علّامہ رشید ترابی روایت سے درایت تک
پروفیسر سحرؔ انصاری
( ممتاز شاعر، ادیب، سابق سربراہ شعبۂ اُردو کراچی یونیورسٹی)
علّامہ رشید ترابی خطیبِ شعلہ نوا، ادیبِ بے مثل اور عالم با حکمت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعرِ شیریں مقال بھی تھے، بلکہ اُن کی شاعری کے مطالعے اور اُن کے مزاج کی مجموعی کیفیت کے تجزیے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک شاعرِ باشعور ہی تھے لیکن اُن کی دیگر حیثیتیں اس قدر معروف و ممتاز ہوگئیں کہ ان کی شاعری نظروں سے اوجھل ہو گئی اور علّامہ نے بھی خود شاعری کے ادّعا اور اشاعت کو چنداں ضروری نہ سمجھا۔ علّامہ کی اس روِش کو سمجھنے کے لیے اُن کے ذہنی پس منظر کو سمجھنا بھی ضروری ہے جس کے بنیادی چراغ بہادر یار جنگ اور علّامہ اقبال تھے۔ علّامہ اقبال نے بھی اُس دور میں یہی نکتہ ملحوظ خاطر رکھا کہ:
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں اُنھیں مذاقِ سخن نہیں ہے۔
علّامہ ترابی بھی شاید یہی سمجھتے تھے کہ وطن کی آزادی اور بہتر انسانی معاشرے کی تعمیر کا کام زیادہ مقدّم ہے اور اس میں شاید وہ ادیب و شاعر کے بجائے ایک خطیب و مقرر کی حیثیت سے زیادہ بہتر منصب ادا کر سکتے تھے۔ سواسی منصب کو انھوں نے اپنی شخصیت کا تعارف بنالیا۔ طالبِ علمی کے زمانے میں علّامہ ترابی عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کی تعلیمی فضا پر چھائے ہوئے تھے لیکن اُس وقت بھی انھیں تقریر و خطابت سے نسبتاً زیاد ہ لگاؤ تھا اور اگر نظمیں یا غزلیں کہتے بھی تھے تو دوسرے ہم عصروں کے نام سے مشتہر کر دیتے تھے۔
علّامہ ترابی نے اپنے مزاج کے شاعرانہ عصر کی ہمیشہ حفاظت کی اور خطابت کے نازک سے نازک مقامات پر بھی اُن کی سخن سنجی اپنا جادو جگاتی رہی۔ فنِ شعر گوئی کے سارے آداب انھوں نے ابتدا ہی سے پیشِ نظر رکھے۔ وہ جس عہد کے نوجوان تھے، اُس میں اچھے شاعر کے لیے کسی مستند اُستاد کا شاگرد اور ایک شاعرانہ تخلص کا حامل ہونا ضروری تھا۔ اُس وقت حیدر آباد میں علم وفضل، تجربے اور استناد کے لحاظ سے حضرت نظمؔ طباطبائی سے بہتر کوئی اوراستاد شاید میسر نہ آسکتا تھا۔ نظمؔ طباطبائی بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان کی صحبت میں بیٹھنا گویا غالبؔ اور میر انیسؔ کی محبتوں سے فیض حاصل کرنے کے مترادف تھا۔ علّامہ رشید ترابی رضا حسین سے رشیدؔ ہو گئے۔ اور نظمؔ طباطبائی کوسیلۂ فیضانِ سخن بنالیا۔ کچھ عرصے بعد نظمؔ صاحب ہی کے ایماء سے وہ اس وقت کے ایک اور جید اہل فن ضامنؔ کشوری سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔
اُس وقت حیدر آباد جہاں سیاسی طور پر ایک نئے شعور کا ہمرکاب تھا، وہیں شعر و ادب کی محفلوں کا بھی ایک خاص رنگ دکھا رہا تھا۔ اُس وقت جامعہ عثمانیہ کے قیام کے طفیل سارے برِّصغیر کے مشاہیرِ علم وفن وہاں یکجا ہورہے تھے۔ اساتذۂ قدیم سے قطعِ نظر، فانی بدایونی، جوش ملیح آبادی اور یگانہ چنگیزی نے وہاں کی ادبی فضا کو ایک نیا رخ اور ایک نیا مزاج دیا جس نے اسے مقامی حدوں سے نکال کر مدھیا چل کے اس پار کی فضاؤں سے ہم رشتہ کر دیا۔
