علّامه رشید ترابی کی خطابت کا تجزیاتی مطالعه

سیّد منتظر عباس نقوی

( ممتاز دانشور، خطیب اور مصنّف) اسلام آباد

ڈاکٹر عالیہ امام راوی ہیں کہ جب علامہ رشید ترابی سے یہ پوچھا گیا کہ آپ میں اور ہم عصر دوسرے مقررین  میں کیا فرق ہے؟ تو انھوں نے کہا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک منبر کو زینت دیتا ہے، دوسرے کو منبر زینت بخشتا ہے۔ کسی صاحب فن کی طرف سے اپنے بارے میں اس طرح کی رائے کوئی خاص بات نہیں۔ ارباب فن میں تعلّی اور خودستائی کا پایا جانا بالکل معمول ہے۔ لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جن کا فرمایا ہوا حقیقتاً مستند ہوتا ہے اور جن کی صریرِ خامہ سچ مچ نوائے سروش ہوتی ہے۔ ترابی صاحب کا قول بھی اسی نوعیت کا اظہار، حقیقت اور خود شناسی پر مبنی جملہ ہے۔ انھوں نے حقیقتاً خطابت کو زینت دی۔ اُن کا زمانۂ خطابت ان ہی کا دورِ خطابت تھا۔ اُن کی منفرد حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اگر چہ وہ اپنے زمانے کے تنہا بڑے خطیب نہیں تھے، مجلسوں کی خطابت کبھی عظمتوں سے تہی داماں نہیں رہی۔ ہر زمانے میں کچھ بڑے مقررین ضرور موجود رہے، لیکن اُس عہد سے آج تک جب بھی نمایاں خطیبوں کی بات ہوتی ہے تو تمام قابلِ قدر قابلِ فخر ذاکرین کے اسمائے گرامی ایک ساتھ لیے جاتے ہیں، اُن میں رشید ترابی شامل نہیں ہوتے اور جب رشید ترابی کا نام لیا جاتا ہے تو وہ تمام یقینی طور پر بڑے نام الگ رکھے جاتے ہیں۔ اُس وقت صرف ترابی صاحب کا ذکر ہوتا ہے۔

      خطابت کے حُسن و کمال کا سب سے بڑا پیمانہ اُس کی مقبولیت اور پزیرائی ہے۔ اس حوالے سے ترابی صاحب دنیائے شہرت وناموری کے بے تاج حکمران تھے، لیکن ترابی صاحب کی انفرادیت کا تعلق اس بات سے نہیں کہ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین خطیب تھے۔ مقبولیت اُن کا کمال نہیں تھی۔ اُن کا کمال اُن کا فن تھا۔ مقبولیت اس کمال کا نتیجہ تھی ۔ غور طلب بلکہ تحقیق طلب بات یہ ہے کہ اُن کے فن کی وہ کیا خصوصیات تھیں جن کی موجودگی نے اُن کے فن کو کمال شہرت و مقبولیت تک پہنچایا۔

      ترابی صاحب کے پاس وہ تمام خام مال وافر مقدار میں موجود تھا، جس کی مدد سے خطابت اور اچھی خطابت ہو سکتی ہے۔ خداداد صلاحیتوں میں ذہانت، موزوں آواز اور اچھا حافظہ ایک کامیاب خطیب کے لیے انتہائی ضروری عوامل ہیں۔ یہ تینوں نعمتیں انہیں وافر حاصل تھیں ۔ اکتسابی طور پر وہ ایک صاحب نظر عالم تھے۔ ان کا مطالعہ نہ یک رخا تھا نہ محدود ۔ انھوں نے بالکل مختلف جہتوں سے تعلق رکھنے والے علوم پر یکساں توجّہ دی تھی۔ مشرق اور اس کے علوم تو اُن کی میراث تھے ہی، مغربی افکار سے واقفیت بھی کما حقہٗ تھی۔ پھر اُن کے سامنے اپنے عہد کے اعلیٰ ترین خطابت کے نمونے بھی موجود تھے۔ ان کا زمانہ وہ ہے جب سیاست اور مذہب کے میدانوں میں سربلندی اور کامیابی کے لیے خطابت ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی تھی….. ایک اور صفت جو ہر میدان میں کامیابی کے لیے ہمیشہ ضروری رہی ہے، وہ جذبۂ محنت ہے۔ اتفاقی بڑائیاں حادثے کے طور پر حاصل تو ہو جاتی ہیں لیکن دیر پا کبھی نہیں ہوتیں۔ تاریخ کا حصّہ بن جانے والے کارنامے اپنی پشت پر لگاتار محنت کا سہارا رکھتے ہیں ۔ ترابی صاحب محنتی بھی کافی تھے۔ اور ان کی محنت مسلسل تھی….. اچھی خطابت شعر و ادب کی چاشنی سے مزین ہوتی ہے۔ ترابی صاحب کو ایک بہت اعلیٰ درجہ کا ادبی ماحول ملا۔ چنانچہ ان کا شعر وادب کا ذوق اور آگہی بھی وہ سرمایہ تھی جو اُن کے فن کو چار چاند لگانے میں مددگار ثابت ہو سکتی تھی … یہ تمام عناصر کسی بھی بلند پایہ خطابت کی ضرورت ہیں۔ ترابی صاحب کا فن اور کمال فن ان ہی عناصر سے وجود میں آیا ہے، لیکن یہ فن محض ان عناصر کے ایک جگہ جمع ہو جانے سے ہی وجود میں نہیں آجاتا، بلکہ ان سب کو انتہائی چابک دستی، سمجھداری، ہنرمندی اور تناسب و توازن سے استعمال کرنے سے وجود میں آتا ہے اور یہیں سے ترابی صاحب کا فن شروع ہوتا ہے۔

