علّامہ رشید ترابی کی آئینی جدوجہد
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی ( دانشور محقق)
اسلامی فلسفے کی ابتدا سیاستِ مدن کے موضوع سے ہوتی ہے۔ یعقوب ابنِ اُفق کندی اور ابونصر فارابی نے افلاطون اور ارسطو کی تشریحات سے اسلامی فکر کا آغاز کیا۔ یہ یورپ سے استفادے کا پہلا دور تھا۔ دوسرا دور سلطنتِ عثمانیہ کے زوال سے شروع ہوا۔ یورپ کے عروج اور ترکوں کے زوال کو اس بات پر محمول کیا گیا کہ یورپ میں دستوریت ہے اور مشرق میں استبداد ۔ ترقی کو آئینی حکومت سے مشروط سمجھ کر بہت بحث و تمحیص آئین سازی کے موضوع پر ہوئی ۔ غرض تحریکِ پاکستان کے دوران اور تشکیلِ پاکستان سے دوران سیاستِ مدن اور دستور سازی کو ہمارے رہنماؤں کی فکر کا حور ہونا تھا۔ علّامہ رشید ترابی اَعلَی اللہ مقامہٗ نے تقریر کے ذریعے اور تحریر کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، چنانچہ ترابی صدی تقریبات کے دوران علّامہ رشید ترابی کی ملّی فکر کونئی نسل کے سامنے لانا لازمی بن جاتا ہے کہ وہ جن مسائل سے نبرد آزما ر ہے، وہ آج کے زندہ مسائل ہیں اور جو کچھ ہم دوہرائیں گے ، اس کی حیثیت اوراقِ پار ینہ کی نہیں، حالاتِ حاضرہ کی ہے۔
علّامہ رشید ترابی (۹ ؍ جولائی ۱۹۰۸ء حیدرآباد، دکن تا ۱۸؍دسمبر ۱۹۷۳ء کراچی) کی تعلیم دینی بھی ہوئی انگریزی بھی۔ انھیں اجازۂ روایت جن مراجع سے حاصل ہوا اُن میں آیۃ الله العظمیٰ سیّد حسین بروجردی، محسن حکیم اور سیّد ابوالقاسم خوئی نمایاں ترین تھے۔ آیۃ اللہ مرزامحمدحسین نائینی دستوری لائحہ عمل کی تلاش میں ان کے پیش رو تھے۔ انگریزی تعلیم کا سب سے اہم مرحلہ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم سے فلسفے کا درس تھا۔ اس کا تعلق ان کی خطابت کی اَساس سے قائم ہو گیا۔ مجالسِ شامِ غریباں میں ان کے عنوان منفرد اور آفاقی ہوتے۔ یقین ،سجدہ، دعا۔ یہ موضوعات آج بھی ہمارے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کافی ہے۔ گذشتہ سال ہی عالمی مالی اداروں نے عذاب جوع کی نسبت یہ اعتراف کر لیا کہ قحط عالمگیر ہے ، قحط عالم گیر ہے اور محض انسانی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ اس سے بہت قبل کا مرحلہ تھا علّامہ رشید ترابی کا خطاب بعنوان رزق اور اس سے بھی پیشتر تھا۔ ان کی کتاب ”دستور“ کی یہ فہمائش۔
روٹی کے مسئلے کا حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ درسِ اخلاق کو عام کیا جائے، درد کو قابلِ انتقال بنایا جائے۔ مفلس کو عزم اور تو نگر کو ایثار کا سبق دیا جائے۔ حاکم محکوم کی درمیانی خلیج کو پاٹا جائے۔ معیارِ تکریم و بزرگی کو بدل دیا جائے اور یہ بھی واضح رہے کہ لاکھوں کو نیک بنانا آسان نہیں جتنا کہ چند انسانوں کو۔
