علامہ رشید ترابی ۔۔۔خطابت اور شاعری
تعارفیہ
نصیر ترابی
احمد جاوید اصلاً علمیہ اور ادبیہ مراتب و مناصب کے آدمی ہیں ۔ فکری قبیلے کی خرد آفریں روایت کے وہ راوی ہیں جو درایتی شجرے سے بھی اپنا نسبی الحاق رکھتے ہیں۔ وجدان کی مسافتی گردان سے اُنھیں محالات اور مجالات تک امکانی رسائی حاصل ہوگئی ہے۔ خاصّہ اور عامّہ کتابوں کے درمیان سانس لینا احمد جاوید کی تازہ دمی کا راز بھی ہے اور نیاز بھی۔ اس راز و نیاز کی وجہ سے اُن کے ہاں علم پروری کا ایک منضبط رجحان نفوذ کر رہا ہے اور اس رجحانی تہذیب کے ذیل میں اُن کی فکری گنجائشوں کا احوال دوسروں سے قدرے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ وضعِ دلیل اور رفعِ دلیل پر یکساں گرفت کے حامل ہیں۔ اُن کی دسترس کا حُسن یہ ہے کہ وہ قدیم کی تفہیم کے لیے جدید نتائج اخذ کرتے ہیں ۔ احمد جاوید صرف فکر کے خطیب نہیں، ذکر کے ادیب بھی ہیں لہٰذا اُن کی تحریر و تقریر سے معرفت کشائی کو راہ ملتی ہے۔ اُن کے نزدیک معنی محذوف ہو کر بھی لفظ کے لیے مظروف ہوتے ہیں۔ وہ لفظ و معنی کے مابین مسابقت سے زیادہ مطابقت کے قائل ہیں ۔ معنی کی حرمت کو اَرزانی اور پشیمانی سے بعید رکھنا اُن کی ایک علّت ہے۔ وہ لفظیات کے صرفے میں بخیل نہیں، کفایتی ہیں۔ نظریۂ ضرورت کی مجبوری کے تحت بھی وہ صفت کو کبھی موصوف کے دائرے سے باہر نکلنے نہیں دیتے یعنی تجاوزات سے دانستہ گریز کرتے ہیں۔
اُن کے ہاں ایسی حاشیہ کاری دخل انداز نہیں ہوتی کہ متن داری کو زحمت پہنچے۔ اسی لیے اُن کے وجدانی محصولات شفّاف اور کشّاف ہوتے ہیں۔ احمد جاوید ایک مربوط اور مشروط حلقۂ ادراک کے تربیت یافتہ آدمی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ کبریٰ و صغریٰ مقدمات کی تاویلی تنظیم میں انھیں کوئی کھینچم تانی در پیش نہیں ہوتی ۔ مستقل ریاضت اور اکتسابیت کے باعث انھیں مطابقات کی منطقی تحلیل کا طریقہ اور سلیقہ بھی خوب آ گیا ہے۔
احمد جاوید کے بستۂ افکار میں ایسے عقلیہ اور نقلیہ اوزار ہیں جن کے استعمال کی نزاکتوں سے انھیں بحدِّ امتیاز آشنائی ہے۔ فکری جدلیت اُن کا محبوب اور منسوب حوالہ ہے۔ اُردواور فارسی شعر گوئی میں بھی بدرجۂ اتم نفاذ رکھتے ہیں۔ علمی وادبی ٹیلی مناظروں اور نجی مباہلوں کے ساتھ ساتھ تصوّفی شب زندہ داریوں کی شمعِ محفل ہونے کا اعتبار بھی شاملِ حال ہے۔
مزاجی ساخت کے نسبتی حوالے سے احمد جاوید ایک ایسے باطن پزیر ہیں کہ اُن کی انجذابی کیفیت بھی بیرونی حالت سے بیش و کم رونما ہو جاتی ہے۔ دوستانہ خوش وقتی کے دوران بھی تخلیقی چمک گفتگو سے شیرے کی طرح ٹپکتی رہتی ہے۔
احمد جاوید کا ترابی صدی یادگاری لیکچر بعنوان ”علّامہ رشید ترابی، خطابت اور شاعری“ ایک دانش افروز دریافت نامہ ہے۔ اس کاوش کو حقائق و معارف سے لبریز ایک بلیغ مطالعے کی وفوریت بھی کہا جاسکتا ہے۔
تشکّر محض تذکّر نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی احسان کے اقرار کا بر ملا اظہار ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ احسان ہمیشہ شخصی برتری کے موجب ظہور کرتا ہے۔ میں احمد جاوید کی شخصی برتری کا معترف بھی ہوں اور شکُر مند بھی۔
اِس خصوصی خطاب کے اہتمامی سلسلے سے پاکستان آرٹس کونسل کراچی کی موجودہ انتظامیہ بالخصوص جناب مسعود ہاشمی، جناب احمد شاہ ، جناب محمود احمد خان اور جناب سیّد جاوید حسن بھی ترابی یادگاری کمیٹی کی جانب سے ممنونیت اور اپنے تئیں مشکوریت کے سزاوار ہیں۔
علّامہ رشید ترابی
خطابت اور شاعری
خطابت اور شاعری ایک ہی تخلیقی قوت کے دو مظاہر ہیں۔ دونوں کا جو ہر واحد ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اچھا خطیب شاعری سے عملی یا کم از کم ذوقی تعلق نہ رکھتا ہو۔ یہی معاملہ شاعری کا بھی ہے۔ خطابت سے ذوقاً نابلد آدمی شاعری کے بعض تکنیکی اور تخلیقی تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ مثلاً مطابق حال آہنگ لفظوں کے صوتی بہاؤ کا شعری معنویت کی تشکیل میں برابر کا کردار، شعر کی معنوی تکمیل کرنے والے عناصر میں توازن کا قیام، کنایے اور صراحت کا متوازی استعمال، مضمون آفرینی یعنی معنی کے ٹھہراؤ میں ہلچل پیدا کر دینا وغیرہ۔ تا ہم مشکل یہ ہے کہ عام طور سے خطابت کو صدا کاری سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا، حالانکہ یہ حُسنِ اظہار کی وہ قدرت ہے جس کی بدولت انسان حیوانِ ناطق ہے……. یعنی ایسی ہستی جو ادراک کو اظہار بنا سکتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ جس کا اظہار ادراک سے زیادہ کمل ہوتا ہے۔ نطق ، زبان کی لفاظی تھوڑی ہے، یہ شعور کی گویائی ہے۔ خطابت کی یہ تعریف شاعری پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ بھی اظہار کی فتح ہے اور اک پر ۔ یہاں صرف اپنی تسلّی کے لیے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شعور اپنے ارادی یا اتفاقی حاصلات کو پہچان کر اُن کی درجہ بندی کرتا ہے اور اُنھیں مختلف عنوانات کے تحت الگ الگ محفوظ کر لیتا ہے۔ یہ ادراک کا عمل ہے۔
دوسری طرف شعوران حاصلات کو نئی نسبتیں دے کر اور ان کے درمیان نئے جوڑ پیدا کر کے اپنی اُس قوت کی تحویل میں دے دیتا ہے جو محض اور اک پر قناعت نہیں کرتی بلکہ ایک تخلیقی تصرف کے ساتھ انھیں ایسے تصورات میں سمو دیتی ہے جو ادراک کی تمام صورتوں سے زیادہ بامعنی ہوتے ہیں، اور ان کی دُنیا ادراک کی دُنیا سے مختلف بھی ہوتی ہے اور وسیع بھی۔ یہ اظہار کی دُنیا ہے جو شعور کے ان گوشوں کو بھی محیط ہے جہاں حقائق اور معانی ماورائے اور اک حالت میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ معانی کی خالص ترین سطح ہے جس پر اخفا کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ یہی شعور کا اصل اثاثہ ہے جسے اپنے ظہور کے لیے لفظ کا انتظار ہے۔ ملفوظ ہوتے ہی یہ معانی شعر کو اُس کے ذخیرۂ ادراک تک محدود نہیں رہنے دیتے اور اُسے اُن بلندیوں ، وسعتوں اور گہرائیوں کی سیر کرواتے ہیں جن سے گزر کر منکشف ہوتا ہے کہ وہ مدرّکات کا محکوم نہیں ہے بلکہ اُن پر حاکم ہے۔ بس اظہار ، خود شعوری کی اسی قوت کا نام ہے۔ گویا لفظ یا صورت کو معنی دینا ادراک ہے اور معنی کو لفظ یا صورت دینا اظہار۔ غرض دونوں میں ادغام کی حد کو پہنچی ہوئی مماثلت کو کئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر خطابت میں زبان کا جو شعور رُوح کی طرح کار فرما ہے، اس کے اصول و مبادی شاعری کے باہر وجود نہیں رکھتے۔ زبان پر شاعرانہ گرفت نہ ہوتو خطابت کا ظہور محال ہے۔ لفظ کوئی مفاہیم کی پوٹلی نہیں ہے، بلکہ اُس شعور کا میدانِ کار ہے جو مدرّکات ایجاد کرتا ہے اور بیان کے نئے سانچے وضع کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو ذہن اور اشیا کی اُن معمولی نسبتوں کو بدل ڈالتی ہے جنھوں نے ہمیں اپنا عادی بنارکھا ہوتا ہے۔
لفظ اور شعور کی وحدت کا مضمون ابھی چلتا رہے گا۔ سرِ دست تو اس کی بنیاد پر ایک نیم تمہیدی فضا بنائی ہے تا کہ علّامہ رشید ترابی کی خطابت اور شاعری پر گفتگو کا کوئی سراہاتھ آجائے۔ چونکہ اُن کی خطابت و شاعری کے اکثر کمالات کی تہ میں یہ وحدت کارفرما نظر آتی ہے لہٰذا یہی مناسب لگا کہ اس بحث کو اپنے کلام کا نقطۂ آغاز بنایا جائے۔ اس سے واقفیت نہ ہو تو اُن کی خطابت کو سمجھنا ممکن ہے نہ شاعری کو ۔ میں اس گفتگو کی ابتدا علّامہ کی خطابت کے تذکرے اور تجزیے سے کروں گا جو اُن کا بنیادی حوالہ ہے۔ وہ خطیب شاعر تھے ،شاعر خطیب نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ۱۹۶۶ء کے بعد سے علّامہ رشید ترابی کی ایک مجلسِ عاشور بھی نہ ہوگی جس کی مشتاقانہ سماعت سے میں محروم رہا ہوں ۔ دیگر تقاریر ومجالس اس کے علاوہ ہیں۔ اُن کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے، اس کا قصّہ الگ ہے۔ بہر حال مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُن کے ہر خطاب کے خاتمے پر میں کس طرح مسلمان ہونے کی ایک نئی کیفیت اور تازہ معنویت سے سرشار ہو کر اُٹھا کرتا تھا۔ اُس وقت تو اپنے تاثر کو زبان نہ دے سکتا تھا لیکن شاید اب قدرے وثوق کے ساتھ کم از کم اتنا کہہ سکتا ہوں کہ علّامہ کو سن کر مجھے ہمیشہ یہ تجربہ ہوا کہ سرشاری کا اصل ماخذ عقل ہے:
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ!
