علّامہ رشید ترابی خطابت کے نئے مدرسے کے بانی

سیّد محمدتقی مرحوم

( فلسفی، دانشور، مصنّف، نقّاد اور سابق مدیر روزنامہ جنگ کراچی )

علّامہ رشید ترابی نے ایک خطیب، مقرر اور ذاکر کی حیثیت سے پاکستانی عوام پر جو گہرے نقوش چھوڑے ہیں، وہ ایک تحقیق پسند ذہن کوکئی اسباب پر سوچنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اُن کی موت کا جو سوگ منایا گیا ہے وہ اس تاثر کا اظہار تھا جو انھوں نے لاکھوں انسانوں کے ذہنوں میں پیدا کیا تھا۔

      علّامہ رشید ترابی ایک بہت بڑے خطیب تھے اور یونانیات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ خطابت کو بطور علم کے مدون کرنے کا اعزاز گور جیاس کو حاصل ہوا تھا جو یونان کے سوفسطائیوں میں ایک محترم اور معزز مقام رکھتا ہے۔

      علّامہ رشید ترابی اُس مکتب سے تعلق رکھتے تھے جو عربوں نے پیدا کیا ہے جس کی روح سے خطابت منطق کی شدید گرفت سے نجات پا کر آزاد میدانوں میں جولانیاں دکھاتی ہے۔ خطابت اور ذاکری کے میدان میں ترابی صاحب کا مقام کیا ہے؟ یہ سوال ان لوگوں کی توجہ کا مستحق ہے جو چیزوں کو گہرائیوں میں اتر کرٹٹولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں واضح طور پر ذاکری اور خطابت کے دوممتاز مدر سے نظر آتے ہیں۔ ذاکری کا ایک مدرسہ تو وہ تھا جو 1947ء یعنی تقسیم سے پہلے ختم ہو گیا تھا۔

      تقسیم سے پہلے تک ذاکری جس نہج پر چلتی رہی، وہ قدیم اندازِ نظر اور پرانے لہجوں پر مشتمل تھا۔ اس مدرسے کی بنیاد لکھنو ٔنے ڈالی تھی جس نے مذکورہ طرز کے بعض بہت بڑے خطیب اور ذاکر پیدا کئے اور تاریخ یقیناً اُن خطیبوں اور ذاکروں کو یادر کھے گی، جو لکھنو نے پیدا کئے تھے اور اپنے فن میں مہارت اور کمال کے درجے پر فائز تھے۔ لکھنو ٔکے یہ خطباء چند متعین تہذیبی اور نظریاتی حدود میں محدود رہتے تھے۔ اُن کی چند ثقافتی اقدار تھیں جو تقسیم کے طوفان میں بہہ گئیں۔ خطبا ئے لکھنؤ قرآن مجید، حدیث تفسیر، فقہ، ادب عربی اور منطق کی حدود سے باہر جانا آداب خطابت کے خلاف قرار دیتے تھے۔ حد یہ ہے کہ وہ فارسی اور اُردو کے اشعار تک پڑھنا مجلسی آداب کی خلاف ورزی خیال کرتے تھے ۔ انگریزی اہلِ قلم اور مصنّفین کے ذکر کا تو کہاں سوال پیدا ہوتا تھا۔ اس کا ایک بڑا سبب انگریزی سے ناواقفیت بھی تھی ۱۹۴۷ء کے بعد نئے عہد کے بدلتے ہوئے حالات میں ذاکری کا یہ ادارہ اس انداز پر نہیں چل سکتا تھا جس پر اُس وقت تک چلتا رہا تھا۔

      علّامہ ترابی نے اس بدلی ہوئی صورتِ حال کا احساس کیا اور خطابت و ذاکری کے ایک نئے مدرسے کی بنیاد ڈالی انھوں نے جدید لہجے میں بات کی، گفتگو کا انداز و بدل دیا ان پابندیوں کو ہٹا دیا جو قدیم خطباء نے اپنے اُوپر عائد کر لی تھیں۔ اب شاعری میں خاص طور پر فارسی اور اُردو شاعری نے در پا یا۔ انگریزی مصنّفین کے ذکر پر جوقدغن تھا، اُٹھ گیا، جس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ علّامہ موصوف قدیم و جدید فکر سے یکساں بہرہ مند تھے۔ وہ جدید نسل کے لہجوں میں بات کرتے تھے۔ وہ ان کے ذہنوں کی نہج سے واقف تھے، اس لیے اس انداز میں مخاطب ہوتے رہے جسے نئی نسل سمجھ لیتی تھی۔ اس لیے جدید نسل پر اُن کا گہرا اثر پڑا اور با آسانی یہ کہا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کو قدیم روایت سے قریب لانے میں جتنا علّامہ رشید ترابی کا ہاتھ ہے اتنا کسی اور ذاکر کانہیں ہے۔

      یہ نیامدرسہ جس کی بنیاد علّامہ نے ڈالی ہے اب کیسے چلے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے، لیکن برصغیر میں مسلمانوں کی خطابت کا جائزہ لینے والے یہ بات مانیں گے کہ ترابی صاحب ایک نئے طرزِ خطابت کے بانی ہیں۔ انھوں نے خطابت کے جدید مدرسے کی بنیاد ڈالنے میں کامیابی حاصل کی اور اس لیے میرا مشورہ یہ ہوگا کہ موصوف کے کارناموں پرمشتمل ایک مجموعہ تیار کیا جائے جو انھوں نے خطابت کے میدان میں انجام دیئے ہیں۔ انھوں نے جس مدرسے کی بنیاد ڈالی ہے اس کی خصوصیات اور خوبیوں پر روشنی ڈالی جائے تاکہ ان کی خدمات اور یاد کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔ اُن کی یاد باقی رکھنے کا یہ مناسب طریقہ ہے اور مجھے امید ہے کہ اس طریقے پر عمل کیا جائے گا۔

Scroll to Top