      ترابی صاحب کے اپنے زمانے میں بھی اور ان سے پہلے بھی، خطابت کی تمام تر خوبی مفاہیم کے ابلاغ میں تھی۔ بڑا خطیب وہی تھا جو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنے بلند افکار کو پہنچا سکتا ہو۔ چنانچہ خطابت، روز مرہ کی مثالوں، واقعات اور تشبیہات سے خود کو اس سطح پر لاتی تھی جو سامعین کی بڑی سے بڑی تعداد کو مسئلے کے تمام پہلوؤں سے آگاہ کر سکے۔ ترابی صاحب نے سب سے بڑا انقلابی اقدام یہ کیا کہ مقصدِ خطابت کو یکسر بدل ڈالا۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ ان کے اس فیصلے کے محرکات کیا تھے۔ لیکن یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ ترابی صاحب تقریر بات سمجھانے کے لیے نہیں کرتے تھے۔ اُن کی خطابت کا مجموعی تاثر ابلاغ کی بجائے مرعوبیت تھا۔ سامع کو مرعوب کرنا خطابت کے اثرات میں ایک جزو کی حیثیت سے ہمیشہ شامل رہا ہے۔ لیکن ترابی صاحب نے اس جزو کو جزو سے کل بنا دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کے سرمایۂ صلاحیت میں ہر کار آمد عنصر موجود تھا۔ وسعتِ معلومات، غیر معمولی حافظہ، لہجے کا تیقّن ، ثقیل اور غیر عوامی زبان، مختلف علوم کی خصوصی اصطلاحوں کا ذخیرہ اور ان سب پر بھاری ان عناصر کا انتہائی ذہانت سے استعمال ۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ اُن کا سامع تقریر سے زیادہ، مقرر کے سحر میں مسحور ہو جاتا۔ مجمع منتشر ہوتا تو اس احساس کے ساتھ نہیں کہ خطیب نے کیا عمدہ بات کہی ہے۔ بلکہ احساس یہ ہوتا ‘ ”کیا زبر دست خطیب ہے۔“، ”کتنا بڑا عالم ہے۔“، ” کیا لا جواب حافظہ ہے۔“ ترابی صاحب کو سمجھنا حسبِ توفیق چند ہی لوگوں کو میسر آتا، لیکن ایک ہیبت اور حیرت کا احساس ہر سامع کی یکساں اور مشترکہ ملکیت ہوتی ۔

      ترابی صاحب کے اس مقررانہ اجتہاد کا جواز بھی تھا اور اسی میں ان کی مقبولیت کا راز بھی پوشیدہ تھا۔ جواز تو یہ تھا کہ فکر و خیال میں جتنی بلندی آتی جاتی ہے، اسی تناسب سے ابلاغ میں ( یہ اعتبار تعدادِ سامعین ) کمی ہوتی جاتی ہے۔ ہر صاحب فکر و نظر عالم کی طرح ترابی صاحب اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے کہ ان کو جس قد رسنا جاتا ہے اس کے مقابلے میں سمجھا بہت کم جاتا ہے ایسی صورت میں دو تین رائج الوقت امکانات تھے۔ ایک طریقہ تو یہ کہ مقرر عوام کی پسند کو معیار سمجھ لے اور روز بروز اپنی سطح سے نیچے آتا جائے۔ یہ ترابی صاحب تو کیا کسی بھی معقول شخصیت کے لیے قابلِ قبول حل نہیں تھا۔ پھر یہ کیا جائے کہ خطابت کو کچھ عام فہم موضوعات تک محدود کر لیا جائے اور ان موضوعات کی حد تک افکار کو مثالوں، تشبیہوں وغیرہ کی مدد سے زیادہ سے زیادہ لائقِ ابلاغ بنا لیا جائے۔ عموما علماء اور دانشوروں کا یہی طریقہ رہا۔ اور جہاں تک اُن کے حقیقی علم و تحقیق کا تعلق تھا، وہ یا تو کوئی اور ذریعہ اظہار ( مثلاً تحریر ) تلاش کرتا یا رفتہ رفتہ بے تو جہی کا نشانہ بن کردم تو ڑ دیتا۔ ایک اور صورت تھی کہ اپنے مقام پر برقرار رہنے پر اصرار کیا جائے۔ ایسی صورت میں جیسے جیسے فکر و علم میں گہرائی اور گیرائی آتی جاتی ، حلقہ سماعت و فہم محدود سے محدود تر ہوتا جاتا تر ابی صاحب کے لئے ان تمام صورتوں میں سے کوئی صورت بھی قابل قبول نہیں تھی۔ نہ وہ اپنے مقام سے نیچے آنے کے لئے تیار تھے، نہ عددی حوالے سے اپنی مقبولیت پر حرف آنے دینا چاہتے تھے۔ اب یہ تو طے شدہ بات تھی کہ سادہ ترین بات بھی جب ایک ملے جلے مجمعے تک یکساں طور پر نہیں پہنچ پاتی تو تر ابی صاحب جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے نو بہ نو افکار ہر ذہنی اور فکری سطح کے حامل اجتماع تک کیسے منتقل ہو سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے گویا طے کر لیا کہ وہ اپنے بیان کو اپنے فکر کی سطح سے نیچے نہیں آنے دیں گے۔ البتہ وہ اپنے ہزاروں سامعین کو مایوس بھی نہیں کریں گے ۔ وہ اگر علم و آگہی نہیں لے جا سکتے نہ سہی، لیکن خالی ہاتھ بھی نہیں جائیں گے۔ وہ یہ احساس لے کر جائیں گے کہ انھوں نے ابھی ابھی ایک حیرت انگیز انسان دیکھا ہے۔ ایک عجوبہ روزگار شخصیت کی زیارت کی ہے۔ حیرت زدہ ہو جانا بھی تو باعثِ تسکین ہوتا ہے۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنے بے شمار سامعین میں سے ہر ایک کو کچھ دے کر رخصت کرنا، یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جس نے ترابی صاحب جیسی مشکل پسند شخصیت کو اپنے عہد کا مقبول ترین خطیب بنا دیا۔