میں ظاہر ہے کہ سنّی العقیدہ ہوں اور اسی حال میں جینا مرنا چاہتا ہوں۔ تسنّن میرے لیے ایمانی ، رُوحانی، عقلی اور اخلاقی سکینت کا پورا سامان ہے اور میرے وجود و شعور کی تمام ضرورتوں کا حتمی کفیل – ”شاخِ مرجان“ میں علّامہ ممدوح نے اپنے بارے میں فخریہ فرمایا ہے کہ
ساتھ چلتے ہیں کسی کے تو بدلتے نہیں راہ
کتنا مانوس ہے یہ رنگ تشیُّع ہم سے
میری کیا اوقات کہ اُن کی آواز میں آواز ملاؤں مگر جی چاہتا ہے کہ رنگِ تشیُّع کو رنگِ تسنن کر کے پڑھوں اور اس شعر کو اپنی بیتِ تعارف بنالوں۔ خیر یہ تو بیچ میں ایک بات نکل آئی ورنہ میں بتانے یہ جارہا تھا کہ علّامہ مرحوم کی ایک خطیبانہ کر امت میں نے یہ دیکھی کہ اُن کا ہر خطاب میری استقامت فی التسنن کو نئے نئے مراحلِ تقویت سے گزارا کرتا تھا۔ اُنھیں خوب پتا تھا کہ اُن کے مستقل سامعین میں اہلِ سنّت کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی لیکن اُس خطیبِ مہیج الاحوال نے کبھی گھات میں بیٹھے اُچکّوں اور بٹ ماروں کی طرح اُن کی متاعِ اعتقاد پر دھاوا بولنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ تو ہمیں شریکِ غم سمجھتے تھے اور شرکت غم کی اس روایت کے تسلسل کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں دینی فکر کے حامل اور داعی تھے جو افسانہ خواں واعظوں اور قصہ گو ذاکروں میں خال خال بھی نظر نہیں آتے ۔ اپنے مذہبی اور مسلکی معتقدات کو بھی ایسی دینی وسعت دے کر بیان کرتے تھے کہ ایمانی شعور کی قرآن اساسی اور رسالت مرکزی کے مطالبات کی بھی تعمیل ہو جاتی تھی۔
شعور اپنی ایمانی ماہیت میں مذہب و مسلک کے حدود سے مس نہیں رکھتا۔ اس مغائرت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی ذہن یا مسلکی مزاج دین کی کلیت، ابدیت اور مطلقیت کو سکیڑ کر جزوی ، تاریخی اور اضافی رنگ دینے کا عادی ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ بندگی کی بنیادی طاقت کو خدا کی طرف یکسور کھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اسی لیے مذہب پرستی کے بنائے ہوئے دائرے میں خدا کی حیثیت اس مزعومہ مرکز سے زیادہ نہیں رہ جاتی جو اصلاً موجود ہی نہیں ہے۔ علّامہ رشید ترابی کا کمال یہ تھا کہ مذہبی اعتقادات و تصورات کو ٹھیٹھ مذہبی جذبات کے ساتھ بیان فرماتے تھے مگر ان میں بھی ایسی بلندی اور پھیلاؤ پیدا کر دیتے تھے کہ مذہبی جذبات کا ابھار بھی ایک دینی معنویت اختیار کر لیتا تھا۔ اس قدرتِ کلام کا شاید آج تصور بھی نہ کیا جا سکے۔ وہ راز ہائے درونِ میخانہ بھی پوری چابکدستی کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے لیکن اس بیان کو بھی ایک ایسے ماحول کا حصہ بنائے رکھتے تھے جس سے ان کا مخالف مذہبی ذہن بھی مانوس تھا۔
مذہبی اختلاف پر پوری طرح قائم سامعین کو بھی ہم ذوق بنا لینے کی قوت بڑے سے بڑے خطیب میں بھی کم ہی پائی جاتی ہے۔ مذہبی اختلافات فطری طور پر شدید ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں جذبات کی شمولیت ناگزیر ہے۔ ایسی جذباتی شدّت کو ایک ارفع رُوحانی ولولے ہی سے مغلوب کیا جا سکتا ہے جو اپنے سیاق و سباق میں مذہبی سے زیادہ جمالیاتی ہوتا ہے۔ علّامہ رشید ترابی حُسنِ خطابت کی اس بر ترین سطح سے بھی نہیں اُترتے تھے جہاں معتقدات میں ایسی جمالیاتی کشش اور عاشقانہ لپک سرایت کر جاتی ہے کہ رسمی مذہبی ذہنیت اور اُس کے مبنی بر بغض جذبات کو سر اُٹھانے کی جگہ نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے خطاب سے پیدا ہونے والا تموّج طبیعت کی پستیوں میں نہیں بلکہ قلب کی بلندیوں میں محسوس ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جذبات میں رُوحانیت بجلی بن کر دوڑ رہی ہے۔ میں تو سچی بات ہے، علّامہ کو خطابت کے اُس منتہا پر دیکھتا ہوں جہاں مریضانہ جذبات کے جھاڑ جھنکاڑ کی آبیاری نہیں کی جاتی بلکہ انھیں جذب کے آتش فشاں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ وہ اکثر ذاکروں کی طرح اپنے سننے والوں کو متعفن بخارات سے اُبلتی دلدل میں غوطے نہیں دیتے تھے بلکہ انھیں مجذوب بنا کر منبر پر سے اُترتے تھے۔
میری ہی مثال لے لیجیے۔ میں عقیدۂ ولایت و امامت کو نہیں مانتا، اور اُن دلائل کو سرے سے غلط سمجھتا ہوں جن کی بنیاد پر امامت کو اصولِ دین میں داخل کیا گیا ہے… لیکن اتنے بنیادی اختلاف کے باوجود آخر وہ کون سی چیز تھی جو مجھے علّامہ رشید ترابی کی مجلسوں کی طرف دھکیلتی تھی؟ اُن کا اعجازِ خطابت ! جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے باور کروا دیا کہ ہم ذوقی ، ہم خیالی سے زیادہ محکم اور بامعنی ہے۔ ہم خیالی عارضی ہوتی ہے اور ہم ذوقی مستقل۔
ہم دلی از هم زبانی بهتر است
(رُومی)
یا بقول اقبال:
محبت چوں تمام اُفتد رقابت از میاں خیزد
بطوفِ شمع چوں پروانه با پروانه می سازد
دینی اور مذہبی فکر کا تذکرہ درمیان میں اس لیے آ گیا کہ ان دونوں کا فرق سمجھے بغیر علّامہ رشید ترابی کے ایک جوہرِ خطابت کا فہم حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے مسلک پر سختی سے قائم رہنے اور اپنے مذہب کے تمام ذہنی اور جذباتی تعصبات کی پوری طرح حفاظت و پرداخت کرنے کے باوجود مخالف مکتبِ فکر سے ایک تہذیبی وسعت کے ساتھ مربوط رہے۔ اُن میں انسانیت کا ایسا وفور تھا کہ وہ یہ نکتہ انتہائی گہرائی میں جا کر جان چکے تھے کہ انسانوں میں تعلق کی اَساس مذہبی ہی نہیں بلکہ تہذیبی بھی ہوتی ہے۔ اور یہ وہ تہذیب ہے جس کی تمام اقدار دینی ہیں اور یہ اُس وقت تک تاثیر کے ساتھ برقرار رہتی ہیں جب تک معاشرت کا سایہ دار شجر مذہبی و مسلکی جذباتیت کی دیمک سے محفوظ رہتا ہے۔ مذہبی فکر ، ناممکن ہے کہ تنگ نظری ، شدت پسندی ، خدا فراموشی اور Anthropomorphism سے پاک ہو۔ البتہ کوئی مذہبی ذہن ہوتا ہے جو دینی مقاصدِ فکر کے تابع ہو کر کچھ مذہبی اور مسلکی تصورات ضرور تشکیل دیتا ہے مگر ان کے انتہائی مراتب کو بھی تعبیر کے درجے سے تجاوز نہیں کرنے دیتا اور مذہبی منطق کو دین پر حاکم نہیں بناتا۔ ہماری مروّجہ مذہبیت شعور کی ایمانی ساخت اور طبیعت کی دینی بناوٹ کو اس حد تک مسخ کر چکی ہے کہ آج یہ بات بھی اکثر لوگوں کو اجنبی لگے گی کہ تعمیرِ مذہب کا سنگ بنیاد محض یقینِ صحت نہیں ہوتا بلکہ امکانِ خطا کو بھی یقین کے درجے پر رکھنا ہوتا ہے۔ بہر حال یہ تو لمبا رونا ہے، کہاں تک رویا جائے ! اپنے ممدوح کی طرف پلٹتے ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا اُن کے کمالاتِ خطابت کا۔ اس باب میں ایک با قاعدہ فہرست بنائی جاسکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ پہلے ہم خطابت کی جنم بھومیوں یعنی یونان، روما اور عرب کی خطیبانہ روایت کی اَساسیات جمع کر لیں اور پھر انھیں رشید ترالی صاحب کی خطابت میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ان کے تجزیے اور تحسین کا عمل مسلّمہ طور پر عظیم معیارات پر ہو سکے گا۔ ہم اگر برِّ صغیر یا اُردو خطابت تک ممدوح رہے تو علّامہ کے بعض خصائص اوجھل رہ جائیں گے، کیونکہ اُردو زبان میں خطابت کی سہار ا دنیٰ درجے کی ہے اور اس میں خطیبوں کی روایت پر تکیہ کر کے علّامہ کے مرتبے کو دریافت کرنے کی کوشش ایسی ہی ہوگی جیسے کسی لق و دق صحرا کو خیّاطوں کے فیتے سے ناپا جائے ۔ وہ مذہبی ہی نہیں بلکہ خطابت کی مجموعی تاریخ میں کئی نئے معیارات کے بانی ہیں اور وہ معیارات محض ایسے نہیں ہیں کہ ان کی مدد سے اُردو خطابت میں کچھ تازہ بلندیاں پیدا کر دی جائیں۔ سچی بات یہ ہے کہ رشید ترابی صاحب نے خطابت میں کچھ ایسے دقیق محاسن پہلی مرتبہ داخل کیے جن کی ضرورت یونانی اور عرب خطابت کو بھی پڑتی۔
یونانی، رُومی اور عرب تہذیبوں میں خطابت ایک ایسا فن تھا جس کے ذریعے سے تہذیب کی صورت گری کرنے والے نظریات و تصوّرات ، جذبات و احساسات اور اوضاع و اقدار ان کے آئیڈیل استحضار کے ساتھ نہ صرف یہ کہ محفوظ رکھا جاتا تھا بلکہ انسان کے نفسی و اجتماعی قویٰ کے لیے مشترکہ مقاصد کی طرف یکسوئی کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ گویا خطابت نفسِ تہذیب کو انسانی نفسیات کی conditioning کی واحد بنیاد بنانے کا وہ عمل تھا جو ہستی کے تمام مظاہر کو ایک ہی اصل پر استوار کر کے انھیں آپس میں مربوط کرنے کی سب سے بڑی ضرورت کو پورا کرتا تھا۔ خطیبوں کے قدیم ترین موضوعات بھی دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے پیش نظر کسی ایسی کلیت کو قائم کرنا ہے جس سے تمام اقدارِ حیات کا احاطہ ہو جائے۔
ارسطو نے خطابت کو استدلال کی مؤثر ترین صورت قرار دیا تھا۔ گو کہ یہاں خطابت صرف تقریر کے معنی میں نہیں ہے تاہم اس میں منطقی مہارت کے ساتھ ساتھ وہ قوتِ اظہار بھی لازماً شامل ہے جو عرفی معنی میں خطابت کا اصل جوہر ہے۔ یونانی تصوّر استدلال، نفی و ایجاب کی اُس منطق پر قائم ہے جو چیزوں کو ہست و نیست اور بود و عدم کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ اس منطق میں نفی کا منتہا وجودی نفی ہے اور اثبات کا آخری ہدف وجودی اثبات ہے۔ یعنی ہر شے کے موجود یا معدوم ہونے کے فیصلے کے بعد ہی تردید یا تصدیق کے دوسرے اسباب پر نگاہ کی جائے گی۔ آج کے زمانے کی اصطلاح میں یہ کہنا چاہیے کہ یونانیوں کا Meta Narrative وجود تھا اور خطاب اس Meta Narrative کی زندہ کارفرمائی کا سب سے مؤثر وسیلہ۔ وہاں خطابت کی مرکزی حیثیت کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ تہذیب کی تشکیل کا عمل جیسے ایک بڑا شہر بسانے کا عمل ہے۔ کچھ لوگ زمین ہموار کرتے ہیں، کچھ شہر کا نقشہ بناتے ہیں، ایک گروہ شہری سہولتوں کی فراہمی کا منصوبہ تیار کرتا ہے۔ ایک جماعت شہر کو چلانے کے ضابطے بناتی ہے۔ ان سب سے مل کر بالآخر اس کا نظام معاشرت و حکومت بنتا ہے، جس کی تدوین میں مختلف لوگوں کی مشتر کہ کارکردگی شامل ہوتی ہے۔ ایسا شہر پوری طرح بس جانے کے بعد اچانک ایک سوال سے گونجنے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ جاری کیسے رہے گا ؟ فطرت چیزوں کو پرانا کر دیتی ہے اور آدمی کی پسند نا پسند بدلتی رہتی ہے، اس صورتِ حال میں ہمارے نظام ، ہماری اقدار کے تسلسل کا کوئی امکان ہے؟
اس سوال کے جواب میں ایک شخص اُٹھتا ہے اور اس نظامِ اقدار کو ایک پُرتاثیر اور پُرشکوہ بیانیے میں بدل دیتا ہے۔ اس بیانیے سے مخاطبوں کے شعور اور طبیعت کی ان بعید ترین گہرائیوں میں زندگی کا ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے جہاں تک پہنچ کر ہر چیز دائمی ہو جاتی ہے۔ یہ شخص خطیب ہے اور خطابت کا اصل کام یہی ہے کہ مستقل تصوّرات کو شعور اور طبیعت کی مستقل قبولیت سے متعلق رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد ڈالنے والے بیانیے بلا استثنیٰ خطابت کی ہیئت میں ہوتے ہیں۔ ان کا مضمون چاہے مذہبی ہو یا نہ ہو،اسلوب ہمیشہ خطیبانہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اوستامذہبی متن ہے اور خطابت کا شاہکار ہے۔ دوسری طرف نٹشے کی” بقول زردشت“ مذہب دشمن دستاویز ہے اور خطابت کا منتہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نٹشے کا زردشت ، اوستا کے زردشت سے بڑا خطیب لگتا ہے۔ مقصد یہ کہ خطیب کا مقصود جو بھی ہو، ہمیشہ کلّی ہوتا ہے اور ہمیشہ ممکن الحصول لگتا ہے۔ اس پہلو سے اگر علّامہ کے منہاجِ خطابت کا تجزیہ کیا جائے تو ان کا ہر خطاب اس تعریف پر پورا اتر تا دکھائی دے گا۔ ایتھنز کے حکیم خطباء کی طرح ان کے ہاں بھی بنیادی تصوّرات کو شعور کی خلقت میں داخل کر دینے کا ملکہ اتنی ہی قوت سے پایا جاتا ہے اور اسی طرح ان کی خطابت کا بے مثل لحن عین وہی تقدیری آہنگ رکھتا ہے جس کے بل پر رُومی خطیبوں نے تاریخ کو اپنا مطیع بنائے رکھا۔ خطابت چونکہ یونانی اور رُومی نظامِ تعلیم میں ایک بنیادی مضمون کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے ان تہذیبوں میں اس کے فنّی قاعدے ضابطے بھی بنائے گئے ۔ مثلاً خطیب میں قوتِ اختراع ہونی چاہیے، مضامین کو مربوط رکھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے، اُس کا حافظہ اچھا ہونا چاہیے تا کہ تاریخ سے مدد لے سکے اور لمبا گریز نبھا سکے۔ پھرآخری مگر شاید سب سے اہم شرط یہ تھی کہ خطیب کو صاحبِ اسلوب ہونا چاہیے۔ یعنی باالفاظ دیگر اسے زبان کے ضمیر میں غواصی کرنے والا ہونا چاہیے۔ یہی عرب خطابت کا رکنِ اعظم ہے۔ ہمارے ممدوح اصل میں اسی روایت کے نمائندے ہیں۔ میرے خیال میں اُن کا لسانی شعور ان کے تفکّر و تعقّل سے بھی زیادہ مضبوط اور بامعنی ہے۔ علّامہ کے اس لسانی شعور کو اگر theorize کیا جائے تو لسانیات اور علمیات کے بعض مشتر کہ حقائق کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔
زبان کا اسٹرکچر دراصل الفاظ کی باہمی مناسبتوں سے بننے والا وہ کُل ہے جو ادراک اور اظہار دونوں کے حدود کو متعین کرتا ہے، اور معنی تک رسائی کے راستے تیار کر کے ذہن کو ان پر چلنے کا پابند بناتا ہے۔ انسان کا عمومی شعور جو محض صورت کے حضور اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نظامِ معنویت پر قانع ہوتا ہے، اسی اسٹرکچر میں رہتے ہوئے کچھ سادہ اور مستقل اسالیب میں اپنے ادراک و اظہار کی تمام ضرورتیں پوری کر لیتا ہے، لیکن شعور کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جو زبان کے میکانیکی مناسبات سے تسکین نہیں پاتیں اور ادراک و اظہار کی صورتِ اَساسی کو قبول نہیں کرتیں۔ ایسی انواعِ شعور زبان کے اسٹرکچرل دروبست کو صور تاً برقرار رکھتے ہوئے اس میں کارفرما اندرونی مناسبتوں کی ایک ایسی تشکیلِ نو کرتی ہیں جس سے چیزوں کو دیکھنے کے نئے تناظر پیدا ہو جاتے ہیں۔ شعور چونکہ اپنی عمومی اُفتاد کے بموجب محسوس ہی کو بامعنی جانتا ہے لہٰذا ذ ہن اپنی فعلیت کے بالا تر مراتب میں معانی کو زیادہ سے زیادہ حسّی بنا دینے کی اُمنگ رکھتا ہے۔ الفاظ کی سطحی بناوٹ اور اس سے رونما ہونے والی مناسبتوں سے گزر کر شعور اپنی عقلی اور جمالیاتی قوّتوں سے نہ صرف یہ کہ چیزوں کو ان کے جبری سیاق و سباق سے بلند کر دیتا ہے بلکہ اپنے تصورِ حقائق کو حسی سطح پر واجب التسلیم مصداقات بھی فراہم کر دیتا ہے۔ خطابت اور شاعری دونوں میں معنی آفرینی کا یہ عمل بہت بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عمل سے لفظوں کی دستیاب رسمی اور منجمد مناسبتیں اس طرح نظر انداز ہو جاتی ہیں کہ پوری زبان کا مادّۂ اظہار بدل کر رہ جاتا ہے۔ اب صورت کی بجائے حقیقت لفظ کا منتہا بن جاتی ہے اور زبان کی وہ گہرائیاں اُبھر آتی ہیں جہاں لفظ سامنے کی چیز کا نام نہیں ہے بلکہ علامت ہے، جس کے ذریعے سے غیب کا ایسا حضور ممکن ہو جاتا ہے جو ادراک کے حسّی مطالبات کی بھی تکمیل کر سکتا ہے۔ مفاہیم و مطالب لفظ کا کُل اثاثہ نہیں ہیں ۔ کلاسیکی تصور کے مطابق لفظ ظرفِ حقائق ہے اور حقائق کی ماہیّت ہی یہ ہے کہ ان کے اور اک کا عمل بس جزوی طور پر ہی ذہنی ہوتا ہے۔ یعنی حقائق کے تقابل میں ذہن کا کردار اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ ان کے انکشاف کو خود اپنے لیے تشفی بخش بنانے کی خاطر ان میں ایک مفہومی رنگ بھی پیدا کر دے۔ حقائق کے ساتھ انسان کے مجموعی شعور کی تمام فعال نسبتیں ذوق یعنی تجربے کے قبیل سے ہیں، اور ان کی مفہومیت کی تمام جہتیں حقائق کے اظہار کی بعض ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہیں۔ ادر اک کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔
لفظ کی symbolization در اصل شعور اور حقائق کی نسبت کا اقتضا ہے، اور یہ بات کہنے کی غالباً ضرورت نہیں کہ شعور کے اقتضا یعنی خلقی طلب کی تکمیل کا سامان حضور سے ہوگا نہ کہ حصول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہن کی حصولی حرکت کا رخ جب بھی حقائق کی طرف گیا ، ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ کیونکہ حصول کی ساری استعداد صورت کا احاطہ کرنے کے لیے ہے، اس کو اگر حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا جائے گا تو اس سے حقائق کے شعور میں آنے کا پورا انداز بدل کر رہ جائے گا۔
اس بات کو حد درجہ لائقِ غور سمجھنا چاہیے کہ حقائق ، معلومیت میں ڈھلنا قبول نہیں کرتے ۔ ان کے اثبات کے لیے ادراک کی وہ نوع درکار ہے جو عملِ علم کے بجائے حالتِ انکشاف سے مناسبت رکھتی ہے، اور شعور کے سب سے اصلی جو ہر یعنی انفعال پر قائم ہے۔ ذہن کی علمی طاقت حقائق کو زیادہ سے زیادہ مرکزی تصورات یا بنیادی مفروضوں کی شکل دے سکتی ہے جن میں غیر متزلزل یقین اور غیر متغیر وثوق کی سمائی نہیں۔ اس لیے شعور میں حقائق کی تحصیل کا واحد ذریعہ وحی ہے، کیونکہ حقائق کی معرفت خود حقائق کی حرکت سے میسر آتی ہے، اور ذہن کا اس میں کوئی فاعلی کردار نہیں ہوتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وحی یا سچی خبر کے ذریعے سے حاصل ہونے والی معرفت شعور کی تمام انواع کے لیے موجبِ یقین بن جانے کے بعد عقل پر اس یقین کو اصل تعقّل اور بِنائے استدلال بنانے کا دروازہ کھول دیتی ہے۔
علّامہ رشید ترابی جن کی یاد کوحتی المقدور با معنی اور مؤثر بنانے کے لیے ہم آج جمع ہوئے ہیں، اُن کی خطابت کا سب سے نمایاں وصف شاید یہی تھا کہ اُن کا شکوہِ بیان حقائق کے حضور میں پہنچا دیتا تھا اور ان کا استدلال اس حضور کو عقل کی سیرابی کا واحد سر چشمہ بنا دیتا تھا۔
اُن کے اس نادر وصف کی تفصیل میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، مگر اس بیان کو ہم اُن کے دیگر اوصاف خطابت پر گفتگو کرتے ہوئے ٹکڑوں میں مکمل کریں گے۔
خطابت کی تھیوری کا اصولِ اعظم یہ ہے کہ خطابت اپنی غایت میں حقیقتِ اصلی کو مراحل ظہور میں دیکھنے اور دکھانے کا وہ عمل ہے جو لفظ کی گنجائش میں اضافہ کرنے سے انجام پاتا ہے۔ اس عمل کے پیچھے کارفرما قوت، خطابت کو ایک دوسرے اصول کا حامل بھی بناتی ہے، اور وہ ہے مظاہر میں اصالت پیدا کرنا۔ یہ بیان ڈرا مشکل ہو گیا ہے لیکن مجبوری ہے، اس کی کوئی اجمالی تسہیل کم از کم میرے لیے تو ناممکن ہے۔ اس کو انگریزی میں کہا جائے تو یہ دوہرا اصول historicizing the principle & principalizing the historical کہلائے گا۔ بہر حال کام چلانے کے لیے اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ خطابت زبان ، شعور اور کائنات کے وجودی توازن اور ہم اصلی تک رسائی پیدا کرنے والی اُس قوت کا نام ہے جو تقدیر کو تاریخ بناتی ہے اور تاریخ کو تقدیر۔ خطابت کی شیعی روایت کا پورا دائرہ اسی مرکز پر قائم ہے اور علّامہ رشیدؔ ترابی کی خطابت اس مرکز کے باطن میں برپا ایک قدیم گونج کا مکمل عکس ہے۔ تخیل اور واقعیت کے جس امتزاج کو ہمیشہ سے خطابت کی رُوح کہا جاتا رہا ہے، اُس نے علّامہ کی خطابت میں ایسی توسیع اور تنوع حاصل کر لیا ہے جو خطیبانہ لٹریچر میں ہومر اور نٹشے کے علاوہ شاید ہی کہیں پایا جاتا ہو۔ علّامہ اس امتزاج کو وفورِ اعتقاد سے نہیں پیدا کرتے، بلکہ اُن کے خطاب میں جو المیاتی شکوہ پایا جاتا ہے، دراصل وہ اس امتزاج کا بانی ہے۔ ذاکری کی عمومی روایت میں خطابت کا یہ ضروری وصف چونکہ اعتقادی غایات کے تابع ہو کر عمل میں آتا رہا ہے اس لیے یہ پوری روایت صدق و کذب کے غیر ضروری جھگڑے کا شکار ہوگئی اور اس سے وہ تاثیر منہا ہوتی چلی گئی جو اعتقاد کو مناظرانہ رنگ دینے کی بجائے انھیں ایک جمالیاتی کشش دے کر انسانی فطرت کے غیر نظریاتی گوشوں تک اُتار دیتی ہے۔
علّامہ کی کوئی تقریرسن لیں، مضامین کو منوانے اور ہر قیمت پر منوانے کے ڈھب میں بیان کرنے کی ادنیٰ سی کوشش بھی نظر نہیں آئے گی۔ وہ کبھی اس سطح تک نہیں اُترتے۔ اُن کا سارا زور معارف کو احوال اور احوال کو معارف بنانے پر صرف ہوتا ہے۔ مجھے تو کہیں کہیں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ علّامہ کا جمالیاتی شعور اُن کے مذہبی شعور پر غالب ہے، یا اُن کی تمام تر مذہبیت کی بنیاد ضرور ہے۔ مذہبی شعور المیے سے مناسبت نہیں رکھتا (یہاں المیے سے یونانی ٹریجڈی مراد ہے)۔ مذہبی شعور میں المیے کی قبولیت پیدا کرنے کا کوئی عمل جمالیاتی شعور یا طرزِ احساس کو غلبہ دیے بغیر ممکن نہیں۔
عرب خطابت کا اصول کمالِ نطق ہے جس سے عقل اور جذبے میں ایک تکمیلی پیوند پیدا ہو جاتا ہے۔ بڑا خطیب لفظ کو معنی پر ایسا غلبہ دیتا ہے کہ معنی کی اپنے مصداقات کے ساتھ نسبت میں زیادہ ہمہ گیری داخل ہو جاتی ہے۔ خطابت میں جذبے سے پیدا ہونے والا و فورِ معنی ہی تاریخ کو ابدیت کا وہ لحن دیتا ہے جسے فلسفے کی زبان میں Temporality particularity universalized eternalized کہا جاتا ہے۔ قدیم عرب خطیبوں کے ہاں زبان پر قدرت کے جو محیر العقول نمونے ملتے ہیں، انھیں ادبی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ان سے جمالیات کے بعض ایسے تخلیقی اور فنّی اصول برآمد ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر حقائق کی جمالیاتی تشکیل غیر متناہی حد تک ممکن ہو جاتی ہے۔ مذہبی عقلی اور اَخلاقی شعور کے content کو جمالیاتی شعور کی تحویل میں لانے کا خواب پہلی مرتبہ عرب خطباء اور شعراء کے ہاتھوں شرمندۂ تعبیر ہوا۔ افسوس ! اس کامیابی کو تسلسل کے ساتھ محفوظ نہ رکھا جا سکا، لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ لمبے تعطّل کے بعد ہی سہی ، جمالیاتی فکر کی تاریخ کا یہ اہم ترین کارنامہ ہمارے سامنے علّامہ رشید ترابی کی خطابت میں پھر سے ظہور پزیر ہوا۔
علّامہ کی خطابت کے اصولی محاسن اتنے زیادہ ہیں کہ اُن میں سے ایک ایک پر گفتگو کرنے کے لیے پورا دفتر چاہیے ۔ میری رائے میں ان خطیبانہ فضائل و محاسن کے تجزیے کی بنیاد ایک مقدمے پر ہونی چاہیے۔ اور وہ مقدمہ یہ ہے کہ اُن کی خطابت کا معنوی اور بیانیہ تارو پود قرآن کے لحن سے تیار ہوا ہے۔ اُن کے ہاں غائب کو مشہود، معنی کو تجربہ اور معقول کو محسوس بنانے کا عمل اتنی تیزی اور کثرت سے نظر آتا ہے کہ بعض مرتبہ اس کا ادراک بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ذاکری کی جہت سے علّامہ نے المیے کو شدِّت احساس کے ساتھ اُس کمالِ معرفت تک پہنچا دیا جہاں حقائق و معنی مدرّک بالذ ہن نہیں ہیں بلکہ حاضر فی القلب ہیں۔
عربی زبان اور خطابت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ حقائق و معانی کے بیان کو اور خیال و احساس کے اظہار کو ایک اسمائی بہاؤ کی صورت دی۔ دیگر تہذیبوں اور زبانوں میں یہ بہاؤ زیادہ تر افعالی ہوتا ہے۔ اس بہاؤ سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے قرآن کے آہنگ کا ذوق ضروری ہے۔ اس کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اُردو کی حد تک یقین سے کہا جاسکتا ہے که بیان کا اسمائی بہاؤ اور تقدیری تحکم جو قرآن کا فیضان ہے، رشید ترابی صاحب کے سوا کسی اور کی خطابت میں نہیں پایا جاتا۔ قرآنی لحن کا ذوق اُن پر اس حد تک غالب تھا کہ اُن کی آواز لفظ کی معنویت پر حاوی رہتی تھی۔ ویسے بھی معنویت نے لفظ کی تشکیل میں آواز کے حصے کو دبا رکھا ہے۔ بڑا خطیب اسے دوبارہ اپنے مرتبے پر بحال کر دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ صلابت، روانی نمو سمبل ازم، شعور کے تمام انواع اور نفس کے تمام قویٰ کی سیرابی، حقیقت کی تجسیم، اپنے موضوع کو پُرکشش اور پُراسرار رکھنے کی قوت ، اظہار کا جدلیاتی پیٹرن وغیرہ خطیبانہ ڈسکورس کے بنیادی عناصر ہیں۔ آپ ان میں سے ایک ایک کو علّامہ رشیدؔ ترابی کے ہاں کسی تکلیف اور محنت کے بغیر دریافت کر سکتے ہیں۔
