علّامہ رشیدؔ ترابی کی تقریروں میں میر انیسؔ کا تذکرہ

سیّد محمد عابدی (محقق)

      مولانا سیّد سبطِ حسن قبلہ اَعلی اللہ مقامہٗ اکثر فرماتے تھے کہ اگر مجلس پڑھنے کے دوران پڑھنے والے کو میر انیسؔ کے مرثیوں کے بند یاد نہیں تو ذاکر کبھی کامیاب خطیب نہیں بن سکتا۔

      علّامہ رشید ترابی کی تقاریر کے دوسرے عظیم پہلو ہٹا کر صرف اِس ایک مقولے کی روشنی میں اُن کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو بھی وہ ایک عظیم خطیب ہیں۔ علّامہ کی مجلسیں سنتے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا، لیکن تقریریں میرے دل و دماغ پر نقش ہوگئی ہیں ۔ جب ۲۸ ؍محرّم کو خالق دِ بنا ہال کی مجلس میں ترابی صاحب حضرت علی اکبرؑ کی شہادت پڑھ رہے تھے، آخری جملے یہ تھے:

”یہ سب جو کچھ مصائب میں سنتے ہیں، یہ جو کچھ بھی ہے سب انیسؔ کے مرثیے ہیں۔ اس سے زیادہ میں اور کچھ سمجھا نہیں سکتا ۔ حسینؑ علی اکبرؑ کی لاش پر پہنچے۔ بیٹے کے سر کو اُٹھا کر ابھی اپنے زانو پر رکھا تھا کہ دُور جنگل سے آواز آئی، میرے لال علی اکبرؑ پھوپھی آئی، زینب آئی، پالنے والی آئی۔ حسینؑ نے جب زینب کی صداسنی:

صدائے نالۂ زینبؑ جو شہؑ نے پہچانی

قلق سے زرد ہوا رنگِ رُوئے نورانی

پکارے لاش کا شانه ہلا کے اے جانی

اب آنکھیں کھول کے دیکھو تو گھر کی ویرانی

تمھاری ماں درِ خیمہ پہ دہاڑیں مارتی ہے

اُٹھو اُٹھو که علی اکبرؑ پھوپھی پکارتی ہے

ترابی صاحب کی تلاش کی داد دینی پڑتی ہے۔ اقبالؔ اور غالبؔ کے اشعار تلاش نہیں کرنا پڑتے لیکن میرا نیسؔ کا انتخاب بہت مشکل امر ہے۔ حضرت علی اکبرؑ کے حال میں میرانیسؔ نے تقریباً ۲۵ مرثیے لکھے ہیں۔ لکھے تو زیادہ ہوں گے، ملتے صرف اتنے ہی ہیں اور مشہور مرثیے یہ ہیں:

مطلع:

جب غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے

دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ

جب لشكرِ خدا کا علم سرنگوں ہوا

دولت کوئی دنیا میں پسر سے نہیں بہتر

جب کربلا میں نورِ سحر جلوہ گر ہوا

حضرتؑ سے جب برادرِ خوش خُو جدا ہوا

اے آفتابِ ذہنِ رسا جلوہ گر ہو آج

لیکن ترابی صاحب اِن تمام مرثیوں سے کوئی بند انتخاب نہیں کرتے بلکہ جلد ششم کا ایک مختصر مرثیہ اُن کے پیشِ نظر ہے جس کا مطلع ہے:

” بشر کے جسم سے رنجِ فراقِ جاں پوچھو“

      اور اس پورے مرثیہ میں صرف یہی ایک بند ہے جو قیامت ہے۔ اس آخری بند میں درد ہے، تڑپ ہے، آنسو ہیں۔ صرف ایک بند پورا مرثیہ۔ ایک بند میں انیسؔ نے سب کچھ کہہ دیا ہے جو اکثر وہ پورے پورے مرثیوں میں کہتے ہیں اور یہ انیسؔ کی اختصار پسندی کا ثبوت ہے۔

      ۱۹۶۹ ء رمضان المبارک کی تقریروں میں جب ترابی صاحب سورہ یٰسین کی تفسیر کر رہے تھے۔ ۱۱؍رمضان کو امام حسینؑ کی رخصت پڑھتے ہوئے میر انیسؔ کے اس مرثیے سے رخصت پیش کی:

”کیا ز خم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا“

      اس مرثیے کو احسنؔ لکھنوی نے ”واقعاتِ انیسؔ“ میں بڑی اہمیت دی ہے ۔ شارب رودولوی نے بھی اپنی کتاب ”مراثیِ انیس میں ڈرامائی عناصر“ میں اس مرثیے پر بہت اچھا تبصرہ کیا ہے۔ اور ترابی صاحب بھی اسی جگہ سے انتخاب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