      ترابی صاحب کی معرکۃ الآرا تقاریر کا پورے غور و توجّہ سے معروضی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حیرت زدگی اور مرعوبیت کے مقاصد کے حصول کے لئے خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ اور اس اہتمام کے لیے نہ تو ان کے پاس ساز و سامان کی کمی تھی، نہ سلیقے اور ہنر مندی کی ۔ ان کی خطابت میں موضوع، مواد اور اُسے پیش کرنے کے طریقوں میں اتنا تنوع تھا کہ اُن کی تقاریر کوکسی بندھے ٹکے فارمولے میں نہیں سمویا جا سکتا۔ پھر بھی بہت سی تقاریر کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ نمایاں خصوصیات کا تعین ہو سکتا ہے۔

      اُن کا ایک دلچسپ انداز یہ تھا کہ وہ کسی معروف بات کو بیان کرتے ہوئے، عین اُس وقت جب سامع یہ توقع کر رہا ہوتا تھا کہ اب وہ فلاں چیز کا ذکر کریں گے، یا فلاں بات کریں گے، اچانک ایسی بات کہہ دیتے جس کا گمان نہ ہوتا۔ اُنھوں نے امیر المؤمنین علیؑ ابنِ ابی طالبؑ کے اُس خط کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جو انھوں نے اپنے گورنر مالک ابن اشتر نخعیؓ کی تقرری کے وقت مرکزی حکومت کے ہدایت نامے کے طور پر جاری فرمایا تھا۔ یہ خط بہت معروف ہے ۔ اور سب ہی واقف ہیں کہ پورا خط نہج البلاغہ میں موجود ہے۔ اب اس خط کا حوالہ دینا ہو تو ہر شخص تو قع کرے گا کہ نہج البلاغہ ہی کا نام لیا جائے گا، لیکن ترابی صاحب اس خط کا تعارف یوں کراتے ہیں:

      ”میں نے ذیل میں حضرت علیؑ کے اُس مشہور خط کا عربی سے انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا ہے جو اُنھوں نے اس وقت کے مصر کے گورنر مالکِ اشتر کو خلیفہ کی جانب سے ہدایات کے طور پر لکھا تھا۔ فہرستِ طوسی (صفحہ ۳۳ ) کے مطابق اس خط کی پہلی نقل، حضرت علیؑ کے اپنے دور میں اصبغ ابن نباتہؓ نے کی تھی۔ اس کے بعد متعدد عرب اور مصری علماء اُس خط کو درج کرتے رہے۔ ان میں سرِ فہرست نصر ابنِ مزاحم ( ۱۴۸ ھ) جاحظ بصری (۲۵۵ھ ) سیّد رضی (۴۰۴ھ )، ابنِ ابی الحدید (۶۵۵ ھ ) اور مصر کے مصلح ابنِ عبدہٗ اور دورِ حاضر کے عظیم دانشور علّامہ مصطفےٰ بک نجیب شامل ہیں ۔“

      اب ملاحظہ فرمائیے کہ جس حوالے کی سب سے زیادہ توقع تھی، یعنی نہج البلاغہ، اس کا نام بالکل نہیں لیا گیا۔ نہج البلاغہ کے مرتّب سیّد رضی کا نام ضمناً آ گیا۔ لیکن اس دوران ہر وہ شخص جو سمجھتا تھا کہ وہ اس خط سے اچھی طرح واقف ہے، یہ ماننے پر مجبور ہو گیا کہ وہ ترابی صاحب کے مقابلے میں بے خبرِ محض تھا۔

