علّامہ رشید ترابی۔۔۔ایک تاریخ ساز شخصیت
نصیر ترابی
ترابی صدی یادگاری لیکچر کے اہم نِکات
٭ ذاکری سے دانشوری کا کام لیا۔ اسی لیے اُن کی مجالس میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی کثرت سے شریک ہوا کرتے تھے۔
٭ انھوں نے منبر کو ایک کھلی درس گاہ Open University بنادیا تھا۔
٭ تعلیمات محمد و آل محمد کو ایک سائنٹیفک حیثیت سے عام کیا یعنی ثواب کے علاوہ ایک نصابی نظام کی صورت سے فروغ دیا۔
٭ سامعین کی ذہنی سطح کو بلند کیا۔
٭ اپنے عہد کے صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں پر اپنے Diction سے اثر انداز ہوئے ۔ جدید شاعری میں دعا، صبر، یقین ،سجدہ ، تسلیم، برکت اور رزق جیسے الفاظ اور ان سے متعلق مرکبات کا استعمال رواج پایا۔ اسی طرح جدید مرثیے کی لفظیات پر بھی افن کی خطابت کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ منبر سے اُنھوں نے جن اشعار اور نثرپاروں کو صرف کیا، وہ آج بھی جدید خطابت میں ایک مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔
٭ شامِ غریباں کو بین الاقوامی سطح پر لے گئے ۔ شامِ غریباں کی ہر تقریر خواہ وہ ریڈیو کی ہو یا ٹی وی کی، اُسے ایک بہت اہم Message کا درجہ حاصل تھا۔
٭ رزق کی شامِ غریباں۔ ریکارڈنگ سے پہلے ہمارے جنرل منیجر اسلم اظہر کے کمرے میں چائے کا دور چل رہا تھا۔ اچانک اسلم صاحب نے کہا کہ” آج ہی کے ڈان میں یہ خبر آئی ہے کہ امریکا نے لاکھوں ڈالر کا غلہ دریابُر د کر دیا ہے، بتایئے یہ کتنا سنگین عمل ہے، کیا یہ کبھی موضوع ہو سکتا ہے۔“ ترابی صاحب خاموشی سے سنتے رہے اور مسکراتے رہے اور دفعتاً اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ”چلیے ریکارڈنگ کے لیے “ ، ہم سب اسٹوڈیوز میں آگئے میں اسلم صاحب اور نصیر او پر Panel پر چلے گئے۔ ترابی صاحب نے خطبہ ختم کیا اور رزق کے موضوع کا جیسے ہی اعلان کیا۔ اسلم صاحب میری طرف لپکے اور زور سے کہنے لگے عارف It’s very risky۔ اتنا Extempore ؟ میں نے کہا۔ سرا بھی دیکھتے جائیے ۔ ریکارڈنگ ختم ہوئی۔ اسلم اظہر دوڑتے ہوئے نیچے پہنچے اور ترابی صاحب کے گھٹنے پکڑ لیے۔
شاید آج بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ 1967ء میں TV کی پہلی شامِ غریباں مولانا مصطفیٰ جو ہر صاحب نے پڑھی تھی۔ اُس کا انداز خبر نامے کی طرح Close up میں تھا۔ آج موجودہ شامِ غریباں کا Setup یعنی منبر اور سامعین کے ساتھ اس کے موجد خود علّامہ رشید ترابی ہیں۔ پہلی شامِ غریباں نہ پڑھنے کا ماجرا کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک پروڈیوسرا میر امام صاحب شامِ غریباں کے خطاب کی دعوت دینے ترابی صاحب کے پاس گئے ۔ ترابی صاحب نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میں ریڈیو سے کرتا ہوں آپ کسی اور کو مدعو کریں۔ امیر امام چلے آئے ۔ جو ہر صاحب کی مجلس شروع ہوتے ہی اُس وقت کے وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین نے پوچھا کہ علّامہ صاحب کیوں نہیں آئے ۔