علّامہ رشیدؔ ترابی نے چونکہ خطابت کی ایک مخصوص مذہبی روایت میں رہنا قبول کیا تھا لہٰذا اُن کے اختصاص اور انفرادیت کو اس دائرے میں بھی دیکھنا مفید ہے۔ خطابت عموماً اسی مذہبی روایت میں پنپتی ہے جہاں عقائد وغیرہ کی اکثر قوت اور معنویت تہذیبی ہوا کرتی ہے۔ جن مذاہب کی بناوٹ تہذیبی نہیں ہے، وہاں کوئی بڑی خطیبانہ روایت نہیں پائی جاتی۔ تاہم اس سارے معاملے میں کچھ خطرات بھی ہیں جن کی طرف سے غفلت عقیدہ و عمل کی معیاری مذہبی ساخت کو مجروح کر سکتی ہے۔ مثلاً تصور پرستی، Anthropomorphism وغیرہ ۔ ایسی بہت سی قباحتوں کا رشیدؔ ترابی صاحب کو بھی سامنا تھا جن پر انھوں نے اپنی حد تک غالب آ کر دکھایا۔ ان کی روایت مذہبیت میں شدتِ اشتغال کی وجہ سے ایک ایسا نظامِ مراتب ایجاد کر چکی تھی جس میں خود دِین کے نظامِ مراتب نظر انداز ہو جانے کا حقیقی خطرہ پیدا ہو چکا تھا۔ ایمانی تصورات ، جذبات اور احساسات کا مدار ومحور بدل چلا تھا۔ ایمان کی تقریباً ساری قوت نظریۂ امامت کی تشکیل میں صرف ہو چکی تھی، اور یہ سب کچھ صدیوں کی کاوشوں کا پھل تھا ۔ علّامہ نے جب یہ دیکھا کہ مذہبی کائنات کا تھوڑا ہی حصہ تو حید و رسالت کے لیے مخصوص رہ گیا ہے تو انھوں نے اعلیٰ درجے کی غیرت اور بصیرت کے ساتھ گویا مجدّد فی المذہب کا کردار ادا کیا اور توحید ورسالت کے حقائق کو اپنی بے مثل تقریروں کا مستقل موضوع بنایا۔ کاش یہ روش جاری بھی رہی ہوتی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مذہب اور تاریخ کو دیو مالا بنا دینے کے عام چلن کو بھی بدلنے کی قوی تر کوشش کی اور اپنی مجالس کے باقاعدہ عنوانات مقرر کیے جو اُردو ذاکری کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ مثلاً وحیِ ربّانی کا تعقّل، اسلام کا فلسفۂ تعلیم ، ادب اور مذہب، قرآن : حرف آخر، قرآن کا طرزِ استدلال، عقل اور نص، دُعا، صبر ، رزق، علم ،سجدہ ، یقین ، تسلیم ، تو بہ، رضائے رب وغیرہ۔
ان عنوانات ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علّامہ رشیدؔ ترابی ، اپنے مخاطبین کی مذہبی استعداد کو کس رُخ پر لگانا چاہ رہے تھے۔ وہ قوم کو تز کیۂ نفس کے متروک راستے پر چلانا چاہتے تھے اور غیر متوازن ناخدا، مرکزِ جذبات سے پیدا ہونے والے خناس اور گھمنڈ کو بندگی کی پوری طاقت سے توڑنے کا عزم لے کر اُٹھے تھے ۔ میرا گمان ہے کہ حالات سازگار ہوتے تو وہ دِین کے اس مقصدِ بزرگ کو حاصل کرنے کے لیے صوفیہ کی طرح امامتِ علیؑ سے برپا ہونے والے روحانی فیضان کو موردِاستفادہ بنانے کے ٹھوس طریقے بھی نکالتے کہ نفس اُن کی واقعی روبروئی اور حضوری میں منازل کمال سیر کر سکتا۔
مجبوری یہ ہے کہ میں اُن کی تقاریر سے اقتباسات نقل نہیں کر سکتا ورنہ بلا غبار طریقے سے دکھایا جاسکتا ہے کہ وہ تزکیۂ نفس کی باقاعدہ ایک تھیوری وضع کر چکے تھے۔ نفس تین چیزوں کا مجموعہ ہے: ذہن ، ارادہ اور طبیعت ۔ ان تینوں کی تفصیل میں نہیں جاتے ، بہت وقت لگ جائے گا۔ بس مختصر یہ ہے کہ ذہن یا عقل میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو حق و باطل کا امتیاز باقی نہیں رہتا۔ ارادے میں فتور آ جائے تو بندہ اطاعت کے موقف پر قائم نہیں رہ سکتا اور طبیعت پر فساد غالب آ جائے تو حق نا مرغوب ہو جاتا ہے اور باطل مرغوب۔ علّامہ رشید ترابی نے نفس کے ان تینوں اجزا کی درستی اور سُدھار کے لیے جو لائحہ عمل تیار کیا، اُس کے مطابق ذہن کا تزکیہ تعقل سے ہوگا، ارادے کا تخیل سے اور طبیعت کا جذبۂ بندگی سے تعقل مقصودِ حقیقی یعنی خدا پر مدلل یقین پیدا کرتا ہے، تخیل اُس کی طرف یکسور کھتا ہے اور جذ بہ اُسے قلب میں حاضر رکھتا ہے۔ ظاہر ہے نفس مزکیٰ کے یہی تین بنیادی احوال ہیں۔ یقین ، یکسوئی اور حضور! جن کی اصل حقیقت عبودیت کے ان اصولِ سہ گانہ سے نکلتی ہے جنھیں معرفت ، خشیت اور محبت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہیں سے اُن کا وہ لافانی کارنامہ وجود میں آتا ہے جس کی بنیاد پر انھیں مذہبی مجدّد کہا جاسکتا ہے۔ اُس کا رنامے کا اجمالی پس منظر یہ ہے کہ ذاکری کی روایت میں جو مذہب سے زیادہ تہذیب کا مظہر ہے، بعض قابلِ فہم اور لائقِ تجزیہ اسباب کی بنا پر امامت کا بیان اُلوہی اصطلاحات میں ہونے لگا تھا۔ خصوصاً حضرت علیؑ کے واقعتاً محیر العقول اوصاف وفضائل کا اظہار اس انداز سے کیا جاتا تھا کہ آنجناب کا بندہ ہونا بعید از قیاس لگنے لگا اور اچھے اچھے مذہبی لوگ نصیریوں کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اس رویّے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بندگی کے عروج کا نمونہ دکھانا ہو تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پیش کر دیا جاتا اور خدائی کے نزول کا مظہر دیکھنا ہو تو مولا علیؑ کو قبلۂ نگاہ بنا لیا جاتا۔ علمائے ملّت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ذاکروں کا بنایا ہوا یہ مزاج اپنی جگہ سے ہل کر نہ دیا۔ اس میں اگر لرزش پیدا ہوئی تو اُس خطیبِ اعظم کی زلزلہ فگن خطابت ہے جس کی مدّاحی کا حق ادا ہونے میں نہیں آ رہا۔ جی ہاں علّامہ رشید ترابی نے خود ساختہ خدا بینی کے نشے میں چُور آنکھوں کو بھی دکھا دیا که امامت کے سب مینار آسمان رسالت کے سائے میں بندگی کی مقدس سرزمین پر اللہ کی خاص الخاص نشانیوں کی طرح ابدیت کی تھام کے ساتھ قائم ہیں۔
اس تجدیدی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے علّامہ مرحوم نے حقائقِ رسالت اور کمالاتِ سیرت کو اپنی مجالس کا مستقل اور مسلسل موضوع بنایا تا کہ خدا کا بنایا ہوا نظام مراتب اپنی اصل حالت میں محفوظ اور نافذ رہے۔
میں خطابت کا فنی اور تکنیکی تجزیہ نہیں کر سکتا۔ مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ بڑا خطیب منبر پر بیٹھ کر خود ایک بیان میں ڈھل جاتا ہے، اور کامل متکلم خود اپنے کلام کا شاہ کلمہ بن جاتا ہے۔ اس لیے خطابت صرف سننے کی چیز نہیں ہے، اسے دیکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ فردوس گوش تو ہے ہی ، جنت نگاہ بھی ہے۔ مگر یہ دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے یا توتس بن ساعدہ کو سنا اور دیکھا ہو یا پھر علّامہ رشید ترابی کو ۔ وہ لفظوں پر حکومت کرنے والی آواز، وہ معافی کی کفیل خاموشی ، وہ انکشافِ حقائق کے مدوجزر سے بناز خارلہجہ، وہ نزولِ معارف کی ہم رفتار حرکات ، وہ احوال بانٹتی گردشِ چشم ۔۔۔ غرض :
ایک دو ہوں تو سحرِ چشم کہوں
کارخانه ہے وہاں تو جادو کا
میں نے اُن کی کئی مجلسیں دیکھی ہیں ، ہر مرتبہ یہی تجربہ ہوا کہ:
ستارهٔ بدر خشید و میرِ مجلس شد
دلِ رمیدهٔ مارا انیس و مونس شد
وہ عظیم شاعروں کی طرح اپنے حُسن ادا سے مضمون بندی اور معنی آفرینی کِیا کرتے تھے ، اور میرے خیال میں یہی خطابت کا فنی منتہا ہے۔ یہاں پہنچ کر لفظ اور شعور اُس نقطۂ وحدت میں ڈھل جاتے ہیں جو لفظ کی صوتی بضاعت ، تصویری سکت اور معنوی استطاعت کو یکجان کر کے انواعِ شعور میں پائی جانے والی لا تعلقی کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ یعنی لفظ ہو یا شعور ، دونوں کی ساخت ایک جیسی ہے۔ ان کے احوال متحد الاصل ہیں مگر اظہار اور ادراک کی ہنگامی صورتوں سے مناسبت پیدا کرتے کرتے ان میں ایسی مغائرت سرایت کر گئی ہے کہ لفظ بھی اندر سے دولخت سہ لخت ہو گیا ہے اور شعور بھی۔ ایسی صورتِ حال میں اصولِ فن کی حقیقی اہمیت یہ ہے کہ ان کی مدد کے بغیر خود گریزی اور غیریت کی اس رو پر روک نہیں لگ سکتی ۔ فن چونکہ قانون مناسبات ہے لہٰذا صاحبِ فن لفظ اور شعور کو با ہمی اور اندرونی کشاکش و انتشار سے نکالے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ اربابِ فن کے درمیان فرقِ مراتب اسی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ تصور ٹھیک نہیں ہے کہ فنی اصول وضوابط کا تعلق صرف اظہار یعنی لفظ سے ہے۔ ان کی مارا در اک یعنی شعور تک بھی ہے۔ بنا بریں حقیقت فن یہ ہے کہ اس سے اظہار و ادراک دونوں کی خامیاں دور ہوتی ہیں۔ علّامہ رشید ترابی کی خطابت کا مجموعی وصف ہی یہ ہے کہ جس پائے کا حُسنِ اظہار ہے، حُسنِ ادراک بھی اُسی مرتبے کا ہے۔ کرامت کے درجے کو پہنچی ہوئی یہ دورویہ قدرت لگتا ہے منبر پر جلوس کرتے ہی ان کی پور پور میں دہکنے ، دمکنے اور تڑپنے لگتی تھی۔ ایسے میں وہ اقبال کے اس شعر کا مصداق بن جاتے تھے :
وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے
ٹپکے بدنِ مہر سے شبنم کی طرح ضو!
اور خیال رہے کہ مدح ورثا کی اُردو روایت میں ایسے صاحبِ فن یا تو میر انیس تھے یا پھر علّامہ رشید ترابی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انیس کو مرثیے کا رشید ترابی کہہ دیا جائے تو اُن کے وہ حقوقِ تحسین بھی ادا ہو جائیں گے جو واجب نہ تھے۔ تا ہم علّامہ کو خطابت کا میر انیس قرار دے کر بھی اُن کے کئی حقوق ادا ہونے سے رہ جائیں گے۔
دراصل علّامہ رشید ترابی کی خطابت کا پورا اسٹرکچر انیس سے زیادہ رُومی ، بیدل اور اقبال سے مشابہت رکھتا تھا۔ رُومی کی دیوانِ شمس والی آواز ، بیدل کا تعقل اور اقبال کی تمثال گری ، علّامہ کی خطابت میں مدغم ہو کر اُن کی انفرادیت کو اور محکم کر دیتی ہیں ۔ مثال کے طور پر رومیؔ کا یہ شعر دیکھئے:
بزیر کنگرهٔ کبریاش مردانند
فرشته صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
انیس بہت بڑے شاعر ہیں مگر اتنی بڑی آواز ، اتنی بڑی تصویر اور اتنی بڑی معنویت اُن کے بس سے باہر ہی نہیں، بہت زیادہ باہر ہے۔ علّامہ کی خطابت اپنی بلند ترین سطحوں پر اسی شعر کا تسلسل ہے۔ آواز کی متحرک دبازت اور گہراؤ، معنی کی تجسیم کرتی ہوئی صورت گری اور حقائق کو زندہ کرداروں میں ڈھال دینے والا تعقل۔۔۔ یہ اُن کی خطابت کے اسٹرکچرل خصائص ہیں جو اُنھیں رُومی ایسے علی آہنگ علی رنگ اور علی فرہنگ شاعر ، عاشق اور عارف سے قریب کرتے ہیں۔
”شاخِ مرجان“ کے تعارف میں نصیر ترابی نے گویادل کی طاقت سے لکھا ہے:
”اپنے شجرۂ نسب کے اعتبار سے یہ آواز نہج البلاغہ کی نسل سے تعلق رکھتی ہے لہذا اس فضا سے جز رو مد اور اس ہوائے گرم و سرد میں یہ آواز ظن و تخمین کی نہیں بلکہ یقین کی آواز ہے….“
بھائی نصیر ترابی ! خوش رہیے اور ہمیں بھی خوش رکھیے۔ آپ کی یہ تحریر بلیغ تاثر نگاری کا شہ پارہ ہے اور آپ کے بابا ہی کا فیضان ہے۔ آپ نے یہ لکھ کر بلا شبہ کُوزے میں دریا بند کر دیا ہے کہ:
”آوازوں کی دھوم اور سماعتوں کے ہجوم میں یہ آواز ایک ایسی سماعت کی تمنا ہے جو زیر وزبر کرتی ہوئی مادّی ناہمواریوں میں کسی اخلاقی اُستواری اور کسی رُوحانی توازن کی تلاش میں سرگرداں ہے …..“
خود علّامہ سے اُن کا مقصود شعر و خطابت پوچھا جاتا تو شاید وہ بھی اس سے زیادہ نہ بتاتے۔ خیر یہ بھی اُنھی کا بتایا ہوا ہے جسے اُن کے فرزند دلبند نے گوشِ سر سے نہیں، گوش سر سے سنا ہوگا:
اللہ رے فیض بادہ پرستان پیشرو
نکلے زمیں سے شیشۂ مئے کچھ دبے ہوئے
برادرِ عزیز! اس زمینِ دل کی پرتیں اُتارتے رہیے، ابھی اور شیشے بھی نکلنے ہیں۔