      مندرجہ بالا حوالہ علّامہ کی ایک تحریر سے لیا گیا ہے، لیکن اُن کی تقریر میں بھی یہی رنگ غالب تھا۔ اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے اپنی وسعتِ نظر کا گہرا تاثر چھوڑا تھا، کبھی یہی کام وہ اپنے حافظے کی صلاحیت سے لیتے۔ آہستہ آہستہ دھیمے دھیمے لہجے میں بات شروع ہوتی ، پھر کوئی خاص تذکرہ شروع ہوتا، غیر محسوس انداز میں اُن کا حافظہ اپنے جوہر دکھانا شروع کرتا، اُن کے بیان کی روانی بڑھتی جاتی ، کچھ دیر بعد سامع حیران ہونا شروع کرتا، ایک سنّاٹا طاری ہو جاتا، سانس رک جاتی ، اور جب تک بات اپنے نقطۂ کمال تک پہنچتی ، موضوعِ بیان سے قطع نظر، سامع صرف حافظے کی بے پناہ قوت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا۔ اپریل ۱۹۷۰ء میں ماہِ محرّم کے تیسرے عشرے کی مجالس ترابی صاحب امام بارگاہ رضویہ میں پڑھ رہے تھے۔ اُن دنوں آیۃ اللہ العظمیٰ سیّد محسن حکیم طباطبائی مرحوم کے فرزند آقائے مہدی حکیم پاکستان تشریف لائے تھے ۔ ۲۹ ؍محرّم کی مجلس میں انھوں نے بھی شرکت کی۔ ترابی صاحب نے معزز مہمان کا منبر سے تعارف کرایا۔ طبا طبائی سادات کے متعلق چند جملے کہے۔ پھر کہا، میں ایک حدیث بیان کرنا چاہتا ہوں، پھر بڑے غیر محسوس انداز میں، آقائے محسن حکیم کے سلسلۂ اجازۂ روایتِ حدیث کا بیان شروع کیا :

”ایک حدیث کو نقل کروں۔ اس سے پہلے بھی کبھی میں نے اس طرح سے گفتگو کی تھی۔ آج تو مجھے افتخار ہے، شرف ہے، کہ اس گھرانے کے لیے میں، اس چیز کو پیش کروں ۔ سرکارِ مهدی طباطبائی، فرزند ہیں آیۃ اللہ محسن حکیم طباطبائی کے، جن کی ولادت ۱۳۰۶ھ میں ہوئی ۔ ہزار وسہ صد و شش: اور عیدِ فطر کو پیدا ہوئے ۔ عید کا دن تھا، شب مبارکِ رمضان کی، جب وہ پیدا ہوئے ۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔ محسن حکیم طباطبائی آیۃ اللہ العظمیٰ، شاگرد ہیں اور نقل کرتے ہیں روایت کو، اپنے شیخِ اجازہ میرزا نائینی سے۔ جن کا سنِ وفات ۱۳۵۵ھ ہے۔

      میرزا نائینی روایت کرتے ہیں، تمام اپنے احادیث کے سلسلے کو، سر کارِ مرزائے بزرگِ سامرّہ سے جن کا سنِ وفات ۱۳۱۲ھ ہے۔

      سرکارِ میرزا روایت کرتے ہیں شیخِ مرتضائے انصاری سے، جن کا سنِ وفات ۱۲۸۱ھ ہے۔

      شیخ مرتضائے انصاری روایت کرتے ہیں ملا احمد مراقی سے۔

      ملا احمد مراقی روایت کرتے ہیں مرزا مہدیِ بحر العلوم طبا طبائی سے۔

      مرزا مہدیِ بحر العلوم طباطبائی روایت کرتے ہیں علامہ باقر بہبہانی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں اکمل بہبہانی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں ملّا باقر مجلسی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں ملّاتقی مجلسی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں اپنے اُستاد بہاء الدین عاملی سے،

بہا ء الدین عاملی روایت کرتے ہیں اپنے والد حسین ابن الصمد عاملی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں شہید ثانی زین الدین سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں عبد العالیٔ میسی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں داؤدِ جزینی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں علی، شہید اوّل کے بیٹے سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں محمد ابنِ مکّی شہید اوّل سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں فخر المحققین محمد ابنِ علّامہ حلّی سے،

وہ روایت کرتے ہیں اپنے پدرِ گرامی علّامہ حلّی سے۔

      علامہ حلّی روایت کرتے ہیں اپنے اُستاد محققِ حلّی سے۔

محقق حلّی روایت کرتے ہیں اپنے اُستاد ابنِ وہب حلّی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں فقّار ابنِ معادِ موسوی سے۔

وہ روایت کرتے ہیں شاذان ابن جبرئیل قمی سے ۔

وہ روایت کرتے ہیں ابوالفضلِ حسنِ طبرسی سے۔

      وہ روایت کرتے ہیں ابو علیٔ طوسی سے۔

وہ روایت کرتے ہیں شیخ الطائفہ محمد ابنِ حسن طوسی، صاحبِ تہذیب و استبصار سے،

      وہ روایت کرتے ہیں شیخِ مفید سے۔

وہ روایت کرتے ہیں شیخِ صدّوق سے۔

شیخ صدوق روایت کرتے ہیں اپنے والدِ گرامی شیخ علی صدّوق سے۔

وہ روایت کرتے ہیں علی ابراہیم سے۔

وہ روایت کرتے ہیں ابراہیم ابنِ ہاشم سے ۔

      وہ روایت کرتے ہیں رعیّہ ابنِ شبیب سے کہ امام رضاؑ نے فرمایا…

      (یہاں تک پہنچ کر ترابی صاحب رکے تو دم سادھے مجمع اچانک پھٹ پڑا اور داد و تحسین کا طوفان امنڈ پڑا)۔

      امام رضاؑ روایت کرتے ہیں امام موسیٰ ابن جعفر علیہما السلام سے۔

امام موسیٰ ابن جعفر علیہما السلام روایت کرتے ہیں امام جعفرِ صادق ؈ سے ۔

امام جعفرِ صادق ؈ روایت کرتے ہیں امام باقر ؈ سے۔

      امامِ باقر ؈ روایت کرتے ہیں امامِ زین العابدین ؈ سے۔

      امام زین العابدین ؈ روایت کرتے ہیں حسینؑ ابنِ علیؑ سے کہ انھوں نے فرمایا کہ میرے ناناؐ نے میرے باپ کو دیکھ کر فرمایا کہ