ہماری طرف سے جواب گیا۔ انھوں نے منع کر دیا تھا۔ وزیر موصوف نے ترابی صاحب کو فون کیا اور اُن سے کہا کہ آپ نے کیوں خطاب نہیں کیا۔ ترالی صاحب نے جوابا کہا۔ ” کیا آپ آئے تھے مجھے مدعو کرنے میں صرف ایک پروڈیوسر کی دعوت پر تو جانے سے رہا ۔ یہ ہوتا ہے قوم کی لاج اور وقار کومحفوظ رکھنے کا سلیقہ۔ ترابی صاحب قومی وقار کو ہر طرح ملحوظ رکھتے تھے۔
اُن سے پہلے مجالس کے عنوانات کا رواج نہیں تھا۔ ترابی صاحب پہلے آدمی ہیں جنہوں نے با ضابطہ عنوان کے تحت مجالس سے خطاب کیا۔ وہ عصری تقاضوں کے مطابق اپنے عنوانات مرتّب کرتے تھے۔ مشرق اور مغرب کے افکار پر ان کی بڑی گہری نظر تھی ۔ انھوں نے منبر سے مشرق و مغرب کی جتنی کتابوں کے حوالوں سے گفتگو کی، اُتنی ابھی تک Internet کی سہولت کے باوجود کسی مجلس میں سرسری بھی ذکر میں نہیں آتی ہے۔
٭ مذہبی عنوانات کے علاوہ ادبی لحاظ سے غالبؔ، اقبالؔ ، مولانا روم اور عمومی اعتبار سے سیاست، اقتصادیات اور نظامِ تعلیم سے متعلق موضوعات کو کسی اور فورم کے بجائے منبر سے بیان کیا تا کہ منبر کے دائرے کو وسیع کیا جائے۔
٭ اسلام کے جیّد محققین اور علمائے اکا بر نے اپنی تحریر کے لیے جو تحقیق کی وہی تحقیق کا معیار ترابی صاحب نے اپنی تقاریر کی تیاریوں میں قائم کیا ہے۔
٭ سوز خوانی کو مجلس عزا کی تہذیب کا لازمی جز بنایا اور اسے با ضابطہ ایک ادارے کی شکل دی۔
٭ بندر روڈ پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی غرض سے پہلی بار 1957ء میں خالقدینا ہال کی محرّم مجالس سے Telephonic Relay System ایجاد ہوا۔ اس سسٹم کے فروغ میں کرّار جون پوری کے ہمراہ حاجی غلام حسین جیٹھا گو کل کی ذاتی دلچسپی اور مالی اعانت کا بڑا دخل تھا۔
٭ قرآن اور حدیث کے علاوہ نہج البلاغہ اُن کی فکر کے بنیادی محور تھے۔
٭ انھوں نے بعض ایسے موضوعات پر عشرے پڑھے کہ جن کو عمومی طور پر ابھی تک سوچا بھی نہیں گیا ہے مثلاً ختمی مرتبتؐ کی سوانح عمری کس طرح لکھی جائے ۔ وحی ربانی کا تعقل۔ قرآن اور قیامت، اسلام اور عیسائیت، اسلام اور معاشیات (مارکس کی داس کیپٹل کے حوالے سے ) نہج البلاغہ اور گیتا نجلی ( ٹیگور ) عقیدے کی اساس۔ مسلمانوں کی تاریخ یا اسلام کی تاریخ۔ رویتِ ہلال (Navigation کے حوالے سے ) ہلاکت یا شہادت۔ قرآن اور انکشافاتِ جدیدہ، ادب اور مذہب۔ قرآن اور علمِ عروض (Grammar of Poetry) ۔ قرآن کا طنز و مزاح- حقوقِ بشر، قرآنی منشور اور اقوامِ متحدہ کا منشور (زندگی کا آخری عشرہ نشتر پارک)
٭ وہ واحد ذاکر تھے جو اپنے عشروں کے موضوعات کی مناسبت سے آغاز میں خطبے پڑھتے تھے۔ اُنھوں نے ہی سب سے پہلے آیۂ تطہیر کو خطبے کا لازمی حصہ بنایا۔
٭ اُن کی ہر تقریر ایک منطقی تسلسل سے ہوتی تھی یہاں تک کہ مصائب کے بیان میں بھی موضوع کی رعایت کو ملحوظ رکھتے تھے۔
٭ معصومینؑ کی شہادت اور ولادت پر جس پابندی سے انھوں نے خطاب کیا، ابھی تک ایسی دوسری مثال سامنے نہیں آئی ہے۔
