن نے ہدایت کر دی ہے اور اس چیلنج کے ساتھ کہ ماخر لنا من كتاب من شیءٍ۔ ہم نے اس کتاب میں کسی شے کو نہیں چھوڑا ہے۔ وخيرينا لناس في هذا القرآن من كل مثل ۔ ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لیے ہر ایک مثال دے دی ہے ( تاکہ ان کی ہدایت ہو سکے )۔ ان میں سے ایک یہ ہدایت کہ کس طرح سے دوسروں تک اللہ کا پیام پہنچا سکے۔ اس آیۂ شریفہ میں خدانے دو عظیم محوروں کی طرف دعوت دی ہے۔ اگر اللہ کی طرف بلانا ہےاُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ اللہ کی راہ تک اگر بلانا ہے تو دواس کے Weapon ہوں گے طریقے ہوں گے ۔ بالحکمۃ حکمت ہوگی ،Wisdom ہوگی۔ باالمواعظة الحسنة۔ مواعظِ حسنہ ہوگا۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک Vast Chapter کھول سکتا ہے۔ مرحوم علّامہ رشید ترابی ان عظیم خطباء میں سے ہیں، جن کی خطابت کے جوہر کی تعریف مجھ جیسا طالب علم کر نہیں سکتا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تو علّامہ میرے آئیڈیل بھی رہے ہیں اور میں ہمیشہ ان کی مجالس سنتار ہا ہوں اور رہنمائی بھی حاصل کی ہے۔
دو چیزوں کی طرف میں توجّہ دلاؤں۔ اُمید ہے کہ یہ دو باتیں مخصوص ہوں اُن مرحوم کے لیے ۔ ان کے درجات عالی ہیں، اللہ سے دُعا ہے کہ عالی تر کرے۔
خطابت کے جوہر کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کی ادائیگی اور ہاتھوں کے اشارے، زبان کی بندشیں ، یہ تمام چیزیں خطابت کے جو ہر میں شامل ہیں۔ اس سے ہٹ کر جو خصوصیت ہے اُن مرحوم کی، وہ حقیقت میں شاید ہی درک کرنے والے لوگ درک کر سکیں۔
خطیب وہ نہیں ہے جولوگوں کی Demand پر لوگوں کی خواہش پر خطابت کرے۔ خطیب وہ ہے جولوگوں کی ہدایت کرے، لوگوں کی رہنمائی کرے۔
جو ہرِ خطابت یہ نہیں ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ عوام، سامعین ، Audience کیا پسند کرتے ہیں، بلکہ جو ہرِ خطابت یہ ہے کہ راہِ پر وردگار میں دعوت دینے والا کن راہوں کو اختیار کرے، کس زبان کو اختیار کرے جس کے ذریعے سے وہ پیامِ الٰہی کو بہترین ذریعے سے عوام تک پہنچا سکے۔
مرحوم رشید ترابی ، کہا یہ جاتا ہے کہ خطیب وہ نہیں ہے جو is lead by the people لوگ اس کی رہنمائی کر رہے ہوں کہ آپ اس طرح سے خطابت کریں بلکہ خطیب وہ ہے جو lead کرے عوام کو۔
جب ہم گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں، آپ کی خطابت کے جو ہر دیکھتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ علّامہ رشید ترابی اعلی اللہ مقامہٗ ونورہ مرقدہٗ الشریف عجیب و غریب جو ہر رکھتے تھے۔ وہ عوام سے متاثر نہیں تھے، اسلام سے متاثر تھے۔ مکتبِ اہلِ بیتؑ کو واضح طور پر حکمت اور موعظہ کے ذریعے سے اُنھوں نے نہ صرف ذہن انسانی کو جھنجھوڑا بلکہ دلوں تک کو چھو کر بتایا کہ دین اسلام ہی اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ہر دَور میں کلامِ الٰہی کو ایک زبان کے ذریعے سے دوسروں تک پہنچا سکے۔ وہ واسطہ تھے Median تھے پیامِ پروردگار کا، اس وقت کی نسلِ جوان جہاں آپ جاتے تھے، وہاں کھنچ کھنچ کے چلی جاتی تھی۔ اس کی وجہ وقت اور حالات کے اعتبار سے خطابت کو رنگ دینا اُن کا ایک کمال تھا۔