”يا على اَنتَ المَثَلُ الآعلى“

کبھی سمندر کے ساحل پر کھڑے ہو کر موجوں کا تماشہ دیکھیے۔ ایک لہر اٹھی۔ تیزی سے کنارے کی طرف بڑھی۔ محسوس ہوا، ساحل پر تا دُور چڑھتی آئے گی۔ اتنے میں دور سے ایک اور بلند موج اٹھی ۔ دوسری لہر کی گھن گرج نے پہلی کے انجام سے لاتعلق کر دیا، اب نظریں دوسری پر جمی ہوئی ہیں۔ یہ کھیل مسلسل جاری رہتا ہے۔ ہر دوسری لہر اس جاہ و جلال سے اٹھتی ہے کہ پہلی کا انجام دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ترابی صاحب کی ساری تقریر کچھ ایسی ہی کیفیت کی حامل ہوتی ۔ وہ بات کو اچانک شروع کرتے۔ بڑے بلند آہنگ کے ساتھ، خیال تیزی سے آگے بڑھتا۔ اور عین اُس مرحلے پر، جہاں کوئی دوسرا ہوتا تو اپنا پورا زورِ بیان صرف کر دیتا ، جہاں وہ ٹھہر کر، فضا بنا کر، سامعین کو متوجّہ کر کے، نتیجے کا جملہ اس اہتمام سے کہتے کہ مجمع داد دینے پر مجبور ہو جاتا، ‘ ایسے تمام مراحل پر اپنی جاری گفتگو کا سلسلہ تو ڑ کر فوراً کسی دوسرے خیال کی طرف بلا لیتے۔ یوں کہیے کہ ترابی صاحب پیاس بجھانے کے نہیں، پیاس بھڑ کانے کے قائل تھے۔ وہ عمد اً یہ کوشش کرتے کہ سننے والا سیر نہ ہونے پائے۔ ان کی کوئی تقریر سماعت فرمائیے ۔ جس قدر توجّہ اور انہماک سے سنیں گے، اُسی قدر یہ احساس ہوگا کہ کاش وہ ذراسی وضاحت اور کر دیتے، کاش چند جملے اور کہہ دیتے۔ ترابی صاحب کا یہ وہ مستقل انداز ہے جس کی وضاحت کے لیے مثالوں کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی تقریر کہیں سے سنیے۔ یہ رنگ چھلکتا نظر آئے گا۔ ایک مثال ملاحظہ ہی فرمالیں۔ موضوعِ خطاب قیامت ہے، دورانِ تقریر سورۂ تحریم کی آٹھویں آیت کی تلاوت کی، اس کا ترجمہ بیان کر رہے ہیں۔

      ”یہ وہ دن ہو گا جب اللہ اپنے نبیؐ کو رسوا نہ ہونے دے گا۔“

      رسوائی کس بات کی ہوتی ہے؟ مطلب یہ کہ جس جس سے وعدہ کیا ہے وہ وعدہ پورا ہو گا۔ کوثر پر لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ پورا ہو گا۔ جنّت میں لے جانے کا وعدہ کیا ہے وہ وعدہ پورا ہوگا۔ وہاں صاحبانِ ایمان ساتھ ہو ں گے۔ کس شان کے ساتھ ہوں گے؟ ان کا نور کبھی داہنی جانب چلے گا، کبھی سامنے دوڑے گا، وہ کہتے جائیں گے پروردگار! ہمارے نور کو اور کامل کر دے۔” یہاں دیوانے کہتے یہ ہیں کہ نبی کو نور نہ کہو “۔۔۔ قیامت کے دن ہر مومن کا نور ہے۔ اور ایسے موقعے پر نبیؐ کی سواری چلی ۔“

      اسی تقریر میں بات آگے بڑھی۔ چند اور آیات کی تلاوت کی ۔ ترجمہ بیان کیا اور پھر صحیح بخاری کی ایک حدیث کا ذکر شروع کیا۔

      ” مقامِ محمود پر تشریف فرما ہیں پیغمبرؐ۔ اور بخاری کہتے ہیں، وہاں سے نظر پڑے گی محشر کے میدان پر ۔ ”اب یہ سورۂ مائدہ کی تفسیر ہورہی ہے۔“ (خیال رہے کہ اس تقریر کے دوران انھوں نے سورۂ مائدہ کی کسی آیت کی تلاوت نہیں کی تھی) وہاں سے پیغمبرؐ دیکھیں گے کہ کچھ لوگ جہنم کی طرف جارہے ہیں، پیغمبرؐ ان کو پہچان جائیں گے۔ اور کہیں گے پروردگار! یہ تو دنیا میں میرے ساتھی تھے، یہ میرے اصحاب ہیں۔ ملائکہؑ کہیں گے اللہ کے رسولؐ آپ کو علم ہے آپ کے بعد کیا ہوا ؟ رسولؐ کہیں گے، تُو غفار ہے، تُو بخشنے والا ہے، جو چاہے کرے تفصیل بعد میں ۔۔۔ پیغمبرؐ مقامِ محمود پر ہیں ۔“