علّامہ رشیدؔ ترابی شاعر بھی تھے ، صاحب کتاب شاعر۔ اُن کی شاعری کی طرف بھی جانا ہے مگر پہلے تھوڑی سی گفتگو اس سوال پر ہو جائے کہ خطابت کی تہ سے پھوٹنے والی شاعری کیسی ہوتی ہے؟ اُس کے امتیازی خدو خال اور خصائص کیا ہیں؟ اگر کلاسیکی انداز سے جواب دینے کی کوشش کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایسی شاعری مقصدی ، موضوعاتی ، بلند آہنگ اور زیادہ تر غیر شخصی ہوتی ہے۔ اس کا رخ انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کی طرف ہوتا ہے۔ اس کے مضامین ہوں یا کیفیات ، سب ایک طے شدہ نظامِ معنی سے جنم لیتے ہیں اور اجتماعی فکری یا اَخلاقی اقدار کی تشکیل و تجدید میں صرف ہوتے ہیں۔ ان مضامین اور کیفیات میں گہرائی سے زیادہ قوت کار فرما ہوتی ہے۔ مجذوبانہ وفور ، انقلابی تموّج اور پیغمبرانہ شکوہ اس شاعری کے عناصرِ ترکیبی ہیں جو اس کی معنوی بناوٹ سے لے کر اسلوب تک ہر چیز میں غلبے کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ خطابت اساسِ شاعری کا سب سے بنیادی وصف یہ ہوتا ہے کہ اس میں الفاظ کی صوتی استعداد کو اُن کے دیگر امکانات کے مقابلے میں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں لفظ پہلے آواز ہے بعد میں کچھ اور ۔ مثلاً :
وہ دانائے سبل ختم الرسل ، مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
یا
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تُو فقط اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو
دونوں شعر معنی اور کیفیت کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کے ہیں مگر ان کی جان، ان کی آواز میں ہے۔ لیکن اس آواز کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ محض با معنی شور نہیں بلکہ اس میں عارفانہ خاموشی بھی گندھی ہوئی ہے، جس سے آواز میں نا محدود وسعت اور غیر متناہی گہرائی بھی پیدا ہوگئی۔ ایسے اشعار کی بنیاد پر اس قسم کے شاعرانہ فقرے بھی معنی خیز ہو جاتے ہیں کہ خطابت ، آواز کی شاعری ہے اور شاعری ، خاموشی کی خطابت۔
لفظ کا بڑا حصہ خاموشی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہم چونکہ لفظ میں اُترتے نہیں ہیں اس لیے ہمیں پتا نہیں چلتا کہ یہ گہرائیوں اور وسعتوں کی ایک دنیا ہے جس کے بیش تر حصوں پر اِخفا اور سنّاٹے کی پُر اسرار دُھند چھائی ہوئی ہے۔ اس کا جو تھوڑا سا حصہ سطح پر ہونے کی وجہ سے ہم پر خود بخود ظاہر ہے، وہی ہمارے احساس ، ادراک اور اظہار کی کُل کائنات ہے۔ کبھی کوئی غواص لفظ میں اُتر کر اس کے کسی مخفی گوشے کو انکشاف کی روشنی میں لاتا ہے تو ہماری کائناتِ معنی کا رقبہ کچھ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن فردوسی ، رومی ، حافظ، میر اور کسی حد تک اقبال ایسے لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں اور غواصی کے یہ معجزے کبھی کبھی ہی وجود میں آتے ہیں۔ زیادہ تر تو دستیاب حدود ہی میں سیاحی ہوتی رہتی ہے۔
گو کہ” شاخِ مرجان“ علّامہ رشید ترابی کے خطیبانہ آہنگ کا مکمل نمونہ نہیں ہے اور اس کتاب میں خطابت اور شاعری اپنے اپنے منتہا کو پہنچ کر ایک دوسرے میں مدغم دکھائی نہیں دیتے ، تاہم یہ شاعری اپنے ہر جزو میں علّامہ کی خطابت ہی سے جڑی ہوئی ہے اور انھی معیارات پر پر کھے جانے کا تقاضا کرتی ہے جو علّامہ کی خطابت سے برآمد ہوتے ہیں۔ عمومی شعریات کے اصول ”شاخِ مرجان“ پر منطبق تو کیے جاسکتے ہیں، لیکن محض ان کی بنیاد پر اس کے تجزیے کی سب ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں ۔ مثال کے طور پر تخیل کی شعری اور ادبی تعریف کو رہنما بنا کر اس شاعری میں تخیل کے نمونے تلاش کیے جائیں گے، تو اندیشہ ہے کہ ناکامی ہوگی۔ یا اسلوب واظہار کے شاعرانہ معیارات کو اس پر وارد کرنے کا نتیجہ بھی کم و بیش ایسا ہی نکلے گا۔ ” شاخ مرجان“ مضامین و معانی کی شاعری کا مجموعہ ہے اور اس کا موضوعاتی (themetic) دروبست ایسا ہے کہ تجزیے اور تحسین کی فلسفیانہ سطح سے اُتارا جانا قبول نہیں کرتا۔ یہ مجموعہ شعرِ حکمت کی روایت ہی میں رکھ کر پڑھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ وہی روایت ہے جس نے رُومی و سنائی اور عطار و بیدل ایسے شاعر پیدا کیے ہیں ۔ ان حضرات کی طرح علّامہ کی شاعری بھی تجزیے سے زیادہ تشریح کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میں بیان ہونے والے themes کو ان سے مناسبت رکھنے والے اسلوبِ فہم کے ساتھ شعور میں جذب کر لیا جائے تو پھر اس کتاب کے جمالیاتی محاسن بھی کھلنے لگتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ بند دروازہ ہے جو اس کے اندر کی خوبصورتیوں کو مشاہدے میں نہیں آنے دیتا۔
شعرِ حکمت یا حکیمانہ شاعری کا بنیادی تصور اور مقدمہ یہ ہے کہ حقیقتِ جمال غیب و تنزیہ ہے نہ کہ شہود دو تشبیہ۔ اس لیے جمال اپنی اظہاری ساخت میں بھی معنوی ہوتا ہے نہ کہ صوری۔ عارفانہ یا حکیمانہ نگاہ سے نہ دیکھا جائے تو صورت جمال کی حقیقت کو ڈھانپنے کا کام کرتی ہے، اُبھارنے کا نہیں۔ البتہ حکمت کی نظر صورت کو حقیقت کی نسبت پر پھر سے بحال کر دیتی ہے اور اسے علامت و اعتبار کے درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ جہاں یہ حقائقِ حُسن کو محدود کرنے کی بجائے ان میں صرف ہو جانے والا قابلِ اعتبار اشارہ بن جاتی ہے۔ حکمت کی مدرسانہ اور مولویا نہ تعریفات سے قطعِ نظر کر کے دیکھیں تو یہ عقل ہی نہیں بلکہ انسان کے مجموعی یا وجودی شعور کا وہ فعال منتہا ہے جس پر نہ کسی علم سے اضافہ ہوتا ہے اور نہ کسی دلیل سے کمی۔ یہ صورت سے معنی، مجاز سے حقیقت اور شہود سے غیب بُوجھ لینے والا وہ ملکہ ہے جو چیزوں کو ان کی حقیقی نسبتوں پر قائم رکھتا ہے۔ حکمت کی یہ وہ سطح ہے جہاں رسمی مذہبی معقولات کے ماہرین کبھی نہیں پہنچے۔ یہ ذہن رسمی مدرسانہ منطق پر دھوم دھڑکے سے چلنے کا عادی ہوتا ہے۔ حقائق کے mechenics تک رسائی پیدا کرنے کے لیے ابنِ عربی اور رُومی جیسی خلاق بصیرت درکار ہوتی ہے۔ یہ بصیرت بھلا اُن لوگوں کو کہاں نصیب ہوسکتی ہے جو چیزوں کی دُم سے دُم باندھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں جانتے۔ اس جارحانہ جملہ معترضہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ نشان دہی ہو جائے کہ حکمت کوئی کلامی امر نہیں ہے بلکہ ایک عرفانی خاصہ ہے۔ اُمّت میں اس کے بہترین مظاہر متصوفانہ روایت میں ملتے ہیں ، علمائے فقہ و کلام میں نہیں۔ اس دعوے کا ثبوت درکار ہو تو صوفیوں اور مذہبی فلاسفہ و متکلمین کے مشترک موضوعات نکال کر ان کی تحریروں کا موازنہ کر لیا جائے۔ جو فرق سامنے آئے گا وہ زمین و آسمان میں پائے جانے والے فرق سے بھی کہیں زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر وجود، علم، توحید، تقدیر، معاد، ربط الحادث بالقديم، حقائقِ اسماء و صفات وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی نے بھی تفصیل سے کلام کیا ہے اور بُوعلی سینا، ابنِ رشد ، میر باقر داماد، ملّاصدرا وغیرہ نے بھی خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ ان سب کے کلام سے بہترین اجزمنتخب کر کے انھیں ذرا ابنِ عربی کے عمومی معارف کے آگے رکھ کر دیکھیے تو ان حضرات کا سارا رعب ہوا ہو جائے گا۔
حکمت کے متصوفانہ منہج سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود ”شاخِ مرجان“ میں تعقّل کے عنوان سے کئی ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس کتاب میں کار فرما تعقل عقلِ نظری سے زیادہ وجدان سے تعلق رکھتا ہے۔ عقل کا ایک وجدانی و فور بھی ہوتا ہے جس کے اثرات علّامہ کے منظومات میں جابجا نظر آتے ہیں۔ مثلاً یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے جو غزلوں سے لیے گئے ہیں:
وہ طائر جس میں کچھ بھی جرأتِ پرواز باقی ہے
گرفتارِ قفس کیوں ہو، اسیرِ آشیاں کیوں ہو
٭٭٭
ذائقہ کون بدل دیتا ہے ہر منزل پر
موت کہتے ہیں جسے وہ تو نہ آئی نہ گئی
٭٭٭
میں آپ کو ڈھونڈ آیا ہوں امکاں کی حدوں تک
اب آپ مجھے ڈھونڈ کے لے جائیں کہیں اور
٭٭٭
کیا آپ کے جلووں سے کوئی وقت ہے خالی
آتا ہے اندھیرا نہیں معلوم کہاں سے
٭٭٭
جوش اثر کو دیکھیے غیب پہ اعتماد کے
باغ پھلے یقین کے پھول کھلے مراد کے
ان سب اشعار میں ایک چیز مشترک ہے۔ ان میں بیان ہونے والے تجربات کی غایت عقلی ہے۔ کسی نہ کسی حقیقت کا حضور فراہم ہو کر تکمیلِ عقل کا وسیلہ بن رہا ہے۔ پہلے شعر میں” طائر“ عقل ہے۔ جرأتِ پرواز اس کی وجدانی قوت ہے اور ”قفس و آشیاں“ زمان و مکاں میں محبوس عقل کے اٹل حدود ہیں۔ دوسرے شعر میں ”ذائقہ“ عقل کا حال ہے یا اس کی حالتِ حضور ہے ”منزل“ اس کے حدود ہیں جن کی تجدید ہوتی رہتی ہے اور ”موت“ عدمِ محض ہے جسے عقل محال جانتی ہے۔ تیسرے شعر میں ”میں“ عقل ہے ”آپ“ اس کا ماورائے حصولِ مقصود ہے جس کی تلاش عقل کی تمام تر فعلیت کا جوہر ہے۔ ”امکاں کی حدیں“ یعنی زمان و مکاں کے حدود عقل کا میدانِ کار ہیں۔ دوسرے مصرعے میں عقل کے اس حقیقی انفعال کا بیان ہے جس کی بیداری سے اس میں وہ وجدانی وفور پیدا ہوتا ہے جو محالاتِ عقلی کو بھی ممکن دیکھتا ہے۔ جیسے مطلوب کا طالب کو ڈھونڈ نا اور اسے اپنی لا زمانی ولا مکانی اقلیم میں لے جانا۔ خود زمان و مکان کے جدود کا ٹوٹ جانا محالِ عقلی ہے جسے اس شعر میں عقل ہی کی تمنا کے زور سے ممکن بنایا گیا ہے۔ چوتھے شعر میں ”آپ“ حقیقت الحقائق ہے، ”جلوہ“ اس کا ظہورِ عقلی ہے، ”وقت“ زمانی آن بھی ہے اور روحانی حال بھی۔ جلووں سے کوئی وقت خالی نہ ہونا، حقیقت الحقائق کی قبولیت کا وہ مشاہدہ ہے جو العقل فی القلب کی نگاہ سے میسر آتا ہے۔ ”اندھیرا“ شر ہے، باطل ہے، عدم ہے جس کا ماخذ عقل کی نظر میں وجود یا حقیقت نہیں ہے۔ ”نہیں معلوم“ میں پایا جانے والا تجسس عقلِ نظری سے نہیں بلکہ عقلِ وجدانی سے پیدا ہوا ہے۔ پانچویں شعر میں ”جوشِ اثر“ عقل کی وجودی تاثیر ہے۔ ”غیب پر اعتماد“ عقلِ وجدانی کا خاصہ ہے، ”یقین“ عقلِ نظری کے لیے محال ہے لہٰذا اسے عقلِ وجدانی کا حال کہا جائے گا۔ ”مراد“ عقل کی خلقی جستجو کا ثمر ہے اور یہ بھی عقلِ وجدانی کو ملتا ہے۔
شاعری چونکہ علّامہ رشیدؔ ترابی کے لیے خطابت ہی کی ایک جہت ہے، اس لیے ”شاخِ مرجان“ میں بھی تعقل کی نوعیت جدلیاتی اور ڈرامائی ہے۔ عقل کو مرتبۂ تسلیم تک پہنچانے کا سارا عمل ایک رزمیہ اسلوب رکھتا ہے۔ پھر جب سفر مکمل ہو جاتا ہے تو یہی عقل موقفِ تسلیم پر قدم جما کر اپنے تمام حاصلات کی تجسیم کرنے لگتی ہے۔ مابعد الطبیعی اور تنزیہی حقائق بھی محسوس پیکروں کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور غیب پر یقین حاصل ہو جانے کے نتیجے میں تشکیل پانے والے تصورات ایک ڈرامائی انداز سے چند کرداروں میں اتنی شدت اور کلیت کے ساتھ ڈھل جاتے ہیں کہ غیاب مدہم پڑتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے اور ایک مضبوط حسی فضا سارے میں چھا جاتی ہے۔ تعقل ایک Incarnative force بن کر اس تخیل سے مماثلت اختیار کر لیتا ہے جوکو نیاتی تناظر میں اساطیری ہے اور جمالیاتی تناظر میں تشبیہی۔
نہیں توحید بحثِ ذات و صفات
یہ عقیدہ ہے اصلِ راہِ حیات
جس پہ توحید پا سکے اطلاق
اس کے قبضے میں انفس و آفاق
ایسے بندوں کی زندگی توحید
اُن کا علم اُن کی آگہی توحید
(توحید)
٭٭٭
لذتِ عقل کا یہ ہے مقصود
ہر نفس پر ہو ربطِ غیب و شہور
ساری دنیا کو غیب کی ہے تلاش
ہے یہی انتظار کچھ ہو فاش
غیب سے متصل ہیں کچھ بندے
جسم عالم میں دل ہیں کچھ بندے
مدعا جس کا ہے ظہورِ امامؑ
مقصدِ حق کا ہے یہی اِتمام
مرضیٔ حق، بصیرت احمدؐ
فاطمہؑ کے سکوت کا مقصد
انتظارِ ظہورِ امرِ الٰہ
حاصلِ لا الٰہ الَّا اللہ
(حوائے عالمِ عقلی)
٭٭٭
جس کا اپنا وقت ہو اور جس کو اپنا انتظار
ہے وہی قائمؑ جسے حق نے دیا مطلق قیام
پھر اضافت ہے اگر بدلے مکاں بدلے زماں
لا مکاں ہے عصر کا حاکم زمانے کا امامؑ
اے الٰہی شانِ غَیبت آپؑ ہیں رُوحِ دُرود