اس کتاب کا تعارف ابھی پیش کروں گا۔ فی الفور یہ دکھانا مقصود ہے کہ علّامہ رشید ترابی کی تقریر عالمی مسائل کو پیش نظر رکھتی تھی ، اور ان کی تقریر ایک تحریری بنیاد رکھتی تھی ۔ آج نو جوانوں سے ان تحریروں کا تعارف، اور بزرگوں سے ان تحریروں کی تجدیدِ ملاقات مقصود ہے۔ پہلی کتاب ، جس سے ابھی اقتباس دیا گیا ”دستور“ ہے۔ یہ نام پلّی حیدر آباد سے ۱۹۴۲ء میں شائع ہوئی۔ یہ لفظ رسم و رواج کے معنوں میں مستعمل ہے اور آئین کے معنوں میں بھی۔ دوسری تصنیف جو کراچی سے ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی عنوان رکھتی ہے، ”پاکستان کا دستور “ ۔ دوسرا عنوان، پہلے عنوان کے ابہام کو از خود دور کر رہا ہے۔ پہلی تصنیف نظری ہے، ایک مہذّب اور بار آور معاشرت کے تقاضوں کو پیش کرتی ہے۔ یہ آزادی سے قبل اور حیدرآباد کے جبری الحاق سے پہلے کی تصنیف ہے۔ لہٰذا کئی اُمور کا ظنی ہونا فطری بات ہے۔ دوسری تصنیف قیامِ پاکستان کے بعد کی ہے اور ایک نئے ملک کے درپیش مسائل سے نبرد آزما ہے۔
پہلے ”دستور“ پر ایک نظر ۔ اس میں بنیادی مذہبی تصورات کی استقرائی تشریحات ہیں۔ بالحاظ موضوع اس کا تعلق پہلے نظریہ سے ہے۔ نظریۂ معنی Ideology نہ کہ بمعنی theory ، اس کے بعد اخلاقیات، اور پھر سماجی تنقید۔ سب سے اہم بات یہ ہے ”دستور“ میں علّامہ رشید ترابی نے اعتقاد کی بنیادوں سے بحث کی ہے۔ گویا ”دستور“ براہ راست آئینی مسائل کے بارے میں نہیں، لیکن وہ فکر جو آئینی مسائل کو طے کرتی ہے، وہ فکر ہمیں ایک واضح شکل میں ”دستور“ کے صفحات پر نظر آتی ہے۔ سرِآغاز وہ عبارت جو اُن کے نظریئے کا جو ہر ہے۔
انسانیت میں جب تک کا ئنات کے لیے احساس جمال، احساسِ توازن اور احساس رحمت باقی ہے، خدا کا تصور بھی عقلاً باقی ہے اور اس کے آگے چونکہ انسانی زندگی تمام تر فکر و تعقل کے نتائج کی پابند نہیں اور اس کے بعض افعال ارادی نہیں ہوتے اس لیے عقل کے اُدھر جذبات، اثر پزیری و وجدان انسان کو اُس بستی کی طرف کھینچتے ہیں، جو لفظوں میں ”مقید“ نہیں۔
دیکھیے یہ ایک ontogical دلیل ہے۔ جو مادّیتِ تخلیق سے متعلق ہے۔ یہ teleogical دلیل نہیں جو مقصد تخلیق سے متعلق ہو۔ یہ ایک اساسی نکتہ ہے۔ انسان خواہ معقول نہ ہو۔ کائنات معقول ہے۔ ہاں اب چونکہ کائنات میں ایک نظم ہے، اس سے اگلی سطح پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک مقصد کے تحت ہوئی اور یہ کہ کُن فیکون کے ذریعے تخلیق ہوئی۔ یہ ایک فطری عمل کے تحت وجود میں نہیں آئی۔ جیسا کہ گوتم بدھا کا خیال تھا بلکہ اسلامی ثقافت کے پروردہ معتزلہ کا خیال تھا کہ عالم قدیم ہے۔ علّامہ رشید ترابی کے نزدیک ، معقولیت، جمالیات کا تعمیری خاکہ ہے groundplan ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ aesthetics ”کلیات“ symmetry کے مترادف نہیں۔ مجملاً یہ اس کائنات کی جمالیاتی کشش ہے جو انسان کے عرفان کو ہی نہیں، انسان کے وجدان کو متاثر کرتی ہے، اور یہ کہ اس بصیرت کا تانابانا علّیت کے نظام میں پیوست ہے۔