      مندرجہ بالا دونوں اقتباس اُن کی ایک تقریر کے دو مختصر سے جزو ہیں۔ ان میں واوین والے جملوں کو ملاحظہ فرمائیے۔ ہر جملہ تفصیل کا تقاضا کر رہا ہے، لیکن ترابی صاحب سامع کی فکر کو مہمیز کر کے فوراً آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہی ایک گھونٹ پلا کر یا جرعۂ آب دکھا کر پیاس بھڑ کانے کا انداز ۔

      لیکن یہ ادھوری باتیں اپنے نفسیاتی اثرات کے اعتبار سے بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ بات اگر ہر اعتبار سے مکمل ہو جائے تو سامع مطمئن ہو جاتا ہے، لیکن یہ اطمینان سنی ہوئی بات کو فراموش کر دینے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی بات جذبۂ تجسس کو بیدار کر سکے تو وہ جواب کی تلاش میں بار بار ذہن کے پردے پر اُبھرتی رہتی ہے۔ اس طرح ذہن میں بات کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں۔ پھر تفصیل میں جائے بغیر صرف اشارات پر اکتفا کرنا ، سامع کو لاشعوری طور پر خطیب کے تبحر علمی کا یقین دلاتا ہے۔ ایسے مرحلے پر احساس ہوتا ہے کہ کہنے والا کہنے کے لیے بہت زیادہ مواد رکھتا ہے ۔ یہ اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہیں کر رہا۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا احساس خطیب کے لیے احترام و عقیدت کے جذبات بڑھا دیتا ہے۔ پھر ان جملوں میں بعض مقامات ایسے ہیں کہ دوسرا خطیب اس بات کو پوری طرح پھیلا کر، سجا کر ادا کرتا تو مجمع بے ساختہ داد و تحسین کی صدائیں بلند کرتا۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ ترابی صاحب بہت سے موقعوں پر عمداً اپنے سامعین کی داد دینے کی خواہش کو دباتے رہتے تھے ۔ ذہن کی گہرائیوں سے داد چلتی ، لیکن صدائے تحسین بننے سے پہلے، ترابی صاحب بات کا رخ موڑ چکے ہوتے ۔ اس تکنیک کا فائدہ یہ تھا کہ زور و شور سے دی جانے والی داد میں صرف ہونے والی توانائی جذبۂ ستائش کو دوام بخشنے میں صرف ہوتی۔ اور یا پھر جس مقام پر وہ خود داد لینا چاہتے، وہاں لگا تار دبائی جانے والی یہ داد، ایک دھماکے سے پھٹ پڑتی۔

دورانِ تقریر، برمحل اشعار تقریر کے حُسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ ترابی صاحب بھی اشعار پڑھتے تھے اور خوب پڑھتے تھے، لیکن اُن کے پڑھے ہوئے اشعار، حُسنِ بیان کے لیے کم اور جزوِ مضمون کے طور پر زیادہ ہوتے تھے۔ وہ اکثر اشعار سے تقریر سجانے کی بجائے، تقریر بنانے کا کام لیتے تھے، لیکن شعر خوانی کے ہر مرحلے پر ان کا یہ اہتمام، پورے التزام سے برقرار رہتا کہ جو شعر نہیں سمجھیں گے، نہ سمجھیں، لیکن خالی ہاتھ نہ جائیں۔ کچھ تو انہیں ملے، سرمایۂ حیرت و استعجاب سہی، چنانچہ یہ سارا عمل اشعار کے انتخاب سے شروع ہو جاتا۔ انھوں نے اپنی تقاریر میں عربی فارسی کے علاوہ، اُردو کے تقریباً تمام اساتذہ کا کلام پڑھا ہے۔ میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، یگانہؔ، انیسؔ، دبیرؔ۔ یعنی وہ تمام شعراء جن کے نام اور کلام دونوں بہت معروف ہیں، لیکن التزام یہ تھا کہ ان شاعروں کے اُن اشعار کو کبھی نہیں پڑھا جو زبان زدِ عام ہیں ۔ وہ تلاش و جستجو سے ایسے اشعار لاتے جو ادب کے عام طالب علم کی نگاہ سے بھی اوجھل ہوتے ۔ اس کے لیے ایک تو وہ ان اساتذہ کے فارسی کلام کو کثرت سے پڑھتے، اور اگر اُردو شعر پڑھتے تو وہ بھی سامنے کا شعر نہ ہوتا۔ اور اگر اتفاق سے کبھی کوئی معروف شعر پڑھا بھی تو اُس کے معنی میں وہ ندرت پیدا کی کہ جانا پہچانا شعر بھی اجنبی بن گیا۔ ۱۹۶۹ء میں غالبؔ کی صد سالہ برسی منائی جارہی تھی۔ سال کے ابتدائی مہینوں میں ایّام عزا آ گئے۔ خالق دینا ہال میں ترابی صاحب ”کتابِ حکمت اور ملکِ عظیم“ کے عنوان سے عشرہ پڑھ رہے تھے ؛ ابتدائی تین تقاریر میں انھوں نے غالب کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلی مجلس میں اُن کے بیس اشعار سنائے۔ ان میں سے ۴ ۱  فارسی کے تھے اور چھے اُردو کے۔ اگلے دن غالب کے نو اشعار کا حوالہ دیا، ان میں سے بھی فارسی کے پانچ اور اُردو کے چار تھے۔ تیسری تقریر میں چار اشعار پر اکتفا کیا، ان میں اُردو کے زیادہ تھے یعنی تین اور ایک کی نسبت تھی۔ مدحِ امیر المؤمنینؑ میں غالبؔ کا ایک شعر بہت مشہور ہے:

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بُوئے دوست

مشغولِ حق ہوں بندگیٔ بوترابؑ میں

دلچسپ بات یہ ہے کہ پڑھے گئے ۱۳۳ شعار میں سب کچھ تھا، بس یہی ایک شعر نہیں تھا۔

      کبھی یوں بھی ہوتا کہ کسی شاعر کا فقط ایک شعر پڑھنا مقصود ہوتا تو پہلے غزل کا مطلع پڑھتے پھر اسی غزل کے دو تین اور غیر متعلق اشعار پڑھتے، تب اصل شعر کی باری آتی ۔ اس نوعیت کے مظاہرے آیات کی تلاوت کے دوران بھی ہوتے۔ مثلاً ایک آیت پڑھی، کہا یہ آیت سورۂ یٰسین سے ہے۔ سورۂ یٰسین چھتیسویں سورہ ہے، اس سے پہلی پینتیسواں سورۂ فاطر ہے چونتیسواں سورۂ سبا ہے اور تینتیسواں سورۂ احزاب ہے۔۔۔ اسی طرح ایک آیت پڑھی کہا ”یہ سورۂ ابراہیمؑ سے ہے، اس سے پہلے کی دو آیتیں ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ بھی پڑھ دیں اس کے بعد یہ کہ کر آگے بڑھ گئے کہ ”ان آیات پر ان کے محل پر گفتگو ہوگی“ یہاں تو یہ بتانا ہے کہ جسے ذوقِ مطالعۂ قرآن ہے وہ دیکھ لے کہ ہم نے کہاں سے آیت لی ہے“ ۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس نوعیت کے تمام مظاہروں کا مقصد اپنے سامعین کو یہ یقین دلانا ہوتا تھا کہ تم خطیب کے علم اور معلومات پر پورا بھروسہ رکھو، وہ تمہارے سامنے جو کچھ بیان کر رہا ہے وہ اِدھر اُدھر سے اُٹھایا ہوا فقط ایک جملہ نہیں بلکہ اپنی دسترس میں موجود اور محفوظ خزانے سے ایک نادر جواہر پارے کا انتخاب ہے۔

      جب تقریر میں اشعار نفسِ مضمون کی حیثیت سے پڑھے جائیں تو ان کی تشریح و توضیح ضروری ہو جاتی ہے۔ ترابی صاحب، مجالس کے دوسرے خطباء کے مقابلے میں بہت زیادہ اشعار پڑھتے تھے۔ لیکن شعر کی تشریح کے باب میں بھی ان کا انداز منفرد تھا۔ وہ شاعر کواُس کی سطح پر جا کر سمجھتے تھے۔ اور پھر معنی بیان کرتے ہوئے بھی وہی سطح برقرار رہتی۔ درسی انداز کی تشریح تو بہت دُور کی بات ہے، وہ غالباً اسے بھی شاعر کی تو ہین سمجھتے تھے کہ شعر کو عوامی سطح پر لا کر سمجھایا جائے۔ شعر علامتی اور اشاراتی ذریعۂ اظہار ہے۔ ترابی صاحب شعر کی تشریح بھی اشاراتی انداز سے بیان کرتے۔ اُن کے نزدیک جو شعری ذوق نہیں رکھتا وہ اس کے طرزِ ادا سے محظوظ ہولے، لیکن جہاں تک شعر کی معنویت کے مزے اُٹھانا ہے، وہ صرف اور صرف اُن کا حق ہے جو سخن فہم کہلا سکیں۔ چنانچہ بار ہاوہ بغیر اس بات کو خاطر میں لائے ہوئے کہ شعر عربی کا ہے، فارسی کا ہے یا اُردو کا ہے، اس کے معنی بیان ہی نہیں کرتے تھے اور جب کبھی معنی بیان کرتے تو گویا مفہوم نہیں بتا رہے ہیں بلکہ شعر پر باآوازِ بلند غور کر رہے ہیں۔ اور غور بھی اس حوالے سے کہ اس کا موضوعِ گفتگو سے کیا ربط ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

علیؑ کا بندہ ہو کر بندگی کی آبرو رکھ لی

یگانہؔ کے لیے کیا دُور تھا منصور ہو جانا

      مقامِ عمل ایک منزل ہے۔ جہاں انسان اس حد تک پہنچ جائے، جہاں داد و رسن ہے اور یہ منزلِ دار و رسن پر گفتگو نہیں ہے۔ حیاتِ طیّبہ کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جہاں انسان حدوں کو توڑ کر آگے جائے۔ حدیں ہیں، حدوں میں زندگی ہے، یہ طہارت ہے، یہ نجاست ہے، یہ حلال ہے، یہ حرام ہے، یہ جائز ہے، یہ ناجائز ہے، یہ نجس ہے، یہ طیّب ہے۔ ان حدود پر نظر رہے۔

”معلوم ہُوا، حالِ شہیدانِ گزشتہ

تیغِ ستم، آئینۂ تصویر نما ہے

      ظلم بھی مسلسل ہے، عدل بھی مسلسل ہے، گناہ بھی مسلسل ہے، عصمت بھی مسلسل ہے، حق بھی مسلسل ہے، باطل بھی مسلسل ہے۔ سلسلے بندھے ہوئے ہیں۔