اے محمدؐ کی حقیقت آپ ہیں عینِ سلام
(وقت)
تعقل اور تخیل کے اجتماع کی بہترین مثال ”صبحِ قریب“ ہے جہاں الٰہی اصول ایک کائناتی تنزیل کے ساتھ امام آخر الزّماں کے خصوصی اوصاف و کمالات میں ایک ایک کر کے منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس نظم میں ایسا بہاؤ ہے کہ معنی تخیل ، احساسات اور جذبات سب ایک دوسرے میں پورے پورے سما گئے ہیں۔ خالص مذہبی نظم کیسی ہوتی ہے، ”صبح قریب اس استفسار کا مکمل جواب ہے۔ ویسے ”شاخِ مرجان“ کی تمام ہی نظمیں مذہبی themes پر مبنی ہیں اور ایک خاص نوع کی مذہبی شعری روایت کی طرح تاریخ اور تخیل کو ہم آمیز کرتی ہوئی اپنے معتقدات میں تجربہ بننے کی قوت بھی داخل کرتی ہیں۔ مذہبیت طرزِ احساس، اسلوب، تصویر اور انداز بیاں میں اگر رُوحانی الاصل ہو تو اس کی تمام حرکت تنزیہی یعنی صورت سے حقیقت کی طرف ہوتی ہے، جس کے بڑے نمونے متصوّفانہ شاعری میں کثرت سے دستیاب ہیں لیکن یہی مذہبیت اگر تعقل اساس ہو تو اس کی کُل حرکت تشبیہی یعنی حقیقت سے صورت کی طرف ہوتی ہے۔ علّامہ رشید ترابی چونکہ مذہبیت کو تعقل پر اُستوار رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں، لہٰذا ان کے تمام مذہبی معارف میں اصول کی حیثیت دلالتوں کی سی ہے اور مظاہر کی مدللوں کی سی۔ اس معاملے میں عجیب بات ہے کہ اقبال سب سے آگے ہیں، گو کہ وہ مذہبی شاعر ہر گز نہیں ہیں۔
علّامہ رشید ترابی کا یہ تخیل مذہبیت کو ایک تہذیبی قوت بنانے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ یہ گویا نفسِ مذہب اور نفسِ تہذیب کو انسانی باطن کی تمام گہرائیوں میں ایک کر دینے کی وہ صلاحیت ہے جو مذہب کا محض قانونی تصوّر رکھنے والے دماغ کو میسر نہیں آتی۔ ویسے علّامہ بھی مذہب کی اصولی ساخت کو قانون سے جدا نہیں سمجھتے لیکن مذہبیت ایک انسانی ملکہ ہے جو مذہب کے ساتھ وابستگی کا نفسیاتی اور تہذیبی مظہر ہے ۔ ایسا نہ ہوتو یہ وابستگی لائقِ اعتبار نہیں رہے گی ۔ ”شاخِ مرجان“ کی نظموں میں علّامہ رشید ترابی نے اپنے تصور عقل کو خوب شرح وبسط سے بیان فرمایا ہے۔ اس تصوّر کی اکثر بنیادیں کلامی ہیں لیکن عقل کے باطنی کردار کو جس طرح اس کی کلامی ساخت میں کھپایا گیا ہے، وہ واقعی خاصّے کی چیز ہے۔ اس پر مزید بات بعد میں کریں گے، ابھی تو کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں :
سیرِ عقلِ بشر رہِ تشبیہ
عقل چُپ ہے جہاں ہوئی تنزیہہ
یہی توحید ہے کہ وہم نہ ہو
خالق فہم اسیرِ فہم نہ ہو
عقل خاموش علم بھی خاموش
وحی کا منتظر خودی کا ہوش
(توحید)
*****
ہے جو تعریفِ عقل میں اشکال
عقل اور دل میں چاہتے ہیں جدال
تابعِ وحی بن کر عقلِ بشر
عشقِ حق بن گئی ہے سر تا سر
(عقل و جہل)
ان اقتباسات سے واضح ہے کہ علّامہ رشید ترابی عقل کو دو ذرائع سے علم حاصل کرنے والی قدرت کہتے ہیں۔ نظر سے محسوسات کا علم اور خبر سے خالق کی معرفت۔ تعقل کا مقصودِ اصلی یہ ہے کہ شہود کے علم کو غیب کے علم سے مربوط رکھا جائے ۔ اس مقصود کو عقل وحی کی دی ہوئی اُس قوت سے حاصل کرتی ہے جو فی الاصل قلب کو ملتی ہے اور اس کی تحویل میں رہتی ہے۔تعقل کا یہ درجہ حاصل ہو جائے تو غیب موردِ یقین بن جاتا ہے اور اس یقین کی طاقت نعـ سے اس طرح کے معجزانہ معارف اظہار میں آتے ہیں ۔ الـحـق محسوس والخلق معقول (شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی ) یعنی حق یقینی ہے اور خلق اعتباری۔
جی چاہتا ہے کہ عقل کے بارے میں کہے گئے ان اشعار کو سیر کر کے دیکھا جائے کہ ان میں کیسے کیسے نکات اتنے سبک اور رواں ہو کر بیان ہوئے ہیں۔
ا۔ ” سیرِ عقل بشر …“: عقل کی حرکت کا رُخ صورت سے معنی کی طرف ہوتا ہے۔ یہ فطری قانون ہے اور عقل اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔ اس لیے عقل کی کُل کائنات دائرۂ تشبیہ ہے، یہ اس سے باہر نہیں نکل سکتی۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہاں صورت اور تشبیہ سادہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ خاص اصطلاحیں ہیں۔ ان کا مطلب ہے: ”حق کا ظہور مختلف تعینات میں! “یہ تعینات خارجی بھی ہیں اور علمی بھی۔ خود تعین ”صُورت“ ہے، اور اس میں واقع ہونے والا ظہور ، ”تشبیہ“ عقل چاہے محسوسات یعنی خارجی تعینات میں برسرِ عمل رہے یا معقولات یعنی علمی و ذہنی تعینات میں سرگرمی دکھائے ، دونوں حالتوں میں یہ تشبیہ کے حدود میں رہے گی، اور اس کا سفر صورت سے شروع ہوگا اور صورت ہی پر تمام ہوگا۔ دوسری طرف ذات حق کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی حد سے محدود ہے، نہ کسی شرط سے مشروط ۔ وہ اپنے ہر ظہور سے ماورا اور ہر تعین سے پاک ہے۔ اس مطلق ماورائیت کو تنزیہ کہتے ہیں۔ اس مرتبے میں ذاتِ حق کو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گویا حق کے دو اصول ہیں: پہلا تشبیہ جو معرفت کا ماخذ ہے، اور دوسرا تنزیہ، جو ایمان کا موضوع ہے۔ تشبیہ میں ”نظر“ یعنی عقل درکار ہے اور تنزیہ میں خبر یعنی وحی ۔ نظر سے معرفت کا عمل آغاز ہوتا ہے اور خبر سے تکمیل کو پہنچتا ہے۔ علّامہ فرمایہ رہے ہیں کہ معرفتِ حق کے باب میں عقل ، وحی کے تابع ہے اور یہ معرفت اپنی ماہیت میں ایمانی ہے نہ کہ عقلی ۔ تاہم عقل تابعِ مہمل نہیں ہے، اس سارے عمل میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ عقل کی رہ نمائی کے بغیر شعور تنزیہ کی ضرورت کا دُھندلا سا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ تنزیہ کی منزل راہِ تشبیہ پر چل کر ہی ہاتھ آتی ہے۔ کیا خوب فرمایا ہے ابنِ عربی نے کہ صرف تشبیہ شرک ہے اور محض تنزیہ، کفر ۔
۲۔ ” یہی توحید ہے…“: توحید ، وہم اور فہم اس شعر کے کلیدی کلمات ہیں۔ انھیں سمجھ لیا جائے تو پورا شعر کھل جائے گا۔ توحید: اُس وحدت کا اثبات جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور تشبیہ کے دائرے سے باہر ہے۔ ”وہم“: عقل محسوسات پر بھی تصرف کرتی ہے اور معقولات پر بھی۔ پہلا تصرف تخیل ہے جوصورتیں ایجاد کرتا ہے اور دوسرا توہّم جو معانی گھڑتا ہے یا انھیں صورت دیتا ہے۔ فہم سمجھ ، ادراک ….. جس کے ذریعے سے عقل کسی بات یا کسی تصور یا کسی چیز یا کسی تجربے کی اصل تک پہنچتی ہے، اُس کا احاطہ کرتی ہے اور اُسے متعین کرتی ہے۔ ویسے خود عقل کو بھی فہم کہہ دیا جاتا ہے، اس شعر میں یہ قرینہ بھی موجود ہے۔ یہ اشارات ذہن میں رہیں تو شعر بالکل صاف ہے۔ عقل خلقتاً احاطہ جُو اور احاطہ خُو ہے، جبکہ اللہ کی وحدت ذاتی احاطہ قبول نہیں کرتی ۔ اسی لیے تو حید کوئی تصور نہیں ہے جو عقل تشکیل دیتی ہے، بلکہ تیقن ہے جو ایمان فراہم کرتا ہے۔
اے بروں از وهم و قال و قیلِ من
خاک بر فرقِ من و تمثيلِ من
(رُومی)
۳-” عقل خاموش …“: کیا دم بخود کر دینے والا شعر ہے! بلند ترین معانی سے چھلکتی ہوئی یہ امیج اتنی خالص ہے کہ دیکھنے والے کے اندر شدت سے یہ داعیہ اُبھرتا ہے کہ وہ پہلے خود کو خود سے پاک کرلے، پھر اس منظر کی طرف نگاہ اُٹھائے۔
مژه برهم مزن تا نشکنی رنگ تماشا را
(بیدل)
یوں لگتا ہے جیسے کچھ بھی نہیں ہے، بس ایک بندہ ہے جو لا زمانی ٹھہراؤ اور لا مکانی پھیلاؤ میں اپنے رب کے حضور میں مراقب بیٹھا ہے، اور اپنے ہونے کی کیفیت سے سرشار اور اپنی ہستی کی تکمیل پر کمر بستہ اُس چراغِ قدیم کے روشن ہونے کا انتظار کر رہا ہے جس کی چمک غیب در غیب مار کرتی ہے۔ یہ وہ مقام قرب ہے جس میں بار پانے والا عقل اور علم کو نعلین کی طرح چوکھٹ پر ہی چھوڑ جاتا ہے۔ لیکن بہر حال یہ نعلین بھی ایسے ہیں کہ ان کے بغیر یہاں تک پہنچا نہیں جاسکتا تھا۔
خیر یہ تو تاثراتی باتیں تھیں ، اب اس شعر کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مضمون یہ ہے کہ ذاتِ حق ماورائے زمان و مکاں ہے، اس لیے اُس کی یکتائی کو وجود کے زمانی مکانی ماحول میں پائی جانے والی وحدت کے حوالے سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ تعقل کا کوئی عمل ، زمانیت اور مکانیت کو اپنے اندر سے خارج نہیں کر سکتا اور عقل کے تمام حاصلات، حتیٰ کہ مجرّد تصورات بھی، اس جبر کو توڑ نہیں سکتے۔ علم، یعنی عقل کی کاوشوں سے جمع ہونے والے ذخیرے میں ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو زمانی مکانی نہ ہو۔ مثال کے طور پر عقل وجودِ محض یا عدمِ محض کی قائل ہو کر بھی اس کا کوئی تصور قائم کرنے سے قاصر ہے۔ صرف اس لیے کہ دونوں میں وقت مفقود اور مکاں ناپید ہے۔ عقل خود مختاری اور خود انحصاری کے ساتھ فقط انھی اہداف کی طرف پیش قدمی کرتی ہے جو زمانے میں ہوں اور مکانی ہوں۔ وجود کے لا زمانی اور لا مکانی مراتب کو عقل مان تو سکتی ہے مگر دیکھ کر نہیں ، سوچ کر نہیں بلکہ صرف سُن کر ۔ اُسے یہ درجۂ سماعت جس وسیلے سے میسر آتا ہے، وہ قلب ہے۔ لیکن قلب اور عقل کے تعلق پر آگے کسی مناسب موقع پر کلام کریں گے، یہاں بس اتنا ہی کافی ہے۔
گفتگو یہ چل رہی تھی که عقل جس وحدت سے مانوس ہے وہ ایک تو عددی ہے، دوسرے کثرت ہی کی ایک فرد ہے، اور تیسری بات یہ ہے کہ وحدت وہ تصوّر ہے جو اپنے مصداق پر تقدّم اور اوّلیت رکھتا ہے۔ اُدھر توحید کی بنیاد ہی اس اصول پر ہے کہ وحدت ذاتی ہے، اس کے تقابل میں کثرت معدومِ محض ہے اور اللہ وحدت سے واحد نہیں ہے بلکہ اُس کا واحد ہونا خود وحدت پر مقدّم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پورا اصول ہی تعقل کے بنیادی مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ اس صورتِ حال میں انسانی شعور محتاج ہے کہ ”نظر“ کو ایک طرف کر کے عرفانِ وحدت کے لیے ”خبر“ پر انحصار کرے۔ ”خبر“ جو شعور کے وہ مطالبات پورے کرتی ہے جو ذہنی سے زیادہ وجودی ہیں۔ یعنی یہ تقاضے پورے نہ ہوں تو عقل ہی ناقص نہیں رہے گی، انسانیت کا جو ہر باطل ہو جائے گا۔ علّامہ رشید ترابی نے اس بات کو ایک عجیب رُخ دے دیا ہے:
وحی کا منتظر خودی کا ہوش
ایک ایسے ماحول میں جہاں عقل خاموش ہے ، علم خاموش ہے … وہاں یہ خودی کیا شے ہے جو پوری طرح ہوش میں ہے اور بر سرِ عمل بھی! امگر ٹھہریں، ذرا یہ تو دیکھیں کہ وحی کی منتظر ، خودی نہیں ہے بلکہ خودی کا ہوش ہے۔ اس سے معنی کی کئی طرفین پیدا ہوگئی ہیں جو ایک ساتھ گرفت میں نہیں آتیں۔ اس کثیر المعنویت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ہی دیکھنا ہوگا۔
(الف): اس شعر میں ”خاموش“ کا لفظ بہت اہم ہے اور اپنے تمام مفاہیم میں استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس کثیر المناظر اور محیط المراتب امیج کی تشکیل میں مرکزی کردار اسی کا ہے۔ شعر کے تمام معانی اور اُن کی باہمی نسبتوں کا دارو مدار اسی لفظ پر ہے۔ اِس رُخ سے شعر میں جھانکنے کی کوشش کی جائے تو پہلی نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ خاموشی کے پھیلاؤ سے بننے والا یہ منظر وقت اور کائنات کی سمائی سے باہر ہے بلکہ ان کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے۔ اس کے چار کردار ہیں، دو بنیادی یعنی خدا اور انسان، اور دو ثانوی یعنی عقل اور علم۔ کردارِ اعظم یعنی خدا، منظر سے غائب ہے لیکن اس غیاب میں اتنی شدت ہے کہ وہ حاضر کرداروں سے زیادہ حاضر محسوس ہوتا ہے۔ ہر طرف چھائی ہوئی خاموشی میں ”خودی کا ہوش“ اور ” وحی کا انتظار“ خدائے غائب کے حضور کو اُبھار رہا ہے۔ یہ حضور ماورائے شہود ہے ، یعنی ”دید“ نہیں ہے بلکہ ”حال“ ۔ ایسے میں انسان اپنی حقیقت میں مجسّم ہو کر، اپنی بنیادی استعداد یعنی عقل و علم کے ساتھ اس ربانی حضور کو خود میں جذب کر رہا ہے، اور اس حال کو عقل و علم میں منتقل کرنے کے لیے وحی کا منتظر ہے۔ وحی جو اس حضور کو لفظ دیتی ہے!