علّامہ رشید ترابی نے وجودِ باری تعالیٰ کو ذیلی نظریات کی سطح پر بھی دیکھا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا اختتام تازہ بات تھی اور دو نام فضا میں گونج رہے تھے، فرائڈ رخ نیٹشے اور کارل مارکس۔ نیٹشے نے اعلان کیا تھا کہ ”خدامرچکا ہے“ (۱۹۶۰ء کی دہائی میں یہ بحث پھر تازہ ہوئی تھی اور ٹائم کے سرورق پر آئی تھی ) علّامہ رشید ترابی نے اس نعرے کا جواب ان الفاظ میں دیا:
ہاں جو اُس قوم پر خدائی کرنا چاہتا تھا وہ تو مر گیا، مگر اس نے مرتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز سنی کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ جہاں تک مارکس کا تعلق ہے ، علّامہ نے نسبتاً نرم رویہ رکھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ افکارِ مارکس کی نشود نما ایک مخصوص تجربے کے تحت ہوئی تھی ، علّامہ رشید ترابی نے یہ فرض کر لیا کہ اگر کارل مارکس کو معلوم ہوتا کہ:
قل العفو کا بھی ایک الہامی نظریہ موجود ہے، تو پھر وہ، یا اُس کے ماننے والے، اور اُس کے نظریات پہ نظامِ حکومت کی بنیادر کھنے والے، خونیں انقلاب نہ پیدا کرتے۔ قـل الـعـفـو کا مطلب ہے سالانہ بچت کی سرمایہ کاری۔ انھوں نے اس الہامی تجویز کا اعادہ اُس وقت بھی کیا۔ جب وہ پاکستان میں آئینی تجاویز پیش کر رہے تھے ۔ علّامہ رشید ترابی نے پُر زور طریقے سے اس امر کی مخالفت کی کہ بھوک سے لڑنے کی خاطر مذہب کو مٹادیا جائے۔ انھیں خدشہ تھا کہ اس طرح جو جذباتی خلا پیدا ہو گا، اس میں سرمایہ کاردنیا بھر میں انقلاب کے، کوئی چارۂ کار نہ چھوڑیں گے، مگر انھوں نے اپنی دلیل کو حدود کے اندر رکھا۔ انھوں نے ساتھ ہی ساتھ نہایت واشگاف الفاظ میں یہ بھی فرمایا کہ مذہب نے کبھی کسی حکومت کے بقا کی ذمّے داری نہیں لی اُن کی فکر کا ڈھانچہ سیاست نہیں، معیشت ہے۔ اس ضمن میں وہ بالکل واضح ہیں اور روز مرہ کی مثالیں پیش کرتے ہیں : ”عوام یہ صدا دیتے ہوئے گزرتے ہیں کہ غریبوں کی عمریں قلیل ہیں اور دفتروں کی زندگی طویل۔“
اسی روز مرہ کی گرفتاری کو علّامہ رشید ترابی، پوری تہذیب کا انہدام جانتے تھے۔ وہ اس بات کی ضرورت پر زور دیتے کہ اس اقتصادی زنجیر کو توڑا جائے حکومت کا سب سے اہم فریضہ یہ ہو گا کہ ان کے لیے کوئی مناسب حل نکالے۔ یا تو ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اتنے مختلف معاشی راستے کھول دیے جائیں کہ یہ نو جوان اپنے حسبِ منشا اپنی منزلوں کو معیّن کرلیں، یا پھر دولت کو معیارِ برتری نہ قرار دیا جائے۔ اس کی جگہ اعلیٰ کردار کو دی جائے ، جس کو تقویٰ کہا جاسکے، جس کا ایک جز و محنت بھی ہو۔