سوزشِ باطن کے ہیں احباب منکر، ورنہ یاں

دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے

ترجمہ کردیا قولِ امیر المؤمنینؑ کا۔ غالبؔ فکر کو کہاں سے لے رہے ہیں؟“

      ترابی صاحب کی خطابت میں، سب سے گراں قدر خصوصیت اُن کی غیر معمولی، ہمہ وقت بیدار و مستعد ذہانت تھی۔ اُن کی ذہانت کا پہلا قدم وقت کے تقاضے کو سمجھنے کے لیے اُٹھتا۔ اور وقت کے تقاضے میں مجلس کے خصوصی مقامی ماحول سے لے کر بین الاقوامی صورتِ حال تک، ہر پہلو پیشِ نظر ہوتا۔ شہر میں کیا ہورہا ہے، ملک کے حالات کیا ہیں، دنیا کی رفتار کیا ہے… پھر مجلس کہاں ہورہی ہے، مجمعے کی ذہنی کیفیت کیا ہے، اُن کی تقریر سے پہلے مجمع کسی او رکے کمالِ فن کے تاثر کے تحت تو نہیں ہے، مجمع میں کون کون بیٹھا ہے… پھر ان بیٹھے ہوؤں میں سے کسی کا اکرام مقصود ہے، کسی کا تعارف کرانا ہے، کسی کو سرزنش کرنی ہے، کسی کا شکریہ ادا کرنا ہے، کسی کو متاثر کرنا ہے … غرض ایک ایک پہلو کا جائزہ لے کر، اپنی ترجیحات کا تعین کرکے وہ منبر پر آتے ۔ اور پھر ان کی ذہانت نئے انداز سے جلوہ گر ہوتی۔ وہ اپنے مقررہ اہداف کو نشانہ بنانا شروع کرتے۔ لیکن کیا مجال کسی کو اُن کے اصل ہدف کا پتا چل سکے۔ مجمع جملوں کے صرف اسی رُخ کو دیکھتا رہتا جو ترابی صاحب خود دکھارہے ہوتے، لیکن نتیجہ اُس مقصد کا حصول ہوتا، جس کے لیے بات کی جارہی ہوتی۔ اُن کی اس نوع کی صناعی اور کاری گری کے اتنے رُخ ہیں کہ ان سب کا احاطہ مشکل ہے۔ محض وضاحت کے لیے یہی ایک پہلو دیکھ لیجیے کہ جیسا کہ عرض کیا جاچکا ، اُن کا اصل فن اپنے سامع کو مرعوب اور محوِ حیرت کردینا تھا، انھوں نے یہ مقصود بھرپور طور پر حاصل کیا۔ لیکن دورانِ تقریر سامع صرف اُن کے علم، ان کی معلومات، ان کے نکات سے دامن بھر رہا ہوتا۔ یہ تو اسے بعد میں بھی پتا نہ چلتا کہ در اصل اس کے حصے میں خطیب کے لیے صرف جذ بۂ تحسین اور اعترافِ عظمت آیا ہے۔

      جو کچھ عرض کیا گیا، یہ ایک نا مکمل گفتگو ہے۔ ابھی کئی اور گوشے قابلِ ذکر ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ، یہ ساری گفتگو اُن کی تقریر کے صرف اس حصے سے تعلق رکھتی ہے جو ضابطۂ تحریر میں آ سکتا تھا، ابھی ان کے اندازِ بیان، لہجے، الفاظ کا دروبست، منبر پر نشست، دورانِ تقریر ہا تھوں کی جنبش، چہرے کا اُتار چڑھاؤ… یہ سب تو زیرِ بحث آیا ہی نہیں۔ اور ان کی خطابت میں لائقِ تحر یر عبارت کے مقابلے میں ان عوامل کا کتنا دخل ہے، اس کا اندازہ اِنھی کے الفاظ سے لگائیے۔

      ”ہمیشہ یہ بات یاد رکھیے، تقریر اور ہوتی ہے، کتاب اور ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تقریر میں ایک اشارہ ایک جملے کا کام کر جاتا ہے، جس کو کتاب برداشت نہیں کر سکتی۔“

      تو یہ ساری بات صرف کتابی حصے پر گفتگو ہے۔ ابھی اشاروں میں کہے گئے جملوں کا حُسن، اپنی دریافت کے لیے کسی صاحبِ نظر کا منتظر ہے۔ خطابت کے فن سے معمولی دلچسپی رکھنے والوں کے لئے قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ فن کار دنیا سے جاتا ہے تو اُس کی شخصیت بھی ساتھ چلی جاتی ہے۔ اور جب شخصیت نہ رہے تو اس کے ساتھ کے تمام حوالے، تمام تاثرات بھی رفتہ رفتہ ختم ہو جاتے ہیں۔ اُس کی جدائی میں سنائی دینے والی سسکیاں اور آہیں، اس کی یاد میں بہنے والے آنسو سب ختم ہو جاتے ہیں ۔ البتہ عظیم فن کار کا فن باقی رہ جاتا ہے۔ اب لفظِ ترابی ایک فن کے نقطۂ کمال کا علامتی اظہار ہے۔ اب ترابی صاحب کے فن کو جاننے، دیکھنے اور سمجھنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس طرح ترابی صاحب کو زندہ رکھنا مقصود ہے، بلکہ اُن کی خطابت معیارِفن ہے۔ اگر اس فن کو سمجھنا ہے اور اس کی کامیابی کے قواعد وضوابط مرتّب کرنے ہیں تو تر ابی صاحب کی خطابت کا تجزیاتی مطالعہ جاری رہنا چاہیے ۔

Scroll to Top