علّامہ رشید ترابی کی خطابت اور کراچی کی مرثیائی فضا
ڈاکٹر ہلالؔ نقوی
( شاعر، محقّق کے ڈاکٹریٹ کے مقالے ”بیسویں صدی اور جدید اُردو مرثیہ“ سے اقتباس)
سوال یہ ہے کہ کیا رثائی ادب اپنے عہد کے علماء و ذاکرین سے اثر قبول کرتا ہے۔ اُنیسویں صدی کے مرثیہ گو شعراء کے مقابلے میں بیسویں صدی کے شعرا ذہنی وابستگی میں اپنے عہد کے علما و ذاکرین سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ نسیم امروہوی نے یہ بات خود لکھی ہے کہ ۱۹۳۰ء میں ایک مرثیے کے لیے مولانا سیّد سبطِ حسن صاحب نے قرآن وحدیث سے فضائلِ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا موضوع مقررفرمایا تھا۔
( مراثی نسیم ( جلد دوّم) نسیم امروہوی۔ مطبوعہ ۱۹۷۶ء کراچی ۔ حاشیہ صفحہ ۲۱۵)
سیّد آلِ رضا نے اپنی مرثیہ گوئی کے آغاز کا سبب ہی یہ بتایا ہے کہ:
” جب مولانا سیّد سبطِ حسن صاحب والی علمی ادبی اور شعریت اند از حدیث خوانی کے عروج اور قدیم طرز مرثیہ گوئی کے زوال کی رفتار برابر جاری تھی۔ وقت کے تقاضے اور اُفتادِ طبع نے مجھے ترغیب دی کہ سبطِ حسن اور انہیں کو اپنی بساط پر یکجا کرنے کی کوشش کر کے مرثیے کو پھر جاذبِ توجّہ بنا دو۔“
( نقشِ قدم: مرتّبه جمیله خاتون، ناشر و مکتبه دانش افروز ، لاہور ۱۹۶۶ء، صفحه ۳۷۲)
محمد رضا کاظمی نے اُردو مر ثیے پر اپنی تنقیدی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”عزاداری کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کبھی علمائے عظّام مرکزِ نگاہ بنے ہیں اور کبھی شعرائے کرام۔ جب خاندانِ انیسؔ کے شعراء فردوس کو بسانے لگے اور مرثیہ تقلید کے دور سے گزرنے لگا تو علماء کے مواعظ نے جمہور کو زیادہ متوجّہ کرنا شروع کر دیا۔ شمس العلماء مولانا سبط حسن اَعلی اللہ مقامہٗ نے مواعظِ حسنہ کو ایک ادبی شان سے نوازا۔ علّامہ رشید ترابی مرحوم و مغفور کے انتقال کے بعد تک مرثیے گو شعراء کا دائرۂ اثر علماء کے مقابلے میں محدودتر ہے۔“
(جدید اُردو مرثیه محمد رضا کاظمی، ناشر مکتبۂ ادب کراچی مطبوعه ۱۹۸۱، ص۲۷۸)
علّامہ کے متعلق سیّد محمد تقی نے لکھا ہے:
”…اُنھوں نے جدید لہجے میں بات کی، گفتگو کا انداز بدل دیا، اُن پابندیوں کو ہٹا دیا جو قدیم خطباء نے اپنے اُوپر عائد کر لی تھیں ۔ اب ذاکری میں خاص طور پر فارسی اور اُردو شاعری میں دَور پایا۔ انگریزی مصنّفین کے ذکر پر جو قد غن تھا اُٹھ گیا، جس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ علّامہ موصوف قدیم وجدید فکر سے یکساں بہرہ مند تھے۔ وہ جدید نسل کے لیے بات کرتے تھے۔ وہ ان کی ذہنوں کی نہج سے واقف تھے، اس لیے اس انداز میں مخاطب کرتے رہے جسے نئی نسل سمجھ لیتی تھی۔ اس لیے جدید نسل پر اُن کا گہرا اثر پڑا۔“
( مضمون جدید نسل کا خطیب: سیّد محمد تقی، مشمولہ، ممبر کا دوسرا نام ترتیب، امیر حسین، ناشران، ابوتراب انٹر پرائز کراچی، اشاعتِ اوّل جنوری ۱۹۷۵ء، ص ۱۷۶)
علّامہ رشید ترابی نے ۱۹۲۹ء سے ۱۹۷۳ ء تک خصوصاً کراچی اور عموماً برِّصغیر کی ایک بہت کثیر تعداد کو مسلسل دعوتِ فکر دی۔ ٭