” کبھی کبھی طلباء کے لیے میرانیس کا کلام پیش کیا جاتا ہے، اچھا ہے ادب ہے… ۱۹۲۴ء میں عاشور کے روز میں نے یہ بند پٹیل پارک کی مجلس میں پڑھے … حسینؑ چلے سکینہؑ بی بی نے دامن تھاما، بابا آپ چلے جائیں گے تو میں کس کے سینے پر سوؤں گی۔ حسینؑ نے جواب دیا اب پھوپھی کے پاس سونا۔ اب ماں کے سینے پر رکھ کر سونا۔ مجھے جانے دوسکینہؑ ۔ سکینہؑ بی بی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا:

نیند آئے گی جب آپ کی بُو پاؤں گی بابا

میں رات کو مقتل میں چلی آؤں گی بابا

فرمایا نکلتی نہیں سیدانیاں باہر

چھاتی پہ سلائیں گی تمھیں رات کو مادر

وہ کہتی تھی سوئیں گے کہاں پھر علی اصغرؑ

فرماتے تھے بس ضد نہ کرو صدقے میں تم پر

شب ہوجائے گی اور دشت میں ہم ہوئیں گے بی بی

اصغرؑ مرے ساتھ آج وہیں سوئیں گے بی بی

وہ کہتی تھی کہ بس دیکھ لیا آپ کا بھی پیار

میں آپ سے بُولوں گی نہ اب یا شہِ ابرارؑ

اچھا نہ اگر جلد آنے کا کیجیے اقرار

مرجائے گی اِس شب کو تڑپ کر یہ دل افگار

کیسی ہیں یہ باتیں مِرا دل روتا ہے بابا

گھر چھوڑ کے جنگل میں کوئی سوتا ہے بابا

اصغرؑ کبھی ساتھ آپ کے اب تک نہیں سوئے

بہلا لیا امّاں نے اگر چونک کے روئے

شفقت تھی مجھی پر کہ یہ بے چین نہ ہوئے

یہ پیار ہو جس پر اُسے یوں ہاتھ سے کھوئے

جیتے رہیں فرزند کہ سب لختِ جگر ہیں

میں آپ کی بیٹی ہوں وہ امّاں کے پسر ہیں

لو روئو نہ اب صبر کرو باپ کی جانی

بھجوانا ہے عبّاسؑ کو کچھ پیغام زبانی

اُودے ہیں لبِ لال یہ ہے تشنہ دہانی

ملتا ہے تو بی بی کے لیے لاتے ہیں پانی

محبوبِ الٰہی کے نواسے ہیں سکینہؑ

ہم بھی تو کئی روز کے پیاسے ہیں سکینہؑ

گزشتہ سال ذیقعدہ کے مہینے میں جب ترابی صاحب رضا مرحوم کی مجلس چہلم پڑھ رہے تھے، تذکرے غالبؔ، اقبالؔ اور یاسؔ یگانہ چنگیزی کے تھے اور آخر میں سورۃ الشعراء کی آخری آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے علّامہ نے کہا:

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللہَ كَثِيْرًا

”وہ شعراء حق پر ہیں جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کا کثرت سے ذِکر کیا۔“

انیسؔ کو اس کا زیادہ حق پہنچتا ہے، کیوں کہ اُنھوں نے نصرتِ مظلوم کی ہے۔ ان کے اجداد کا کیا کہنا، ان کے خاندان کا کیا کہنا اور جو کوششیں اب ہورہی ہیں ان کے لیے کیا کہا جا سکتا ہے …

حسینؑ اکیلے ہیں … تقریباً ہر مرثیہ گونے اس منظر کو باندھا ہے۔ ایک مقام میری بھی نظر میں ہے۔ آپ کو بھی یاد ہے:

فرماتے تھے ہاتھوں پہ لیے لاشۂ اصغرؑ

مقبول ہو اے بارِ خدا ہدیۂ احقر

تُو نے مِرے اصغرؑ کو دیا رتبۂ  اکبر

کس منہ سے تِرا شکر کروں اے مرے داور

بندے پہ یہ اللہ کی تائید ہوئی ہے

قربانيِ اصغرؑ کی مجھے عید ہوئی ہے

بہت سے مرثیہ لکھے گئے، سعدی جیسے شاعر نے معتصم کا مرثیہ لکھ دیا۔

آسمان را حق بود گرخوں ببارد بر زمیں

بر زوال ملک معتصم امیر المؤمنیں

لیکن نصرتِ مظلوم اور ہے۔ بادشاہی کا مرثیہ اور ہے۔

مجھ میں تھی یہ طاقت کہ بھرے گھر کو لٹاتا

واں قتل ہو اکبر،ؑ اِدھر اصغرؑ کو میں لاتا

تڑپیں یہ مِرے ہاتھ پہ میں لب نہ ہلاتا

بازو ہوں جدا ہاتھ نہ اُمّت پہ اُٹھاتا

یوں خوش کوئی ہنگامِ تباہی نہیں ہوتا

بندے پہ یہ بے لطفِ الٰہی نہیں ہوتا

کیا بیت کہی:

یوں خوش کوئی ہنگامِ تباہی نہیں ہوتا

بندے پہ یہ بے لطفِ الٰہی نہیں ہوتا

لشکر دیا، کنبہ دیا، سب گھر دیا تُو نے

 مختار بھی تُو نے کِیا، عسکر دیا تُو نے

 ہم شکلِ پیمبرؐ سا پسر بھی دیا تُو نے

یہ حوصلہ یہ دل یہ جگر بھی دیا تُو نے

کیا فخر جو پیاروں کو رہِ حق میں دیا ہے

 تیری ہی امانت کو فدا تجھ پہ کیا ہے

میں نے تین بند پڑھے اور اب یہ چوتھا بند پڑھنے جارہا ہوں:

غم کا مجھے غم ہے نہ خوشی مجھ کو خوشی کی

تُو سر پہ ہے پروا نہیں بندے کو کسی کی

ہاں ایک یہ حاجت ہے حسینؑ ابنِ علیؑ کی

سر ننگے نہ دیکھوں میں نواسی کو نبیؐ کی

      میر انیسؔ کا کلام اور ترابی صاحب کی آواز ۔ انیسؔ کے کلام میں آج بھی وہی سوز ہے وہی درد ہے جو سو (۱۰۰) سال پہلے تھا۔ کیوں نہ ہو، انیسؔ کی شاعری معجزہ جو ٹھہری۔

      اُس مجلس کے فوراً بعد ڈاکٹر یاور عباس صاحب کی والدہ مرحومہ کی مجلس چہلم بھی منعقد ہوئی تھی۔ ترابی صاحب نے یہاں بھی وہی سلسلۂ تقریر جاری رکھا تھا۔ میر تقی میر اور غالبؔ اور اقبال کے بعد جنابِ زینبؑ کا خطبہ پڑھتے ہوئے میر انیس کے اشعار شروع کر دیئے اور ان بندوں کا لطف خطبہ پڑھنے یا سننے کے بعد دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہ ترابی صاحب کا عظیم کارنامہ ہے یا نہیں۔ انھیں اشعار سے شبلی نے موازنے میں یزید کے کریکٹر کو پیش کیا ہے لیکن ترابی صاحب نے خطبے کے بعد یہ بند پڑھ کر جنابِ زینبؑ کے کردار کو سامعین کے سامنے پیش کر دیا۔

آئے دربار میں روتے ہوئے جس وقت اسیر

دیکھ کر عابدِؑ بیمار کو بولا وہ شریر

ނسر کشی کر کے نہ سر بر ہوئے مجھ سے شبیرؑ

شکر کرتا ہوں کہ خالق نے کیا تم کو حقیر

بیٹھنے کا کہیں دنیا میں ٹھکانہ نہ رہا

پنجتنؑ اٹھ گئے اب زور تمھارا نہ رہا

آلِ احمدؐ کو حقارت سے نہ دیکھ او مقہور

سب پہ ظاہر ہے کہ ہم لوگ ہیں اللہ کا نور

مار کر سبطِ پیمبرؑ کویہ نخوت یہ غرور

خیر تو دُور نہ ہم دُور نہ محشر ہے دور

حق کا دریائے غضب جوش میں جب آئے گا

باندھنا ہاتھوں کا سادات کے کھل جائے گا

      اُس سال ترابی صاحب سورۂ برأت کی تفسیر کر رہے تھے۔ ان تقریروں کے درمیان چار تقریروں میں علّامہ نے میرانیسؔ کا کلام پیش کیا اور میر انیسؔ کی صد سالہ یاد گار کا تذکرہ بھی کیا۔ ۲۹ ویں تقریر میں معراج پڑھ رہے تھے کہ میر انیسؔ کا تذکرہ لے آئے اور دیکھئے اس خوبصورت انداز کے ساتھ :

”انیسؔ کے محرّکات بھی کچھ ایسے ہیں جن کا بیان تفصیلی وقت چاہتا ہے۔ اور شاید آنے والی تقریروں میں، میں واضح کر سکوں ۔ انیسؔ نے ساقی نامہ کا ایک بند لکھا تھا تو بعد میں شعراء نے پورے پورے ساقی نامے لکھ ڈالے۔ انیسؔ نے معراج پر ایک بند لکھا تو معراج پر پورے پورے مرثیے لکھ دئیے گئے۔ معراج کا بند ہے:

معراج سے جو شہؐ کو ملا رُتبۂ اعلیٰ

یہ رتبہ کسی اور پیمبر نے نہ پایا

اللہ سے جو قربِ محمدؐ تھا کہوں کیا

قوسین کا ہے فرق جہاں رتبۂ ادنیٰ

جبریلِ امیںؑ کو بھی نہ واں دخل کی جا تھی

یا احمدِ مختارؐ تھے یا ذاتِ خدا تھی

بند کا چوتھا مصرع:

”قوسین کا ہے فرق جہاں رُتبۂ ادنیٰ“

کو سمجھانے کے لیے کافی وقت چاہیے اور صرف اس ایک مصرع پر دس تقریریں کی جاسکتی ہیں۔“

پاکستان کے قیام کے بعد سے آج تک یہاں میر انیسؔ پر کوئی ورک نہیں ہوا اور ایک صاحب کے بقول اگر کسی نے انیسؔ کو پہچنوایا ہے تو وہ علّامہ رشید ترابی ہیں۔

Scroll to Top