(ب): اس تفصیل میں ایک نکتہ پوشیدہ ہے۔ انسان کو خودی اور اُس کا شعور پہلے ملا ہے اور عقل و علم بعد میں عقل و علم کی خاموشی کا یہاں یہ مطلب ہے کہ فی الحال خالی پیالوں کی طرح ہیں جنھیں بھرنے کا عمل ابھی شروع ہونا ہے۔ انسان کی اوّلین خود شعوری پر وحی کا نزول ہو گا تو ان کے اسبابِ وجود فراہم ہوں گے ، یعنی جہاں شناسی ، خودشناسی اور خدا شناسی۔ جوہری طور پر خداشناسی ، خود شناسی کے حال میں داخل ہے، اُس میں تعقل کا عنصر اُس وقت شامل ہوتا ہے جب عقل جہاں شناسی کا بار اٹھانے کے قابل ہو جاتی ہے جو اُس کی اصل ذمّے داری ہے۔ علّامہ رشید ترابی نے اِسی نظم میں یہی حقیقت ایک جگہ اس طرح بیان کی ہے:
ہے تعقل نظامِ کُل کی حیات
ہے اِسی عقل سے بشر کا ثبات
وحیِ رب ہے کہ ہر نفس یہ بشر
عقل سے کام لے اگر ہے نظر
ربطِ اشیا کو عقل سے جانے
وحدتِ باطنی کو دل مانے
(ج) : اسی منظر کو تمام کرداروں سمیت ایک مختلف locale میں دیکھا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ تمام کائناتی مقاصد حاصل کر لینے کے بعد آدمی اپنے سب سے مضبوط اور مستقل سوال کے رو برو آ جاتا ہے کہ میرا اور کائنات کا خالق و مالک کون ہے؟ جس عقل و علم .. نے کائنات کو مسخر کیا تھا، اُن کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ زمین و آسماں کی ہر گتھی سلجھا دینے والی قوت یہاں بالکل بے بس ہے۔ ایسے میں وہ شعور بیدار ہو جاتا ہے جو آدمی کو علمِ کا ئنات سے نہیں بلکہ عرفانِ ذات سے میسر آیا ہے۔ اُس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ معرفتِ خداوندی کی منزل کے رُخ پر چلنے کے لیے وہ طاقت درکار نہیں ہے جو سیر آفاقی میں کام آتی ہے، اس کے لیے وہ قوت چاہیے جو سیرِ انفسی کے مراحل اور مقامات طے کرتی ہے۔ خودی کا ہوش وہی قوت ہے جس کی کار فرمائی سے انسان میں معرفتِ حق کی اقلیم میں داخلے کی قابلیت پیدا ہوتی ہے۔ یعنی شعور کو وحی کی ضرورت کا ادراک اور حقائقِ وحی کے ساتھ مناسبت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہیں سے ایمان اساسِ تعقل اور اصلِ علم بنتا ہے۔
(د): اس شعر میں ایک عرفانی تھیوری بیان ہوئی ہے ۔ خودی کا شعور ہی خودی ہے۔ یعنی خودی کی حقیقت اُس کے وجود میں نہیں ہے بلکہ اس شعور میں ہے جو خودی کا عین بھی ہے اور اس سے ماور ابھی۔ اس نکتے کو ٹھیک سے سمجھ لیا جائے تو صوفیہ کے تصوّرِ فنا پر وارد ہونے والا ہر اشکال رفع ہو سکتا ہے۔ اُلوہی خودی کے تقابل میں انسانی خودی کا وجود باطل ہے، شعور حق ہے۔ یعنی نہایت حضور میں انائے ربّانی وجود کے ساتھ ہے اور انائے انسانی وجود کے بغیر ۔ وحی کا منتظر بھی خودی کا شعور ہے نہ کہ وجود۔ عقل اور علم چونکہ وجود کا اثبات کرتے ہیں لہذا یہاں وہ خاموش ہیں ، یعنی معطّل، بے مصرف اور غیر متعلق۔
۴۔ ”ہے جو تعریفِ عقل …“: یعنی عقل کی ہر وہ تعریف ناقص اور غلط ہے جس میں اس کے ایمانی جوہر کا اثبات نہ پایا جائے۔ جس طرح عقل کی طبیعی کار کردگی کا انحصار حواس پر ہے، اس کی مابعد الطبیعی جہت دل پر موقوف ہے۔ عقل و دل میں جدال دراصل عقل کو بے اصل کرنے کا عمل ہے۔ دل سے منقطع ہو کر تعقل کا فوق الحسی مادّہ سلب ہو جائے گا جو عقل کا حقیقی امتیاز ہے۔ مزید یہ کہ عقل و قلب کا نصب العین واحد نہ رہے تو شعور کی وحدانی ہئیت وجود میں نہیں آسکتی جس کے بغیر عقل بھی بے معنی ہے اور قلب بھی بے حقیقت۔ ان دونوں کی باہمی نسبت ہی شعور کی تمام انواع کو متحد اور ان کے حاصلات کو مر بودا رکھتی ہے۔ یہی اتحاد وارتباط وجود کے اُس مرکز میں جان ڈالتا ہے جس کی کارفرمائی سے کبھی منتشر نہ ہونے والی یکسوئی انسان کے متنوع تصورات و احساسات کا مشترک اور مستقل حال بن جاتی ہے۔
۵۔ ”تابعِ وحی بن کے…“: مذہبی تناظر میں یہ ایک عام سا مضمون ہے اور مسلمات میں داخل ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی ایسی کشش بھی بھی نہیں رہی کہ ذہن ٹھٹھک کر متوجہ ہونے پر مجبور ہو جائے۔ ایسے مضامین رسمی انداز میں بس سن لیے جاتے ہیں، اور ان کی زیادہ سے زیادہ داد یہی دی جاسکتی ہے کہ صحیح فرمایا! ہاں عقل کی رعایت سے ”سرتا سر“ پُر لطف ہے مگر ایسی رعایتیں عموماً اتفاقی ہوتی ہیں، ان میں صناعی کا دخل نہیں ہوتا۔ تا ہم یہاں یہ شعر ایک مربوط تصورِ عقل کے تکمیلی مرحلے کا بیان ہے۔ مذہبی منطق سے صرفِ نظر کر کے بھی کہا جاسکتا ہے کہ شعورِ انسانی اپنی مجموعی ساخت میں ایک ایمانی ملکہ ہے۔ اُس کی تمام تر فعلیت ایسے یقین کے حصول کے لیے ہے جو کبھی زائل نہ ہو۔ ایسا یقین ظاہر ہے کہ عقل کی استعداد اور مظاہر پر انحصار سے میسر نہیں آسکتا۔ عقل اور مظاہر کی نسبت سے حاصل ہونے والا علم اپنی ساخت میں نا مکمل ہوتا ہے اور اس علم کا معلوم بھی اُس وجودی کمال اور استقلال سے عاری ہوتا ہے جو شعور کے داعیہ تیقن کی تسکین کے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے حقائق یعنی کامل الوجود معلومات کی بناوٹ نظر کی نہیں بلکہ خبر کی ہوتی ہے، اور شعور کے ساتھ ان کی نسبت حصول کی نہیں بلکہ قبول کی ہوتی ہے۔ غالباً یہ کہنا ضروری نہیں کہ وہ موجب یقین خبر ، وحی کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتی۔
مختصر یہ کہ شعور کی سیرابی ، وجود کی سیرابی ہے۔ مطمئن شعور سے تشکیل یا کر عقل سیراب وجود کا حال بن جاتی ہے۔ یہی عشق ہے بلکہ کمالِ عشق ۔
معنی اور کیفیت کی یکجائی کے اس ماحول میں سرتا سر کی رسمی رعایت بھی بلیغ اور تہ دار ہوگئی ہے۔ عقل سرتا سر عشق بن گئی ہے۔ یعنی عشق کا معروف گھر تو دل ہے لیکن عقل نے اپنا گھر دے کر”سر“ کو بھی اُس کی منزل بنا دیا۔ ایک نکتہ یہ بھی نکلتا ہے کہ عقل کے عشق بن جانے کا عمل ایک سر سے دوسرے سر تک پھیلتا جا رہا ہے۔ عقل محض خیال نہیں رہی بلکہ حال بن گئی ہے۔
خود قیامت شو، قیامت را ببیں
دیدنِ ہر چیز را شرط است ایں
علّامہ رشیدؔ ترابی کی غزل کافتی تارو پود پختگی سے بنا گیا ہے۔شعروں کی بناوٹ، مضمون بندی اور معنی آفرینی کے سبھی عناصر کلاسیکی ہیں اور ایسی محکمی رکھتے ہیں کہ فن کے جدید معیارات ان پر کارگر نہیں ہو سکتے۔ ان کا کرافٹ سب سے پہلے مضبوطی کا تاثر دیتا ہے اور اس کے بعد اپنے مضمون کی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ تاہم بعضے اشعار میں معنویت سازی کا عمل اسلوب کی صفائی کے باوجود اتنا نا در اور پیچیدہ ہے کہ اسے کھولنے کے لیے جدید ادبی تھیوری سے مدد لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً:
دُعائیں دیتی ہوئی بیکسی بڑھی آگے
کِیا جو برق نے جھک جھک کے آشیاں کو سلام
کانٹا کوئی چبھے تو اکیلا نہ جانیے!
ایک اِس خلش میں وحشتِ صحرا شریک ہے
٭٭٭
نگاهِ لطف جو مجھ پر تھی بزم میں تو کہا
یہ اِک چراغ زیادہ جلا ہے اب نہ جلے
٭٭٭
ہر آن خوشی کی جستجو میں
غم کا غم سے مقابلہ ہے
٭٭٭
پھر اُس کو غرض کیا ہے بہارِ گزراں سے
جس پھول کی تکمیل ہوئی زخمِ خزاں سے
٭٭٭
پہلے شعر کو مفہوم بنانے کا ہر عمل اس المیاتی معنویت کو غارت کر دے گا جو دماغ کی گنجائش فہم سے زیادہ بھی ہے اور مختلف بھی ۔ آپ میں سے اکثر لوگوں نے Edward Munch کی شہرۂ آفاق تصویر The Cry دیکھی ہوگی ، بس وہی اس شعر کا مطلب ہے۔ یہ شعر قاری کو ایک ایسے تجربے سے گزار دیتا ہے جس میں ذہن کو الگ سے کام کرنے کا کوئی موقع نہیں۔ یوں بھی جمالیاتی حقائق مفہومی ہئیت اختیار کرنے سے اِبا کرتے ہیں۔ تجربے میں شدت اور پورا پن ہو تو وہ ماورائے فہم ہو جاتا ہے اور معانی کو تصورات نہیں رہنے دیتا بلکہ احوال بنا دیتا ہے۔ اس شعر کا دوسرا کمال یہ ہے کہ اس میں ایک غیر مفہومی معنی بالکل معاشرتی پیرائے میں ظاہر ہوا ہے جس سے قاری کی مفہوم جُوئی کا داعیہ اور کمزور پڑ جاتا ہے۔ تہذیبی اور معاشرتی اوضاع انسان کو بعض بلند ترین معانی کی شرطِ قبولیت سے طبعاً مانوس کر دیتے ہیں۔ جیسے اس شعر میں دعائیں دینا اور جھک جھک کر سلام کرنا پڑھنے والے کو تیار کر دیتا ہے کہ وہ اس معنی کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کرے، ہجے کر کے سمجھنے کے چکّر میں نہ پڑے۔ مختصر یہ کہ معنی کی تاثیر، معنی کی تفہیم سے بڑی چیز ہے۔ اس سے معنی کا حضور حاصل ہوتا ہے جو ہم سے بہت بلند درجہ ہے۔
دوسرے شعر میں ایک عجیب کیفیت کا اظہار ہوا ہے۔ انسان اور کائنات ایک ٹریجک ہم وجودی رکھتے ہیں۔ آدمی کائنات کے منتشر المیے کو وحدت دیتا ہے ۔ کائنات کا المیاتی پھیلا ؤ انسان ہی کی ذات سے وہ ارتکاز حاصل کرتا ہے جس کے بغیر پورا کارخانۂ وجود خود انحرافی کی طغیانی میں بہہ جاتا۔ اگر انسان نہ ہوتا تو ہستی و کائنات کا وجودی آشوب، بے معنی ، بے تاثیر اور بے اصل رہ جاتا۔ مختصر یہ کہ جس وجود سے انسان اور کائنات دونوں موجود ہیں، اس کا تانا بانا غم سے بُنا گیا ہے۔ حقیقت الحقائق سے جدائی کا غم … جس سے مثنوی مولانا روم کا آغاز ہوتا ہے:
بشنو از نے چوں حکایت می کند
از جدائی با شکایت می کند
تیسرا شعر بھی عجیب ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ عاشق کے جلنے کو اس طرح چراغ کے جلنے سے تشبیہ دی گئی ہو۔ عاشق بزمِ محبوب کا چراغ ہے اور اس کا جلنا دو مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے۔ ایک سوزِ مفارقت کا اظہار اور دوسرے حُسن کے اسبابِ ظہور کی فراہمی۔ یعنی یہ چراغ بجھ جائے تو روایتِ ہجر فنا ہو جائے گی اور روایت جمال معدوم ۔ اس کا جلنا ہجر کا بھی حق ادا کرتا ہے اور وصال کے امکان کو بھی روشن رکھتا ہے۔ ”اب نہ جلے“ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس چراغ کو بجھا دیا جائے ، بلکہ یہاں بطور ایہام اس سے مراد ہے: اب نہ کُڑھے یا ان رقیبوں سے مزید حسد میں مبتلا نہ رہے جو اسی کے افشائے حُسن پر جمع ہوئے ہیں۔ غرض کمال کا شعر ہے۔
چوتھا شعر واقعتاً Surrealistic ہے۔ معنی اور کیفیت دونوں اتنی قوت سےactualize ہوئے ہیں کہ نہ محسوس کرنے کی ضرورت سر اٹھاتی ہے نہ سمجھنے کی خواہش ابھرتی ہے۔ ایک مکمل انفعال ہے جس نے احساس و ادراک کوشل کر رکھا ہے۔ انفس ہوں یا آفاق، دونوں ایک المیہ کھیل کے کردار ہیں اور ایک مدہوشی کی حالت میں اپنے اپنے کردار ادا کیے جارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے علّامہ صاحب نے یہ شعر Waiting for Godot پڑھ کر کہا ہے۔
پانچویں شعر میں ایک مذہبی مضمون کو روحانی اور عرفانی بلندیوں تک پہنچایا گیا ہے۔ وہ مضمون یہ ہے کہ فانی وجود نظامِ فنا سے نہ شا کی ہوتا ہے نہ اس پر قانع رہتا ہے۔ اور محکم کر کے کہا جائے تو اس کا بنیادی مضمون یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مومن موت سے محبت کرتا ہے اور دنیا سے بے رغبت رہتا ہے۔ دیکھیے اس مذہبی اور اَخلاقی قدر کو کیسی جمالیاتی رنگینی اور فلسفیانہ تہ داری کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ بہارِ گزراں ، یہ زندگی اور دنیا ہے۔ پھول قلب آدم ہے، خزاں معدومیت ہے اور زخمِ خزاں معدومیت کا وہ داعیہ ہے جس کی بنیاد پر انسان کو معدوم الاصل کہا جاتا ہے۔ یعنی وجود انسانی کی تکمیل اس کی معدومیت اصلی کے مسلسل ظہور اور اثبات پر منحصر ہے۔ اس معدومیت سے مشابہت رکھنے والا ہر تصور اور تجربہ اس کی وجودی توسیع اور تکمیل کرتا ہے۔
ان چند مثالوں سے اتنا تو واضح ہو گیا ہو گا کہ ”شاخ مرجان“ کی غزلوں میں معنی آفرینی کا عمل خاصا دقیق اور تہ دار ہے۔ معنی کی مفہومی بُنت سے لے کر اس کی حضوری ساخت تک ، تمام مراحل کو چابکدستی سے سر کیا گیا ہے۔ کچھ اور شعر بھی دیکھ لیجیے:
اے گزرتی ہوئی دنیا سے لپٹنے والے
کیا گِلہ ہے جو تِری آبلہ پائی نہ گئی