ہر خطیب یقیناً بولتا ہے لیکن کتنا با اثر ہے، یہ ایک سوال ہے۔ اس سوال کا جواب علّامہ رشید ترابی صاحب نے دیا ہے اور آج بھی آپ مجلس سنیں گے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 2009 ء میں روز عاشور مجلس پڑھ رہے ہیں۔ یعنی اس طرح سے کہ اگر کوئی product کسی فیکٹری سے نکلتی ہے تو ایک زمانے کے بعد obsolete ہو جاتی ہے۔ آج کمپیوٹر کہاں سے کہاں نکل گیا، pentium اور pentium سے اور آگے اور ہر مرتبہ انسان بہتر سے بہتر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور جب بھی نئی پروڈکٹ آتی ہے تو پرانی پروڈکٹ obsolete ہو جاتی ہیں۔ خطابت بھی اسی طرح سے ہے۔ جیسے ہی نیا خطیب آیا ، جیسے نئی فکریں آئیں، پرانے لوگوں کو بھلا دیا جاتا ہے، لیکن علّامہ رشید ترابی کی خطابت کے جو ہر کا سب سے بڑا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ ان کی خطابت کبھی obsolete نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ انھوں نے عوام کا خیال نہیں کیا دینِ اسلام کو سامنے رکھا۔ قرآن کی آیات پر اتنا عبور کہ کبھی کسی آیت میں اشتباہ نہیں اور اس کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت تھی اور انھوں نے کی اور ایسے کی کہ جب بھی وہ آیت پڑھتے تھے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آج ہی وہ آیت نازل ہو رہی ہے۔
یہ جو ہر شاید ہی کسی خطیب کو خدا نے نصیب کیا ہو اور یہ جو ہر وہ جو ہر ہے کہ پتا چلتا ہے کہ جس طرح سے قرآن ہر دور میں تازہ ہے، اسی طرح سے خطابت بھی تازہ رہے گی۔
آخر میں، میں یہ کہوں گا کہ خواہ وہ خطیب ہو یا شاعر یا عالم یا مفکر ۔ اگر اُس کی فکر قرآن اور مکتبِ اہلِ بیتؑ سے مل جائے تو اس میں دوام ہے۔ اُس میں کبھی زوال نہیں آ سکتا۔ علّامہ رشید ترابی وہ عروج ہیں جن پر کبھی زوال نہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں ہم بدستِ دُعا ہیں کہ اُن کے درجات کو عالی سے عالی تر کرے اور اُن کے پسماندگان کو ان کی بتائی ہوئی رہنمائی پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
خطباء کے لیے ذرا غور و فکر کرنے کی دعوت میں بھی دوں گا کہ ان سے Inspire ہوں، اُن سے الہام لیں، اُن سے فکر لیں ۔ لوگوں کی، عوام کی خوشی کا خیال نہ رکھیں ۔ دین کی خوشی اور رضائے الٰہی کی، یقیناً آپ کی بات لوگوں کے دلوں کو چھولے گی اور ہمیشہ ہمیشہ آپ میں بھی بقا ہو جائے گی۔
خطیب عالم، مفکر وہ نہیں ہے جو عوام کی باتوں میں آکر اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ خطیب وہ ہے جو عوام کی رہنمائی کرے اور عوام کی رہنمائی اگر رضائے الٰہی کا باعث ہوگی تو یقیناً اُس کی باتیں قلوبِ مومنین کو چھو لیں گی۔ یہی وہ بات ہے جو مرحوم رشید ترابی میں تھی جو ندرت انھوں نے پائی تھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ جو پائے گا وہ بھی حقیقت میں باقی رہے گا ۔ جب کہ قرآن نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ كُلُّ مَنْ عَلَيْہَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۔ ہر چیز فنا ہو نے والی ہے لیکن وجہ پروردگار ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اُلوہیت وہ سمندر ہے کہ اگر انسان اس سمندر میں غوطہ لگا دے تو وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رہے گا۔ اُس کو کوئی فنانہیں کر سکے گا۔ علّامہ رشید ترابی نے اپنی ذات کو الٰہی سمندر میں سمودیا تھا جس کی وجہ سے اُن کی ذات ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی، اُن کی تعلیمات مشعلِ راہ ر ہیں گی ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