٭ ترابی صاحب کی الفاظ کے تلفظ پر بڑی لغوی گرفت تھی۔ ادبی لوگ عام طور پر تلفظ کے بارے میں اُن کا حوالہ Quote کرتے تھے۔
٭ تقریر کے دوران اُن کے اشارات اور حرکات بھی اُن کی تقریر کا مؤثر حصہ ہوتے تھے۔
٭ اُن کی خطابت ایک مکتب کا درجہ رکھتی ہے۔ آج منبرِ رسولؐ اور بعض سیاسی حوالوں سے جو تقاریر ہورہی ہیں، اُن پر شعوری یالا شعوری طور پر ترابی صاحب کے نمایاں اثرات نظر آتے ہیں۔
٭ انھوں نے ابتدا میں آرام باغ اور پھر بعد میں خالقدینا ہال اور نشتر پارک جیسی Public Places کو امام بارگاہ میں تبدیل کروایا تھا۔
٭ قرآن کی طرح نہج البلاغہ، صحیفۂ کاملہ، اخبارِ رضاؑ، علمِ رجال اور اصحابِ اطہار پر اُنہوں نے باضابطہ عشرے پڑھے۔ خطبۂ شقشقیہ، خطبۂ جنابِ سیّدہؑ اور خطبۂ جناب زینبؑ، ان تینوں خطبوں کے تجزیاتی مطالعے پر ایک مکمل عشرہ پڑھا۔
٭ جو Diction اُن کا تقریر کے لیے تھا، وہی اُنھوں نے اپنی شاعری میں برقرار رکھا۔ وہ اپنی شاعری کو منظوم تقریر کہتے تھے اور نصرتِ مظلوم اُس کا مرکزی موضوع قرار دیتے تھے۔
٭ محمدو آلِ محمد؊ کی جو معرفت ترابی صاحب کو تھی وہ بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ اسی معرفت کی وجہ سے اُن کی کوئی تقریر بے تا ثیر نہیں تھی۔
٭ اکثر لوگوں کو کرسی زینت بخشتی ہے لیکن خال خال ہی کوئی ایسا ہوتا ہے جو کرسی کو زینت بخشتا ہے۔ بلاشبہ تر ابی صاحب منبر کی زینت تھے۔
٭ مصائب میں اُن کا کمال یہ تھا کہ وہ خود بھی گریہ کرتے تھے اور واقعے کی مظلومیت اور صبر کے جلال کونمایاں کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی شہید کی شہادت کا احوال بیان نہیں کیا۔ وہ ایک ایسا منظر بیان کرتے تھے جو Cut to Cut بہت کم عرصے میں اپنے اختتام کو پہنچ جاتا۔ مقتل کو قصہ گوئی یا داستان گوئی سے محفوظ رکھتے تھے۔ اہلِ بیتؑ کے وقار کے منافی روایت سے گریز کرتے تھے۔ وہ واحد ذاکر تھے جو عاشور کے بعد 8 ربیع الاول تک ایک تاریخی تسلسل سے مصائب بیان کرتے تھے۔
٭ وہ آیات کو پڑھنے کے دوران اپنی آواز اور لہجے کو آیت کی مفہومی مناسبت سے بلند و پست رکھتے تھے۔ آج بھی جب میں قرآن کی تلاوت کرتا ہوں تو بعض آیات پر پہنچ کر میرے کانوں میں ترابی صاحب کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ مثلاً …
٭ ترابی صاحب نے تہذیب عزا کے لیے بڑی بصیرت کا مظاہرہ کیا، مثلاً یہ ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ وہ 21 رمضان کے جلوس کی مجلس نہیں پڑھتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جلوس کی وجہ سے ہمارے لوگ رمضان کا مکمل احترام نہیں کر پاتے لہٰذا ایک مذہبی فریضے کو ادا کرنے کے لیے کسی شرعی نقص میں مبتلا ہونا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟
٭ انھوں نے کبھی کسی شب بیداری کی مجلس نہیں پڑھی۔ انہیں محرّم کے پہلے عشرے کے لیے کئی بار لندن، ایسٹ افریقہ اور عدن سے دعوت آئی لیکن انھوں نے کبھی Commercial Interest میں قوم کی مرکزیت کو کمزور ہونے نہیں دیا۔