علّامه عباس حیدر عابدی
(ذاکر و دینی اسکالر)
علّامہ ایک دانشور ،مدبر، فلسفی، عالم، مفسر، مفکر اور شاعر تھے
پورے ہندوستان میں ایک ہی مکتبِ خطابت تھا اور وہ لکھنؤ تھا۔ جس کا اسلوب یہ تھا کہ پہلے تقریر کی ضبطِ تحریر میں صورت گری کر لی جائے اور پھر اسے ازبر کر کے منبر سے خطاب کی صورت میں دوہرا دیا جائے۔ ایسے میں خطاب دبیان کی انجمن میں ایک نئی شمعِ روشن ہوئی اور وہ شمعِ انجمن علّامہ رشید ترابی تھے ۔ اگر چہ اُنھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے علاوہ کچھ دن شیعہ کا لج لکھنؤ میں گزارے تھے لیکن ذاکری میں اُنھوں نے خود اپنے ایک نئے مکتب کی بنیاد رکھی، خود اپنا ایک نیا نہج ایجاد کیا اور اپنے بعد آنے والے کے لیے تتبع کا ایک نیا چلن چھوڑ گئے ۔
علّامہ ذہنی طور پر ایک دانشور بھی تھے اور مدبر بھی فلسفی بھی تھے اور عالم بھی، مفسر بھی تھے اور مفکر بھی اور شاعر بھی۔ انھوں نے اپنی خطابت کا گلدستہ قدرت کے دست فیاض سے ملی ہوئی صلاحیتوں کے ان رنگا رنگ پھولوں سے سجایا تھا، پھر ان کے پاس فکری جمود نہیں تھا۔ اللہ نے ان کو بڑا ہی تخلیقی ذہن دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تقریر کا مسودّہ لکھ کر کبھی تقریر نہیں کی۔ وہ عنوان مقرر کرتے تو مطالعے سے اس کی تیاری کرتے اور پھر منبر پرہی اس کو Discuss کرتے، پھر وہ بعض بڑی باریک باتوں کا خیال رکھتے تھے مثلاً وہ کس ماحول میں تقریر کر رہے ہیں۔ اُن کے سامعین میں کثرت کس مذاق کے لوگوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی پٹیل پارک کی تقریروں کا مزاج کچھ اور ہوتا اور کھارادر کا کچھ اور ، ایرا نیاں کا اُس سے مختلف ۔ پھر وہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ وقت کے تازہ ترین مسائل یا BurningTopics کیا ہیں اور تازہ ترین مسائل کو زیر بحث لاتے ، اچھوتے عنوانات کو بحث کے لیے منتخب کرتے اور انوکھے انداز سے اُن کو خطابت کا پیراہن پہناتے ۔ اپنے ذوق کے تعلق سے جو تازہ ترین کتاب علمی دنیا میں آتی، وہ سب سے پہلے اُن کے ہاتھوں میں ہوتی۔
ان تمام باتوں کے باوجود منبر کی روایت کی بنیادی حیثیت سے اُنھوں نے کبھی انحراف نہیں کیا۔ اس بنیاد پر نئی عمارت ضرور تعمیر کی۔ اس روایت کے چمن میں نئے پھول کھلائے، تازہ تختہ ہائے گل سجائے لیکن اس کی اَساسی حیثیت کو کبھی نہیں بدلا۔
خود ایک عظیم خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فنِ خطابت کے اس قدر باریک بین مزاج داں تھے کہ اکثر اپنی مجلسوں میں گنجاروں ( لاؤڈ اسپیکرز ) اور مائیکروفون کی سمت و جا کا تعین خود کر واتے تھے اور پھر جب بولتے تھے تو اپنے صوتی اثرات سے بہت سے الفاظ کے معنی بدل دیتے تھے اور بہت سے الفاظ کو نئے معنی دے دیتے تھے ۔ انھوں نے منبر کی تجربہ گاہ میں خطابت کے نئے نئے تجربات کیے۔ اس فن کے تجربے کی تحلیل کا تجزیہ کیا اوراس میں نئی راہوں کی تخلیق کی۔
اُن کی شہرت اور اُن کی منفرد مقبولیت بہت سے ذاکرین کے لیے اُن سے ذاتی عناد اور شخصی مخالفت کا باعث بھی بنی۔
شاید یہی وجہ تھی کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود علّامہ آگے ہی بڑھتے گئے، ترقی ہی کرتے گئے ۔ وہ شمع بن کر روشن ہوئے ، مہتاب بن کے طلوع ہوئے ، آفتاب بن کر چمکے اور شہاب بن کے ٹوٹ گئے ۔ اُن کی زندگی میں خطابت کا طلوع ہی طلوع ہے، زوال کہیں نہیں۔