دُنیا اور دُنیا طلبی کی مذمّت متصوّفانہ اور اَخلاقی شاعری کا مستقل مضمون رہا ہے۔ شاید ہی کوئی شاعر ہو جس نے اس پر طبع آزمائی نہ کی ہو۔ اس مضمون کو نئے استعاروں اور نئے لہجے میں تو آج بھی باندھا جاسکتا ہے مگر ایک بالکل ہی نیا معنوی دروبست، کیفیاتی تار و پود اور تمثالی سیاق و سباق دینا تقریباً ناممکن تھا۔ اس شعر میں دنیا طلبی کا مضمون اَخلاقی سے جمالیاتی ، جمالیاتی سے فلسفیانہ اور فلسفیانہ سے رُوحانی پھیلاؤ اختیار کر لیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ معنی میں نمو کی تیز رو دوڑ رہی ہے۔ بیج دیکھتے ہی دیکھتے درخت بن گیا ہے، اور کمال یہ ہے کہ یہ شعر بیج سے درخت بننے کے کسی ایک مرحلے میں متعین ہونا قبول نہیں کرتا۔ اسے بیج کہیں تو غلط ، درخت کہیں تو غلط ۔ یہ شعر تقاضا کرتا ہے کہ اس کی معنوی حرکت اور درجہ بدرجہ منتقلی کے پورے عمل کا ایک نظر میں احاطہ کیا جائے۔ ویسے اس کا اخلاقی مطلب ہے کہ دُنیا کے طالب کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ جمالیاتی حُسن یہ ہے کہ لفظی مناسبتیں پختہ و دقیق ہیں اور امیج لفظوں سے ہم آہنگ ہو کر متحرک اور ڈرامائی ہے۔ فلسفیانہ معنی یہ ہے کہ انسان کا وجود ہستی کے مادّی قوانین کا پابند ہو کر اپنی تکمیل کے امکان سے محروم ہو جاتا ہے، اور روحانی نکتہ یہ ہے کہ انسان کی منزل اُس کے اندر ہے، باہر نہیں۔ کسی مشہور صوفی غالباً خواجہ عبید اللہ احرار کا قول ہے کہ ”ہم جو دیکھتے ہیں اپنے اندر دیکھتے ہیں ، ہم جو پاتے ہیں اپنے اندر پاتے ہیں“ اور بیدل کا یہ شعر تو شاید کسی کے لیے اَن سُنا نہ ہو:
ستم است اگر ہو ست کشد که بسیرِ سرو و سمن در آ
تو ز غنچه کم ند میده ای درِ دل کشا به چمن درآ
٭٭٭
اپنی حد تک ہے رُوحِ گلشن
جو پھول جہاں کہیں کھلا ہے
یہ مضمون بھی پرانا بلکہ پامال ہے۔ ایسے مضامین غزل کی رسمی روایت نبھانے کے لیے باندھے جاتے ہیں، عموماً ان میں کوئی جان نہیں ہوتی ۔ ہاں سو پچاس برس میں کوئی زنده شعر سامنے آجاتا ہے اور بعد کی کچھ نسلوں کے لیے تُک بندی کا جواز پیدا کر جاتا ہے۔
مثلاً غالب کا ایک شعر دیکھئے اور پھر اقبال کا:
ہے رنگ لالہ و گلِ نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
٭٭٭
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں
مضمون ایک ہے لیکن غالب نے معجزہ کر دکھایا ہے جبکہ اقبال نے محض خانہ پُری کی ہے۔ اس تقابلی پس منظر میں دیکھیں تو رشید ترابی صاحب نے اس عام بلکہ بدنام مضمون میں معنی کی کچھ تازہ جہتیں داخل کر کے ایک زندہ شعر نکالا ہے۔ ”اپنی حد تک“ یعنی اپنی بساط بھر ، اپنے وجودی حدود کے اندر اندر اپنی تعریف (Defination) سے تجاوز کیے بغیر۔ ”روحِ گلشن“ یعنی ہستیِ کائنات کا سبب، عالمِ ظہور کی متّصل حقیقت ۔ ” پھول“ یعنی نوعِ وجود کا ایک فرد + عالمِ کثرت میں وحدت کا جزوی مظہر جو خود واحد نہیں + سلسلۂ ظہور کی ایک کڑی۔ یہ سب معانی اس شعر میں بہ یک وقت پائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی انھیں جوڑ کر دیکھ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ”جہاں کہیں“ کا ٹکڑا بتا رہا ہے کہ یہ گلشن عالمِ ظہور ہونے کی وجہ سے مکانی تو ہے مگر غیر محدود، اور زمانی تو ہے مگر نا مختتم۔
یہ تو ہوا اس شعر کا عارفانہ تناظر ۔ اب ذرا فلسفیانہ پہلو سے دیکھئے۔ ملّاصدرا کا مشہور نظر یہ ہے کہ وجود کلیِ مشکک ہے یعنی وجود حقیقت ہے جو موجودات میں کسی پر زیادہ وارد ہوتی ہے اور کسی پر کم ۔ جیسے دریا میں بھی وہی پانی ہے جو کوزے میں ہے لیکن پانی کی حقیقت دریا میں شدت سے پائی جاتی ہے اور کوزے میں ضعف کے ساتھ ۔ ہر چیز میں حقیقت کو قبول کرنے کی صلاحیت الگ الگ ہے۔ کسی میں کم ہے کسی میں زیادہ۔ حقیقت کا اطلاق اسی کے مطابق ہوگا۔ گو کہ ملّائے موصوف نے اپنے تمام بنیادی نظریات کی طرح یہ نظریہ بھی ابنِ عربی ہی سے لیا ہے مگر اس میں اپنی عقل استعمال کر کے اسے بگاڑ دیا ہے۔ کلیِ مشکک ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ تو امرِ عام ہے جس کا تجزیہ اور درجہ بندی ایک مہمل بات ہے۔ لیکن خیر کلیِ مشکک ہو یا غیر مشلک ، ہمیں سر دست سے اس سے کچھ نہیں لینا۔ ہم تو زیر نظر شعر کا یہ کمال دکھانا چاہ رہے تھے کہ اس میں علّامہ رشید ترابی نے ”اپنی حد تک“ اور ” جہاں کہیں“ کے دو سادہ سے ٹکڑوں میں کلی کو جمالیاتی زور سے مشلک ثابت کر دیا ہے۔ گویا عقلی کمزوری کا جمالیات کی قوت سے ازالہ کر دیا ہے۔ اگر یہ کمال نہیں تو کمال ایک بے معنی لفظ ہے۔
اے رسمِ حیات تھک گیا ہوں
اب کتنے نفس کا فاصلہ ہے
ایک منجمد مضمون کو کیسے زندہ کیا جاتا ہے؟ یہ شعر اس کا نمونہ ہے۔ صرف ایک لفظ کا تجزیہ ملاحظہ فرمائے۔ ”رسم“ بمعنی چلن جو خارجی اور اجتماعی ہے + عادت جو داخلی اور انفرادی ہے + راه + بے روح اور بے معنی رواج + ٹھپا جو کوئی دوسرا لگاتا ہے، یعنی جبر جس کی گرفت حرکت بھی نہیں کرنے دیتی۔ رسم کے ان سب معانی کو حاضر رکھ کر پڑھا جائے تو یه شعر غیر مبہم تہ داری کی ایک عمدہ مثال ہے جو ایک نادر اور مشکل ترین تکنیک ہے۔ مزید خوبی یہ ہے کہ ”تھک چکا ہوں“ نہیں کہا کہ شکایت یا بے بسی کا رنگ پیدا ہو، تھک گیا ہوں یعنی شکایت نہیں ہے بلکہ امر واقعہ ہے اور اتنی طاقت بہر حال موجود ہے کہ جب تک چلنا پڑے چلتا رہوں گا۔ گروں گا نہیں، گھسٹوں گا نہیں۔ یعنی زندگی کے حقوق پورے کرتا رہوں گا چاہے میرے ذوق بودن اور معیارِ ہستی کو نظر انداز ہی ہونا پڑے۔ دوسرے مصرعے میں تو بلاغت کی رُوح سمٹ آئی ہے۔ اب کتنے نفس کا فاصلہ ہے؟ یعنی اتنی جلدی ہے کہ باقی ماندہ فاصلے کو ایّام کے بجائے انفاس سے نا پا ہی نہیں جارہا ہے بلکہ نا پنے پر مجبور بھی کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے سوال سانسوں میں کیا جارہا ہے تو جواب برسوں میں تو نہیں آئے گا۔ دوسرے یہ کہ کتنے نفس کا جواب لاکھوں اور کروڑوں میں تو ہو نہیں سکتا۔ زیادہ سے زیادہ دس بیس ، سو پچاس ہی ہوگا۔ کیونکہ ایسے سوال کی رسم جواب یہی ہے۔ اب آخر میں ایک لفظ ایسا آتا ہے کہ صرف اس کی آمد سے پورا شعر رُوحانی معنویت کے دائرے میں ضم ہو جاتا ہے۔ فاصلہ یعنی جدائی اور دُوری۔ اس کو حیات کا اسمِ صفت بنا لیں تو مطلب ہوگا۔ جدا کرنے والی، دور رکھنے والی۔ کس سے؟ یہ بھی بتا دیا جاتا تو یہ شعر علّامہ رشیدؔ ترابی کا نہ رہتا، حفیظ جالندھری کا ہو جاتا۔
بہار میں بھی نہ تھا ناز دل کی قوت پر
خزاں کے دور میں بھی قلب مضمحل نہ ہوا
عجیب شعر ہے ۔ یہاں میں اسے ٹھیٹھ مذہبی شعر کے طور پر کھولنا چاہتا ہوں۔ مضمون یہ ہے کہ امامؑ ظاہر تھے تو دل کو اس قابل نہ سمجھا کہ اُن کے عشق کو پوری طرح خود میں سمو سکے بلکہ اُس عشق کو دل کا کارنامہ سمجھنے کی بجائے ہمیشہ انھی کی عطا سمجھا۔ اب امامؑ غائب ہیں تو وہی دل جو دید کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا، اُن کے انتظار کی قوت اور برکت سے زندہ و مستعد ہے۔ یعنی اُن کا حضور بھی دل کی زندگی ہے اور غیاب بھی ۔ اگر یہ مضمون ہی ان کنایوں سے ادا ہو جاتا تو بھی یہ اچھا شعر ہوتا ۔ لیکن بات یہیں تمام نہیں ہوتی ۔ ”بہار“ کو زمانۂ ظہور اور ”خزاں“ کو دورۂ غیبت کہنا بہت معنی خیز اور کیفیت انگیز ہے۔ ”ناز“ محبوب کا وصف ہے۔ کوئی سچا عاشق اسے خود سے منسوب نہیں کرسکتا۔ اور پھر یہ عشق محبوب کی عطا ہے، عاشق کے دل کی قوت نہیں ہے۔ دوسرے مصرعے میں مضمحل کا کلمہ نہایت بلیغ ہے۔ یعنی امامؑ اوجھل ہیں تو بھی اُن کی محبت پوری طرح مواج ہے۔ اُن کے دکھائے ہوئے راستے پر مستعدی سے چل رہا ہوں ۔ اُن کے بتائے ہوئے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہوں، اُن کے انتظار کو دل کی سب سے قیمتی متاع بنا رکھا ہے اور اُن کے ظہور کا پکا یقین ہے۔ یہی نہیں، ابھی قدرت کلام کا ایک جھما کا اور ہونا ہے۔ پہلے مصرعے میں ” دل“ اور دوسرے مصرعے میں ”قلب“ لانے کی وجہ یہ ہے کہ جس سے قوت کی نفی کی جائے وہ مرتبے میں اُس سے کم ہو گا جس کو اضمحلال سے پاک دکھایا جائے۔ قلب میں تعظیم اور تقدس زیادہ ہے اور دل میں کم ۔ اس لیے نا مضمحل قلب کو بتایا اور بے قوت دل کو۔ دوسرے یہ کہ دل حضور کے بغیر نہیں رہ سکتا جبکہ قلب کے لیے غیاب بھی حضور ہی کی ایک قسم ہے۔ غرض غور کرتے جائیں، نئے سے نئے پہلو دریافت ہوتے جائیں گے۔
یہ حال ہے گزشتہ اندھیرے بھی ساتھ ہیں
یہ ضد ہے شمع ہاتھ میں ہو اور بجھی ہوئی
پُر لطف شعر ہے۔ لفظی مناسبتوں اور رعایتوں سے چھلکا پڑ رہا ہے ۔ حال اور گزشته ، گزشتہ اور ساتھ ، حال اور ضد ، اندھیرے اور شمع ، اندھیرے ، ضد ، شمع … یہ سب الفاظ طرح طرح کی رعایتوں سے نظم ہوئے ہیں۔ دونوں مصرعے بہت چست ہیں اور اضداد کو قوت سے ابھارتے ہیں۔ غرض فنی لحاظ سے کامیاب شعر ہے، لیکن میں نے اسے بھی مذہبی شاعری کے دوسرے پہلو کے نمائندے کے طور پر نقل کیا ہے۔ پچھلے شعر میں علّامہ نے اپنا حال بتایا تھا اور اس شعر میں ہمارا حال دکھایا ہے۔ حُسنِ اظہار کی تاثیر دیکھیے کہ ایک انتہائی سخت بات کو بھی مخاطب کے لیے خوشگوار بنا دیا۔ کاش یہ خوش سلیقگی دوسرے مذہبی شعرا کو بھی نصیب ہوئی ہوتی ۔ اس طرح کی مورچہ بند شاعری میں دنیا کا کوئی شاعر شعراے امامیہ کے منہ نہیں آسکتا۔ ویسے یہ روایت دنیا کی کسی اور مذہبی شاعری میں پائی بھی نہیں جاتی۔ اس کے نفسیاتی اور عمرانی عوامل کا بالکل علمی اور فنی انداز سے تجزیہ کیا جائے تو بڑے دلچسپ نتائج برآمد ہوں گے ۔ بہر حال اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی شاعری کا ایک بڑا حصہ علیؑ مرکز ہے ۔ آپ کے حوالے سے شاعری کی دو مستقل روایتیں جاری ہو ئیں ۔ ایک روایت تو وہ ہے جس میں آنجنابؑ کی مدّاحی اور منقبت ہی سے سروکار رکھا گیا اور نتیجتاً دنیا کی عظیم ترین منقبتی شاعری وجود میں آئی جس میں ایسی ایسی عارفانہ اور عاشقانہ بلندیوں تک پرواز کی گئی جو دوسروں کے خیال میں بھی نہیں آسکتیں۔ مجھے فخر ہے کہ اس روایت کے تقریباً سارے ہی بڑے نام اہلِ سنّت کے ہیں۔ ابن الفارض، سنائی، رُومی، عراقی، نظامی، بیدل، خسرو، اقبال وغیرہ۔ یہ شاعری مذہبی نہیں ہے بلکہ روحانی اور وجودی ہے۔ دوسری روِش وہ ہے جہاں علیؑ کے دشمنوں کی سرکوبی کی جاتی ہے۔ اس اقلیم کی بادشاہی بلا شرکتِ غیرے شعرائے امامیہ کو حاصل ہے جنھوں نے علیؑ کے واقعی دشمنوں کے ساتھ ساتھ خیالی دشمنوں کو بھی نوکِ شمشیر پر لیے رکھا۔ بہر کیف دونوں ہی رنگ حبِ علیؑ سے نکلے ہیں ۔ ایک میں جذبِ محبت غالب ہے اور دوسرے میں جذباتِ محبت ۔ ایک میں آنکھیں کھلی رکھنا ضروری ہے اور دوسرے میں بند کر لینا۔
خیر چھوڑیں اس جھگڑے کو ۔ مولانا رُوم کے لا زوال و بے مثال ترانے کا ایک مصرع سماعت فرمائیں:
ورد کنم خفی جَلی، دم ہمہ دم علیؑ علیؑ
”شاخِ مرجان“ پر میرا خیال ہے کہ جو باتیں بہت ضروری تھیں، ہو گئیں۔ کچھ اشعار اور ایک آدھ نظم پر مزید گفتگو ہونی چاہیے تھی مگر میں بالکل تھک چکا ہوں ۔ اس لیے چند اشعار محض نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
یہ دوست کا ہے غم تو مبارک مگر یہ سوچ
اس غم میں کس قدر غمِ دنیا شریک ہے
٭٭٭
بھڑک رہی ہے جو یہ شمع، بے سلیقہ ہے
ہوا کے رُخ کو سمجھ لے تو بے ادب نہ جلے
٭٭٭
بنا ازل میں جو قانونِ شمع و پروانه
یہ لکھ دیا گیا کوئی ہوا طلب نہ جلے
٭٭٭
کیا سحر تک کوئی جلنے کی تمنّا کرتا
بجھتے دیکھے ہیں اِسی دل نے سرِ شام چراغ
٭٭٭
منتظر آنکھ میں خود ہے کوئی تارا روشن
کیوں جلاتا ہے فلک شام سے گمنام چَراغ
٭٭٭
ارمان نکلتے دلِ پُر فن کے برابر
ویرانہ جو ہوتا کوئی گلشن کے برابر
٭٭٭
میں دام پہ گرتا نہیں اے ذوقِ اسیری
ہاں کوئی قفس لائے نشیمن کے برابر
٭٭٭
میں بھول نہ جاؤں کہیں انجامِ تمنّا
بجلی بھی چمکتی رہے خرمن کے برابر
٭٭٭
لازم ہے اندھیرے کا اُجالا، وہ کہیں ہو
تاریک ہے اِک رُخ مہِ روشن کے برابر
بس جناب اب میں برادرم نصیر ترابی سے بس یہ کہہ کر اجازت چاہتا ہوں کہ بھائی صاحب ! اب تو مان جائیے کہ باہر والے بھی صاحب البیت کی وکالت اور نیابت کر سکتے ہیں۔