تقویٰ کو دولت پر ہمیشہ مذہبی برتری حاصل رہی ہے۔ یہاں جو میزان سامنے آ رہا ہے،4 اس کے مطابق محنت کو سرمائے پر برتری حاصل ہے۔ جس صورت حال کی عکاسی علّامہ مبرور نے درج بالا عبارت میں” کی ہے۔ وہ نتیجہ تھی دوسری جنگ عظیم کی ، جس کو ختم ہوئے ایک ہی سال کی مدت گزاری جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرنے دیجئے کہ سال گذشتہ پیر کلارک کی کتاب The Last thousand days of the British Empire شائع ہوئی ہے۔ جس میں مصنف نے زوال برطانوی شہنشاہیت کا سبب قرار دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کو اور دوسری جنگ عظیم کا اگر محرک نہیں تو بہروپیا قرار دیا ہے۔ سرونسٹن چرچل کو۔ چرچل کے جس مشہور جملے سے گریز کر کے یہ سارا تجزیہ کیا گیا ہے، اسے فی الحال جانے دیں، مگر اس بحث میں آپ کو اس لیے شریک کر رہا ہوں کہ علّامہ رشید ترابی کی عالمی بصیرت ذرا سہولت سے واضح کی جاسکے۔ خاتمۂ جنگ کے تقریباً فورا بعد کا قول ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی عالمگیر لڑائی ختم ہوتی ہے تو نظریات کی شکست و فتح کا اعلان ہوتا ہے اور عمو ما فاتح قو میں دشمنوں سے کہیں زیادہ گھاٹے میں رہتی ہیں اور ان کے مادّی نقصان کا کوئی صحیح انداز نہیں لگایا جاسکتا، اگر چہ ان کے نظریۂ حکومت کی فتح ہوتی ہے تاہم ختمِ جنگ کے بعد ہی وہ نظر یہ آہستہ آہستہ بدلتا چلا جاتا ہے اور وہ طریقۂ حکومت باقی نہیں رہتا جو جنگ سے پہلے تھا۔
علّامہ رشید ترابی نے برطانیہ کے اخلاقی زوال کو سیاست دانوں سے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اور تجزیئے کے دوسرے رخ پر وہ جرمنی جاپان کی معاشی بحالی کی پیش گوئی کر گئے۔
علّامہ رشید ترابی کی سماجی تنقید ایک ایسا پہلو رکھتی ہے، جو کسی اور عالم کے یہاں نہیں۔ علّامہ رشید ترابی پردے کے غلط تصور کے خلاف ہیں۔
طبقۂ نسواں کے لیے آج جتنی دشواریاں در پیش ہیں، ان کا اکثر و بیشتر باعث غلط پر دہ، کہنہ روایات اور قدیم رسمیں ہیں جن کو صرف وسعت نگاہ سے دور کیا جاسکتا ہے۔
صرف ”وسعت نگاہ“ کی اصطلاح پر غور کریں، علّامہ مصلحون کی پہلی صف میں نظر آئیں گے ۔ حقوقِ نسواں کے دوش بدوش ، وہ صیغۂ تعلیم کو ترجیح نہ دینے کے شاکی ہیں۔ اس ضمن میں ان کے نکات دو ہیں ۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ تعلیم ایسی ہو جس سے عمومیت مستفید ہو سکے، اور وہ باشندوں کے مناسب حال ہو۔ دوسری شکایت یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی خود غرضیاں تعلیم کو برباد کر رہی ہیں۔ ازالہ آج تک نہ ہو سکا۔ کیا ہم اس بات صبر کر لیں کہ شکایت پرانی ہے؟