علّامہ ترابی نے غزلیں نظمیں، قصیدے، رُباعیات اور مثنویات کا ایک قابلِ قدرسرمایہ چھوڑا۔ اُن کے قصائد، نظمیں اور مثنویات کسی نہ کسی علمی اور فلسفیانہ موضوع کی منظوم صورت ہوتی ہیں۔ مثلاً امام مہدیؑ کی شان میں انھوں نے ایک معرکے کا قصیدہ لکھا ہے جس میں غیب و شہود اور زمان ومکان کے اُس جدید تصور کا فلسفیانہ اظہار کیا ہے جو آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت کے بعد فکرِ انسانی کا جزو بنا ہے۔
اس صحبت میں مجھے علّامہ ترابی کی غزلیات کے باب میں کچھ عرض کرنا ہے۔ علّامہ مرحوم کی بیاض میں مجھے اُن کی منتخب کی ہوئی ۸۳ غزلیں ملیں، جنھیں میرے عزیز دوست اور علّامہ کے فرزندِ ارجمند نصیرؔ ترابی جو خود بھی ایک خوش فکر شاعر ہیں، طباعت و اشاعت کے مرحلے میں لا رہے ہیں۔ بیاض کے ابتدائی صفحے پر علّامہ ترابی کے یہ الفاظ درج ہیں : ” منظوم افکار کا مجموعہ“ ۔ ترابی صاحب کی شاعری کا اس سے اچھا کوئی محاکمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ افکار جن کا وہ اپنے خیالات اور تقاریر میں اظہار کرتے ہیں، بسا اوقات اشعار کے قالب میں بھی بڑی خوبی سے ڈھل جاتے ہیں۔
یگانہؔ سے علّامہ ترابی کا بہت قریبی رابطہ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں کے یہاں شاعرانہ لہجوں کی مماثلت بھی محسوس ہوتی ہے۔ علّامہ ترابی غزل کے لہجے کی جس روایت سے قریب نظر آتے ہیں اسے دیکھ کر یگا نہ ہی کا یہ مصرع دوہرانا پڑتا ہے: یہ کون حضرتِ آتشؔ کا ہم زباں نکلا
علّامہ رشیدؔ ترابی کی غزل میں اُن کے علم و شعور کا عکس بڑے نفیس خط و خال کے ساتھ نظر آتا ہے۔ عربی، فارسی، فلسفہ اور جدید و قدیم علوم پر دسترس کے باوجود ان کا کلام بو جھل نہیں ہے، بلکہ نہایت شستہ اور متوازن اندازِ بیان کا حامل ہے۔ یہاں تک کہ بعض سنگلاخ زمینوں میں بھی انھوں نے اپنے اشعار کی دل نشینی اور لطافت برقرار رکھی ہے۔
علّامہ رشید ترابی کی غزل میں ایک ایسے انسان کے قلب و نظر اور جذبہ وشعور کا پر تو ملتا ہے، جسے مبادیاتِ حیات کے باب میں سوچنا، تجزیہ کرنا اور کسی نتیجے پر پہنچ کر دوسروں تک اس شعور کو منتقل کرنا خوب آتا ہے۔ ان کی غزل کے استعارے اور علامتیں وہی ہیں جواُردو غزل کے ادبی سرمائے کی جان ہیں لیکن ان کے توسّط سے انھوں نے غم، خوشی، وقت، عقل، جذ به، فطرت، ثبات، فنا، زیست اور مرگ جیسے موضوعات پر انتہائی منفر دانداز میں شعر کہے ہیں۔ اس مختصرسی صحبت میں پورے کلام کے محاسن پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں۔
علّامہ رشیدؔ ترابی کا مسلک روایتی مذہبی شخصیتوں سے بہت مختلف تھا۔ وہ روشن خیال روایت میں درایت کے قائل اور کشف کے بجائے علم اور جذب کے بجائے عقل کے داعی تھے ۔ وہ علم کو پیمانۂ عقل انسانی اور عقل کو پیمانۂ علم انسانی سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی مجالس میں بھی اپنے اسی مسلک کو برقرار رکھا اور شعر گوئی میں بھی جس طرح خطابت میں میرؔ، غالبؔ، انیسؔ اور اقبالؔ کے کلام کو وہ معانی کی نئی جہات سے آشنا کرتے تھے، اُسی طرح کربلا اور اُسوۂ امام حسینؑ کے بعض لطیف گوشوں کو نہایت خوبی سے شاعری کے پیرہن میں بھی مستور کر دیتے تھے۔ اُن کی ایک غزل کا یہ شعر دیکھئے اور حضرت امام حسینؑ کے سفیرِ کربلا سے اس کا رشتہ ڈھونڈتے ہوئے اس کا تصور کیجیے جو اس شعر کی غایت ہے:
رشیدؔ شمع کے بجھتے ہی یہ بھی ممکن ہے
بہت قریب جو آیا تھا اجنبی ہو جائے