بقول ضیاء الحسن موسوی علّامہ رشید ترابی نے ہمیشہ معین کو تربیتِ علمی سے فکر وفہم کی سطح بلند کرنے کی دعوت دی اور یہ حقیقت ہے کہ اُنھوں نے برِّصغیر کے تقریباً پچاس لاکھ مسلمانوں کو اپنی مجالس کے ذریعے علم و عرفان سے مالا مال کر دیا۔
( مضمون ” وہ جس کی موت پر روتے ہیں اُس کے دشمن بھی“ ضیاء الحسن موسوی، مشمولہ ”منبر کا دوسرا نام“ مطبوعه ۱۹۷۵ء ص ۱۰۵)
تقسیم کے بعد پاکستان میں ذکر ِحسینی کی فضا کو قائم کرنے اور اسے فکر و نظر کا ایک نیا رخ دینے میں علّامہ کا جو ہاتھ ہے اس کا اعتراف جدید مرثیے کے دو معماروں نسیم امروہوی اور سیّد آلِ رضا نے ان اشعار میں کیا ہے:
کشور پاک میں یہ ذکرِ حسینی کی فضا
زور تقریر سے ان کے ہوئی قائم بخدا
نطق ہے آپ کا اعجازِ تکلّم گویا
نمکینیٔ سخن، شاہِ سلونیؑ کی عطا
اِن کی تقریر میں اِک وہ بھی مقام آتا ہے
جس جگہ عرش سے منبر پہ کلام آتا ہے
(نظم ”منبر افروزِ شبستانِ خطابت ہیں رشیدؔ“ نسیم امروہوی، قلمی نسخه، بشکریہ قسیم ابنِ نسیم امروہوی)
٭ پاکستان میں علّامہ رشید ترابی کا دورِ خطابت ۱۹۲۹ء سے شروع ہوتا ہے۔ پہلا عشرہ اُنھوں نے امام بارگاہ مارٹن روڈ پر پڑھا۔ رات کو وہ خراسان میں خطاب کرتے تھے ۔۱۹۵۱ء سے بزمِ حسینی سیّد حسن عسکری کے زیرِ اہتمام خالق دینا ہال کی مجالس بھی ہونے لگی۔ پاک محرّم ایسوسی ایشن کے زیر انتظام مجالسِ محرّم کا آغاز ۱۹۵۱ء سے جہانگیر پارک میں مولانا ابن حسن جار چوی کی تقاریر سے ہوا لیکن جب ۱۹۵۸ء میں مارشل لاء آیا تھا تو امن و امان کی صورتِ حال کے پیش نظر جہانگیر پارک کے اجتماعات پر پابندی لگادی گئی۔ چنانچہ یہ سالانہ مجالس بھی وہاں نہ ہوسکیں۔ ۱۹۵۹ء سے پاک محرم ایسوسی ایشن نے نشتر پارک کا انتخاب کرلیا اور مولا نا مرزا احمد عباس ذاکری کرنے لگے ۔ ۱۹۶۰ء اور۱۹۶۱ء میں مولانا ابنِ حسن نجفی نے تقاریر کیں۔ ۱۹۶۱ء سے نشتر پارک میں امحرّم سے ۲۰ ؍محرّم تک رات ساڑھے آٹھ بجے علّامہ رشید ترابی خطاب کرنے لگے۔ ۱۹۶۲ء میں اُنھوں نے شام کو خطاب کرنا شروع کر دیا اور رات کی مجالس ختم کر دی گئیں۔ علّامہ مرحوم نے پاکستان میں اپنے دورِ خطابت میں گیارہ برس نشتر پارک میں اور بائیس برس خالقدینا ہال کی مجالس سے خطاب کیا۔ یہ معلومات منور عباس ایڈو وکیٹ (پاک محرّم) اور عسکری صاحب ( بزمِ حسینی) سے حاصل ہوئیں۔
سنا ہے بار ہا مجلس میں علّامہ ترابی کو
کہ سن کر اثر ہوتا رہا اپنی طبیعت پر
خطابت کی روانی ہے کہ موج نازشِ پیہم
فصاحت کی بلاغت پر بلاغت کی فصاحت پر
مطالب کی بلندی ہے کہ حسبِ مقصدِ مجلس
حسینی ذکر کی سکّہ زنی طرزِ خطابت پر
رضاؔ اس رفعتِ حُسنِ بیاں کا ساتھ دے دینا
بڑا احسان ہے خود اپنے ہی ذوقِ سماعت پر
مولا نا ماہر القادری نے لکھا ہے کہ:
”نواب بہادر یار جنگ کی تقریر میں ایسا محسوس ہوتا جیسے بادل برس رہا ہے اور جناب رشید ترابی جب تقریر کرتے تو ایسا لگتا جیسے کوہِ آتش فشاں حرکت میں آگیا ہے۔ اُن کی تقریر و خطابت کے جو ہر پوری طرح پاکستان میں آکر کھلے۔ مجالسِ عزا میں بس انہی کا طوطی بولتا تھا۔ ادبی زبان میں جسے فضا پر چھا جانا کہتے ہیں، وہ چیز ان کو میسر آ گئی تھی۔ وہ جب تقریر کرتے تو مجمع ان کی مٹھی میں ہوتا۔ جہاں چاہارُ لایا اور جہاں چاہا دلوں کو گر ما دیا۔ اسی کا نام ”سحرِ خطابت“ ہے۔ راقم الحروف نے شیعہ مقررین میں علّامہ حائری ،مولاناسیّد سبطِ حسن، حکیم مرتضیٰ حسن، علّامہ کفایت حسین ، مولانا سیّدمحمد دہلوی، علّامه ابنِ حسن جارچوی، مولانا کبن صاحب لکھنوی اور مولا نا لقاء علی بدایونی کو سنا ہے۔ مدرستہ الواعظین کے پرنسپل مولانا سیّد سبطِ حسن تو خطابت و تقریر کے بادشاہ تھے۔ دوسرے مقررین کا کچھ ایک دوسرے سے ملتا جلتا انداز تھا مگر رشید ترابی مرحوم کی خطابت میں جو انفرادیت پائی جاتی تھی وہ انہی کا حصہ تھی۔ اپنی ذہانت سے نئے نئے موضوعات ایجاد کرتے اور اُن پر الفاظ و بیان اور استدلال کی عمارت کھڑی کر دیتے۔ مجھے یاد ہے کہ خالقد ینا ہال میں جواُن کے مواعظ ہر سال ماہِ محرّم کے شروع کے دس دنوں میں ہوتے تھے، ایک بار اُن کی تقریر کا عنوان ”حسینؑ اور اقتصادیات“ تھا۔ اس موضوع پر بولنا اور نبھانا بس اُنہی کا کام تھا۔ تقریر میں الفاظ کی وہ پُر جوش روانی جیسے بپھرا ہوا دریا اور مواج سمندر ! اس طوفان میں بعض اوقات اتنی دُور نکل جاتے کہ خود ہی چونک کر موضوع کی طرف واپس آتے۔“
(یادِ رفتگان: مولاناماہر القادری ، مشمولہ ماہنامہ فاران کراچی ۔ شمارہ مارچ ۱۹۷۴ء، ص ۳۱)
علّامہ رشید ترابی کی خطابت میں انفرادیت کا سب سے اہم رخ موضوع کا انتخاب تھا۔ ان سے پہلے جو مقررین ، ذاکرین اور علماء گزرے ہیں، اُن کے یہاں یہ التزام و اہتمام نہیں ہوتا تھا۔
بیسویں صدی میں فنِ مرثیہ گوئی اور فنِ خطابت میں بہت بڑی تبدیلی موضوعاتی رجحانات کے حوالے سے آئی۔ گزشتہ ابواب میں یہ تذکرہ کیا جاچکا ہے کہ نجم آفندی نے اپنے نوحوں اور دلورام کوثریؔ، جوشؔ ، جمیلؔ مظہری، اور نسیمؔ امروہوی نے مرثیہ نگاری کے سفر کو موضوعات کے دائروں میں آگے بڑھایا۔ فنِ خطابت میں اس انفرادیت کا پہلا قدم علّامہ رشید ترابی نے اُٹھایا۔
”انھوں نے آٹھ برس کی عمر میں ذاکری کی اور سولہ سال کی عمر ۱۹۶۳ء میں عنوان مقرر کر کے تقریر کرنا شروع کی۔“
( مضمون شعلہ بیاں خطیب اور ممتاز عالمِ دین علّامہ رشید ترابی مرحوم سیّد عبد القادر حسینی، مشمولہ روزنامہ جنگ کراچی اشاعت ۷ار دسمبر ۱۹۸۲ء، ص۳)
انھوں نے کم و بیش نصف صدی ۱۹۲۴ء سے ۱۹۷۳ ء تک موضوع کو بنیاد بنا کر علومِ جدیدہ، قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبویؐ سے استدلال قائم کر کے مجلس کو ایسی ایسی علمی وادبی درسگاہ میں بدل دیا جو ذہنِ جدید کی فکری تنگی کے لیے سبیلِ ہدایت کا فریضہ انجام دیتی تھی۔ ان کی چند اہم تقاریر کے موضوعات ہی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ افکارِ ملّی ودِین کی تشریحِ نو میں کس وسعتِ فکر اور آفاقی شعور سے کام لے رہے تھے۔ اُن کی کچھ تقاریر کے موضوعات یہ ہیں:
”گیتان جلی اور نہج البلاغہ، قرآن اور شاعری ، اسلام اور سائنس، اسلام اور فنون لطیفہ، ادب اور مذہب ،اسلامی نظریۂ حیات، اسلام اور تصوف، انسان کا ارتقاء قرآن کی روشنی میں، اسلام اور ڈاکٹر اقبال، غالب اور مذہب، عقل اور قرآن، وحیِ ربّانی کا تعقّل، قرآن اور حقوقِ بشر، قرآن اور طنز و مزاح ، اسلام اور میرانیس، قرآن علم ہے، قرآن اور حیاتِ طیّبہ، توحید و شرک ، رسولِ اکرمؐ کی سوانح حیات کس طرح لکھی جائے۔“
(”منبر کا دوسرا نام“ : مرتّب امیر حسین ، مطبوعہ ۱۹۷۵ء کراچی ،ص ۲۶۵)
ایجوکیشن فلاسفی آف اسلام کے عنوان سے اُن کی دس تقاریر بھی صاحبانِ علم میں بہت شہرت رکھتی ہیں۔ صبر ، رزق ، دُعا، سجدہ اور یقین کے موضوع پر اُن کی فکر انگیز تقاریر آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ اپنے دولت کدے (فیڈرل بی ایریا) پر ماہِ رمضان المبارک میں تفسیرِ قرآن کے ذیل میں ایک ہی موضوع پر ایک ماہ تک مجلس سے خطاب کرتے۔ عربی، فارسی اور اُردو کی دُنیائے خطابت میں ایک ہی موضوع کا تعین کر کے اس تسلسل و تواتر سے علم و عرفان کی گتھیاں کھولنے میں آپ اپنی مثال تھے۔ بقول نسیمؔ امروہوی:
الله الله یہ آیات کی محکم تفسیر
ایک موضوع پر، اِک ماہِ مسلسل تقریر
ایک موضوع پر، اِک ماہِ مسلسل تقریر
(نظم ”منبر افروزِ شبستانِ خطابت ہیں رشیدؔ“، نسیم امروہوی)
پاکستان خصوصاً کراچی میں مرثیے کے ارتقائی سفر میں جن شعرا نے موضوعاتی حوالے سے فنِ مرثیہ کو ترقی دی، اُن کے پسِ تخلیق اس کے جو بھی محرّکات واثرات رہے ہوں، لیکن ان میں علّامہ رشیدؔ ترابی کی تقاریر نے بھی بعض مقاماتِ فکر پر اپنا اثر قائم کیا۔ خصوصاً ۱۹۵۰ ء اور ۱۹۶۷ء کے درمیان اس کی مثال مل جاتی ہیں۔ شعراء ان کے طرزِ خطابت سے اس لیے بھی متاثر تھے کہ ان کا انداز عالمانہ وشاعرانہ تھا، مبلغانہ واعظانہ نہیں۔ اس اعتبار سے وہ اقبال سے قریب تھے۔ ان کے بیان میں قدیم وجدید علوم کی جو لطافتیں اور خطیبانہ شکوہ میں فکر و خیال کی جو کیفیات تھیں وہ فکر اقبالؔ کی یاد دلاتی تھیں۔ اس بنیاد پر علّامہ سیّد محمد رضی صاحب (کراچی) نے انھیں خطیبِ مشرق لکھا ہے۔
( مضمون ” خطیبِ مشرق“: علّامہ سیّد محمد رضی، مشمولہ ”منبر کا دوسرا نام“ مطبوعہ ۱۹۷۵ء کراچی ،ص۷۰)
مولو یا نہ اور واعظانہ ترکیبِ خیال سے دُور رہ کر انھوں نے بہت بنیادی قسم کے عقائد کو بھی خالصتاً علمی مزاج عطا کیا۔ اس کی بہت روشن مثال ایمانِ حضرت ابو طالبؑ کا موضوع ہے کہ جسے انھوں نے جذباتی بحث کا رنگ دینے کے بجائے استدلال و منطقی ضوابط سے نتائج کی شکل دی۔ عصرِ حاضر کے اہم مرثیہ گو شعراء میں حضرت ابوطالبؑ کی شخصیت وکردار پر نسیمؔ امروہوی کے دو مرثیے بڑی یادگار اہمیت کے حامل ہیں۔ میرے پاس نسیمؔ امروہوی کی ایک قلمی تحریر موجود ہے جس میں انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ مرثیے انھوں نے علّامہ رشید ترابی کی تحریک پر لکھے۔ نسیمؔ کے انہی دونوں مرثیوں کے بعد کراچی کے مرثیہ گو شعرا میں اس موضوع کو لکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔
وہ مصائب پڑھنے میں انیسؔ کے اس مصرعے کی تشریح و تصویر بن جایا کرتے تھے:
مختصر پڑھ کے رُلا دینے کا ساماں ہے جدا