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے اور قیامِ پاکستان کے درمیان قلیل ، مگر قیامت خیز مدت حائل ہے۔ علّامہ رشید ترابی کے نہج فکر، ان کا رجحان قیام، پاکستان سے قبل کی تصنیف دستور سے ظاہر ہے اور اب تک اس کتاب کے اقتباسات پیش کیے گئے تھے۔ ان سے یہ بات تو طے ہو جاتی ہے کہ علّامہ رشید ترابی کا ذہنی سانچہ ہی ایسانہ تھا کہ وہ کسی غیر نظریاتی لائحۂ عمل کو قبول کر لیتے ، چنانچہ جب پاکستان میں آئین سازی تعمیری مرحلے میں داخل ہوئی تو انھوں پر زور طریقے سے ایک نظریاتی ریاست کی سفارش کی۔ اپنی ابتدائی زندگی میں ان کی عینیت idealism نے انھیں اسلامی ریاست کا ایک حمایتی اور مبلّغ بنادیا۔ بیان کی مساعی کا دوسرا باب ہے، اور اس کی داستان ان کی ایک دوسری تصنیف ”پاکستان کا دستور“ میں مرقوم ہے۔
ہماری موجودہ نوجوان نسل ۱۹۷۳ء کے آئین، اس کے نفاذ ، اس کی ترمیم ، اور اس کے تعطل ہی سے واقف ہے، وہ ۱۹۵۱ء اور ۱۹۶۲ء کے آئین بلکہ ابتدائی آئینی مسائل سے ناواقف ہے۔ چلیے میں یہ جملہ مستعار لے لوں کہ بزرگ تو واقف ہیں، نوجوان سے مخاطب ہوں، حالانکہ میری تمام تدریسی زندگی نوجوان کو فرسودہ نصاب پڑھانے میں گزری۔
بہر حال میں یہ یاد دلا دوں، وہ دو مسائل جن کی وجہ سے آئین سازی میں تاخیر ہوئی اُن میں سے پہلا یہ تھا کہ ریاست میں اسلام کا کردار کس در جے اور کس نوعیت کا ہو۔ دوسرا یہ تھا کہ صوبائی خود مختاری کی کیا حد مقرر کی جائے۔ دوسرے مسئلے کی بنا پر پاکستان ۱۹۷۱ء میں دولخت ہوا، اور پہلا مسئلہ آج ملک کے طول وعرض کو آگ اور خون کی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ پہلے صوبائی خود مختاری پر ان کا موقف سامنے آجائے۔ پہلے مرحلے میں وہ چاہتے تھے کہ ایک اکائی یعنی مشرقی بنگال، دیگر تمام اکائیوں پر حاوی ہو جائے۔ علّامہ رشید ترابی کا کہنا تھا کہ یا تو ایوانِ بالا بھی براہِ راست منتخب ہو یا پھر ایوانِ بالا کی نشستوں کو صوبوں کے بجائے فن و ہنر کی بنیاد پر پُر کیا جائے۔ اس تجویز کی صراحت انھوں نے یوں کی کہ زراعت ،صنعت، حرفت وغیرہ کے ماہرین کو ایوان بالا میں جگہ دی جائے۔ علّامہ رشید ترابی کا اصل اعتراض یہ تھا کہ دو ایوانی مقننہ کی قرآن وسنّت میں کوئی گنجائش نہ تھی۔