رشیدؔ شمع کے بجھتے ہی یہ بھی ممکن ہے
بہت قریب جو آیا تھا اجنبی ہو جائے
اندھیرے اور چراغ کی نسبت سے ایک اور شعر علّامہ نے یوں کہاں ہے:
کچھ اندھیرا ہٹے تو حال کھلے
ہے یہی تو چراغ کا مصرف
سہل ممتنع میں معنی آفرینی علّامہ ترابی کا حقیقی کمال ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں مطالعے اور تجربے میں کس حد تک توازن ملتا ہے۔ چھوٹی بحروں کی غزلوں میں جب الفاظ آہستہ روی سے مصرعوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں تو کیفِ تاثر میں معتد بہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک غزل کے چند شعر دیکھئے:
ہر آن خوشی کی جستجو میں
غم سے غم کا مقابلہ ہے
اے رسمِ حیات تھک گیا ہوں
اب کتنے نفس کا فاصلہ ہے
کیا کوئی بچاوے اپنا دامن
بجلی کی پسند فیصلہ ہے
علّامہ رشید ترابی اپنی آخری علالت سے قبل تک شعر کہتے رہے۔ ان کی آخری غزل وسط ۱۹۷۳ء کی ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
کیا دورِ ستم آیا رہا دہر بدل کر
سمجھے تھے کہ آرام سے ہیں شہر بدل کر
افکار سے ہوشیار کہ یہ وقت یہ موجیں
پیغام بدل دیتی ہے خود لہر بدل کر
کس کس سے رہیں دُور تو کس قرب کو ڈھونڈیں
دیتے ہیں محبت میں یہاں زہر بدل کر
علّامہ رشیدؔ ترابی جس طرح بے مثل خطیب تھے، اُسی طرح اپنا کام پڑھنے میں بھی ایک خاص انداز رکھتے تھے۔ نجی صحبتوں میں نہایت اصرار کے ساتھ انکسار، ادراک، محویانہ تبسّم کے ساتھ بیاض کھولتے اور ڈوب کر نہایت صاف لہجے میں شعر پڑھتے تھے۔ الفاظ کے معنوی مزاج کے ساتھ ساتھ اُن کی ہیئت اور جمالیاتی ساخت سے بھی خوب واقف تھے۔ اس لیے ان کی زبان سے شعر سننے میں لطفِ سخن دو بالا ہو جاتا تھا۔ الفاظ کی ادائیگی اس انداز سے کرتے تھے کہ شعرکی تہ در تہ معنویت خود بخود آشکار ہونے لگتی ۔ غزل میں رشیدؔ اور کہیں کہیں ترابی بطور تخلص استعمال کرتے۔ اشعار غزل میں عموماً اور مقطعوں میں خصوصاً حیاتِ انسانی یا تجرباتِ زیست کے ضمن میں جو بات کہتے، کلیہ یا اصول سازی کے انداز میں کہتے تھے۔ حضرت جوشؔ ملیح آبادی عمو ماً غزل کے قائل نہیں لیکن انھیں علّامہ رشیدؔ ترابی کا کلام پسند تھا، خصوصاً علّامہ کا یہ شعر تو آج بھی اُن کے پسندیدہ اشعار میں شامل ہے:
درد اندازهٔ درماں سے سوا ہوتا ہے
ہائے وہ عقل جو نرغے میں ہو نادانوں کے
اسی غزل کا ایک اور شعر ملاحظہ کیجئے:
پردهٔ رونق بازار اُلٹ کر دیکھو
حسرتیں دوڑتی ہیں بھیس میں انسانوں کے
مجھے یقین ہے کہ جب علّامہ ترابی کا مکمل کلام منظرِ عام پر آئے گا تو انھیں ہمارے ادب کی تاریخ میں بحیثیت شاعر ایک مستقل حیثیت حاصل ہوگی اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ وہ اپنی ذات کے خلوت کدے میں سر تا سر ایک مفکر شاعر ہی تھے:
ہم منکرِ تسلیم تھے آغازِ سفر میں
انجام غریبی، وہی تسلیم، وہی ہم
صحرا کے بگولے کی یہ گردش بھی ہے قانون
اور اس کو سمجھتے رہے بے راہ روی ہم
نظر شناس رفیقوں کا ساتھ جب چھوٹا
چمن کا ذکر جو کرتے تھے روز شب چھوٹا
ہمارے اور بھی ساتھی تو اس قفس میں تھے
ذرا سی دیر کو سوچو کہ کون کب چھوٹا
کیا سحر تک کوئی جلنے تمنّا کرتا
بجھتے دیکھے ہیں اِسی دل نے سرِشام چراغ
کارواں جاتا ہے لے صبح ہوئی چونک رشیدؔ
اب کہیں اور جلا جا کے سرِ شام چراغ