دو ایوانی مقننہ کی نظیر کا قرآن وسنت میں نہ ہونا ایک مثال ہے فقہِ اسلامی کے اطلاق کی کسی آئینی تجویز کی نظیر کا نہ ہونا، اس کے غیر اسلامی ہونے پر دال نہیں۔ جیسا کہ میں اپنی تصنیف جامع تاریخِ پاکستان میں لکھ چکا ہوں، اگر چہ ہمارا نصب العین ایک آفاقی خلافت ہے، تاہم قومی ریاستوں کو غیر اسلامی نہیں کہا جاسکتا۔ یہی بات کسی محلّے یا کئی منزلہ عمارات کی فلاحی انجمنوں پر بھی صادق آتی ہے۔ فراہمیِ آب، نکاسیِ آب اور پہرہ داری وہ بنیادی ضرورتیں ہیں جن کے پورا کرنے میں، ریاست کے وسیع تر نظریاتی رجحان کائی دخل نہیں ہوتا ہے۔
قرار دادِ لاہور میں اسلام کو ایک ثقافتی حقیقت کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔ غالباً اسی بنا پر علماء نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ مگر جب ان کی مخالفت کے باوجود پاکستان قائم ہو گیا تو انھوں نے مملکت پر اپنی اجارہ داری کا اعلان کر دیا۔ مذہبی جماعتوں نے سوسونکات پر مشتمل ایک متفقہ منشور پیش کیا، جسے وہ ایک اسلامی آئین کی بنیاد جانتے تھے۔ دستخط کنندگان میں علّامہ رشید ترابی شامل تھے۔ مذہبی اور نظریاتی اُمور پر انھوں نے دستور میں جو اظہارِ خیال کیا تھا، ان کے روبہ عمل ہونے کی توقع انھیں ایک اسلامی آئین سے ہی تھی۔ انھوں نے ”دستور“ میں نیکٹے اور مارکس کی فکر کا ابطال کیا تھا۔ ”دستور“ کی تصنیف سے قبل ہی وہ آیۃ اللہ مرزا محمد حسین نائینی کا مطالعہ آچکے تھے۔ آیۃ اللہ نائینی نے دستوریت کی تحریک چلائی تھی۔ اُن کے افکار میں ولایت فقیہ کا نظریہ، ایک نیم متشکل صورت میں نظر آتا ہے۔ بعد ازاں آیۃ اللہ نائینی خود اس تحریک سے دست بردار ہو گئے ۔ علّامہ رشید ترابی کے بارے میں یہ تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اسلامی آئین کے نصب العین سے دست بردار ہو گئے ہوں، تاہم تاویلات کی کشمکش نے انھیں بھی ایک مخمصے پر لا کھڑا کیا۔
سب سے پہلے اُنھوں نے اقتدارِ اعلیٰ کا نکتہ اٹھایا۔ اللہ ہی کا اقتدارِ اعلیٰ اللہ ہی کی soverereignity کا ہمارے نظریئے میں جواز ہے۔ در حقیقت اللہ کو سیاسی مقتدر سمجھنا۔ اُس کے اقتدار کا ایک محدود تصور پیش کرنا ہے۔ پاکستان کا سیاسی مقتدر اللہ ہے۔ برطانیہ کی سیاسی مقتدر، وہاں کی ملکہ ہیں۔ ایمان کا کون سا جز و آئین کا جزو بن سکتا ہے، اس پر ہمیں غور کرنا ہے۔ اقتدار اعلیٰ اللہ کا ہے، کیا اسی سبب سے ہم اسے جنرل منیجر بھی سمجھ لیں۔ عملاً ہم اللہ کو ایس ایچ او سمجھتے ہیں۔ ایک اور مثال دیتا ہوں ۔ جو لوگ شریعت سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں، وہ محذرات کا نکاح ، قرآنِ حکیم سے کر دیتے ہیں۔ قرآن سے زیادہ مقدّس شے ہمارے ہاتھوں میں نہیں۔ لیکن خود قرآنِ حکیم میں ایسے نکاح کا کوئی دُور تک جواز ہے؟ کیا سورۂ اخلاص کی تلاوت ہم ہر نماز میں نہیں کرتے ؟ تاہم ابھی پاکستان کا قیام نیا نیا تھا، چنانچہ علّامہ رشید ترابی نے مطالبہ کیا کہ آئین، اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا اعلان کرے، اور اس ضمن میں انھوں نے جنوبی افریقہ کے آئین کی مثال بھی دی۔ اُن کا خیال تھا کہ اس اعلان کے ذریعے عوام اپنی نظریاتی وابستگی (ideological commitment) ظاہر کرسکیں گے۔ آئین سازی کا وہ ایک ارفع تصور رکھتے تھے اور وہ محض اسے لائحہ عمل کے طور پر مقبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ نقطۂ نظر بہر حال ان کی ذہنی نشو و نما کا پروردہ تھا۔
اگر دستور کا مقصد یہی ہے کہ حکمران طبقے کے اختیارات اور اُن کے حدود معین کیے جائیں اور محکوم طبقات کے حقوق کی حفاظت ہوتو دنیا کی کسی مملکت کا دستور ہماری رہبری کے لیے کافی ، اور اگر دستور سازی کی بنا پر ہم عالمِ انسانیت کو ایک دعوتِ فکر دینا چاہتے ہیں، اور صحیح معنی میں مذہب رکھنے والے ممالک پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مذہب وسیاست میں بھی ہم آہنگی ممکن ہے۔
قابلِ قدر بات یہ ہے کہ یہاں بھی انھوں نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ انھوں نے دو نہایت عملی مشورے دیے۔ پہلا یہ کہ وقتِ واحد میں ایسا آئین وضع کرنا ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے یہ کہنے سے روکا کہ ہم کوئی ایسا آئین قبول نہیں کریں گے جو غیر اسلامی ہو۔ انھوں نے سمجھایا کہ ایسا کہتے رہنے سے اثر یہ ہوگا کہ پہلی مجلسِ آئین ساز کی مدّت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اُن کی یہ فہمائش تمہید تھی زمین داروں اور سرمایہ داروں کے شدید ترین احتساب کی ۔
جب یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ملک خدا ہی کے لیے ہے اور اُس نے تمام مسلمانوں کو اقتدار دیا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے حکومت چلائیں، تو دوسری طرف زمین جو ال ہی کی ملکیت ہے تمام مسلمانوں کی ملکیت کیوں نہ قرار پائے ۔ جسکو مسلمانوں کی حکومت عوام کی صلاح وفلاح کے لیے اپنے حسب منشا استعمال کرے خصوصاً جب کہ حٰمٓ سجدہ کی آیت (۱۰) اس مسئلہ میں ہماری رہبری کر رہی ہو۔ اور اگرزمین صالح بندوں کا حق ہے تو آج تمام زمینداروں کے صالح ہونے پر کون سی قوتِ اجتہاد فتویٰ دے سکتی ہے؟
آئین سازی کے طبقاتی مسائل ان کی فکر کی زیریں لہر ضرور ہے، لیکن سب میں فعال لہر ہے، جو آنے والی نسلوں کو اجتہاد کی فقہی حیثیت کے سا تھ اس کے سماجی مضرات سے آگہی عطا کر رہی تھی۔ ہم تصدیق کر سکتے ہیں کہ آئین سازی کے طبقاتی مسائل محض امکانی نہ رہے، حقیقی ثابت ہوئے۔
قانون سازی کے وقت، اسلامی دستور کی، رہبری میں علماء کی قوت اجتہاد کن حدود قیود کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرے گی ؟ یہ شبہ اس لیے پیدا ہو رہا ہے کہ جب نظام زمینداری کی بقا اور تحفظ پر زور دیا جا سکتا ہے تو کیا عجب کہ سرمایہ داری اپنے اثرات سے ربا کے حدود قیود معین کروائے اور اس کے بھی جواز کا کوئی پہلو نکل آئے۔
شاید اسلام کی اس ترقی پسندانہ تشریح کی بنا پر ان کا تصادم امیرِ جماعتِ اسلامی سے نا گزیر تھا۔ یہ تصادم اُس وقت تک نہ اُبھرا تھا جب تک کہ مولانا ابواعلیٰ مودودی نے علماء کے متفقہ ۲۲ نکات کی تلخیص نہ کر دی تھی۔ علّامہ رشید ترابی نے نشاندہی کی کہ ان ۹ نکات کی بھی ، اسی طرح ایک نکتے میں تلخیص کی جاسکتی ہے: ”اسلامی دستور نافذ کیا جائے۔“ علّامہ رشید ترابی نے بالخصوص ساتویں اور نویں نکتے کے حذف کیے جانے پر اعتراض کیا، کہ اِنھی نکتوں میں مسلّمہ اسلامی فرقوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی ضمانت دی گئی تھی ۔ علّامہ رشید ترابی نے ایک نہایت نازک مسئلے پر بھی اظہارِ خیال سے گریز نہیں کیا۔ جماعتِ اسلامی کے پیش کردہ 4 نکتوں کے درمیان یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ علّامہ رشید ترابی کا موقف ملاحظہ ہو:
اب علماء خود فیصلہ کریں کہ ان ۲۲ تجاویز میں اس سفارش کا تذکرہ کہاں ہے۔ ہم اصل مطالبے پر کوئی گفتگو نہیں کریں گے لیکن امیرِ جماعت نے اس مطالبے کو علماء کی سفارشات کا جو خلاصہ قرار دیا ہے، اس کو ہم سمجھنا چاہتے ہیں۔
قادیانیوں کے خلاف آئینی ترمیمات تو ہماری نسل کے لیے پرانی بات ہے۔ ہم عملاً آج جس احتساب کا سامنا کر رہے ہیں، اس کا خدشہ علّامہ رشید ترابی کے ذہن میں اُس وقت بھی تھا جب وہ پاکستان کے لیے اسلامی آئین کی مہم چلا رہے تھے۔
کیا حضرات علماء کو اس کا علم ہے کہ اسلامی دستور سے مخالفت رکھنے والے، اس لفظ ”سنت“کی اصطلاح کو یوں استعمال کر رہے ہیں کہ قانون سازی کے بعد شہر کے ہر راستے پر کچھ لوگ قانونِ تحفّظِ سنّت کے تحت نگرانی کرتے ہوئے کھڑے ہوں گے کہ کتنے رستہ چلنے والے داڑھی منڈے ہیں، اور کتنے راہ چلنے والوں کے پائنچے ٹخنوں کے نیچے ہیں۔ پہلے کچھ دنوں تو عوام کو سمجھایا جائے گا۔ اس کے بعد گرفتاریاں شروع ہو جائیں گی۔
یہ عبارت ۲۱ ویں دسمبر ۱۹۵۲ء کی ہے، اور آج ان کی اشاعت کی مدّت ۵۵ سال ہوچکی ہے۔ سارا دار و مدار ، جیسا کہ علّامہ مبرور نے فرمایا تھا، اصطلاحِ ”سنّت“ کی تعریف پر ہے۔ اس کے بغیر اسلام کو وہی کچھ بناکے پیش کردیا جائے گا جسے اسلام مٹانے آیا تھا۔ یعنی ایامِ جاہلیہ کے قبائلی رسوم۔
حاشیے
۱۔ رشید ترابی، دستور مصنّف نام پلی حیدر آباد ۱۹۴۶ء ، ص ۳۴
۲۔ ایضاً ، ص۸۳
۳۔ ص ۸۱
۴۔ ص۳۲
۵۔ ص۳۵
۶۔ ص۷۵
۷۔ ص۴۱
۸۔ ص۴۲
۹۔ ص۷۱
۱۰۔ ص۷۰
۱۱۔ ص۷۱
۱۲۔ ص۵۴
۱۳۔ رشید ترابی، پاکستان کا دستور، کراچی المنتظر ۱۹۵۲ء ، ص۲۹
۱۴۔ ایضاً ، ص۵
۱۵۔ ایضاً
۱۶۔ ص۱۴
۱۷۔ ص۱۵
۱۸۔ ص۱۷
۱۹۔ ص۲۱
۲۰۔ ص۱۲