عقل

روزِ ازل پیشِ حق خَلق کا تھا احتساب
سب کے قدم ہٹ گئے، عقل ہوئی باریاب

عقل کہ ہے نورِ رَب، خِلقتِ کُل کا سبب
عَدل ہے جس کا ادب خیر سے ہے انتساب

قوتِ عقلِ بشر صبر ہے تنہائی پر
جنّتِ فکر و نظر بہرِ عدو اِک سراب

عقل ہے اصلِ حیات جس کا عدم خود ممات
جہل کا رنگِ ثبات جیسے شکستِ حباب

کب سے ہے وجہِ نشاط، عقل کی یہ احتیاط
نور سے ہے اِرتباط، حق سے نہیں احتجاب

اُس کا قبول اُس کا رَد مرضیٔ مولا کی حَد
جس کو ملے یہ سند ہے وہی اُمّ الکتاب

نفس مِلا اُس کو عِلم، رُوح ملی اُس کو فہم
جانِ عمل اُس کا عزم، نطق میں حکمت کے باب

اُس کا دماغِ اِتَّقَا، اُس کی نظر میں حیا
قلب میں رحمت سدا، فیض رساں فیض یاب

حق سے ملیں نعمتیں خیر کی دس دولتیں
اصل میں سب رحمتیں جیسے معیّن نصاب

دولتِ صدق و یقیں فطرتِ ایمان و دِیں
دل ہے سکوں آفریں، شُکر سے ہے بہرہ یاب

رِفق و مدارات بھی موعظتِ ذات بھی
شُکر کی سوغات بھی اُس میں خلوص، آب و تاب

شانِ قناعت ملی قوتِ تسلیم بھی
نور کی کُل زندگی اُس کا اِیاب و ذَہاب

آئی صدائے جلیل سب کے لیے تُو سبیل
دہر میں تُو ہے کفیل حشر میں تجھ سے حساب

وجہِ عروجِ بشر تجھ پہ ہے میری نظر
جان لے وقتِ سفر حق ہے ثواب و عقاب

عقل نے بے اختیار سجدہ کِیا ایک بار

سال بھی گزرے ہزار نور کا تھا یہ حساب

حُکم ہُوا سَر اٹھا، دل کا ہے کیا مدّعا
مانگ لے اپنا صلہ اب نہ رہے کچھ حجاب

عرض کی اے ذُوالجلال امر کا ہے امتثال
میں ہوں گَدا اور سوال یہ ہے بہ صد اضطراب

جس کا وسیلہ بنوں، اُس کو عطا ہو سُکوں
جس کی شفاعت کروں بس ہو وہی کامیاب

وحی کا تھا پھر نزول، آئی صدا اے رسولؐ
تیری شفاعت قبول خَلق میں اب جا شتاب

عقلِ مَلک آستاں، لے کے چلی کارواں
حشر میں ہوگا عیاں کِس نے دیا کیا جواب

حق کی نظر میں رہا قافلۂ انبیاءؑ
ایک ہے سب کا پتا ایک حضور و غیاب

پیکرِ آدمؑ میں عقل، نور صفت نور اصل
ضد پہ چلا جس کی جہل، ظلمتِ باطل خطاب

منکرِ سجدہ ہے جہل طالبِ سجدہ ہے عقل
جنگ چلی نسل نسل، کون رہا فتح یاب

صبحِ ازل سے ملا سلسلۂ کربلا
سجدہ وہی بَرملا، پھر وہ دُعا مستجاب

ہجرت اِلَی الحق سے کام، عہدِ خدا ہے امام
ساتھ ہے کوثر مُدام، غیر کا ابتر خطاب

نفس کوئی مثلِ دل ساتھ رہے متّصل
جس سے عُدو ہو خجل منزلِ دشمن خراب

عقل مقامِ نبیؐ نفس مقامِ ولیؑ
عقل ہے کَنزِ خفی نفس ہے کشفِ حجاب

عقل ہے مشکل نُما نفس ہے مشکل کُشا
عقل ہے وقفِ عطا، نفس ہے صَرفِ حساب

عقل ہے صبر و قرار، نفس مگر ذُوالفقار
عقل پہ ہجرت کا بار نفس کو ایمائے خواب

شوقِ شہادت لیے نورِ ہدایت لیے
عہدِ شفاعت لیے، رحمتِ خلق کا سحاب

وارثِ کُل انبیاءؑ عازمِ سجدہ ہُوا
ساتھ وہ لشکر چلا جس کا علَم آفتاب

حافظِ اَمرِ اتم، حق کی سِپر ہر قدم
تا بہ قیامت علَم عقل کا ہے ہمرکاب

نفس وہ ہاروںؑ صفت رن میں علیؑ منزلت
نور سے ہے تربیت عقل سے ہے انشعاب

صبر و سکوں مجتبیٰؐ، علم و یقیں مرتضیٰؑ
پیکرِ صدق و صفا جان و دلِ بوترابؑ

حجّتِ حق کا ہے ناز، نصرتِ حق امتیاز
قوتِ حق کارساز، ہاتھ شفاعت مآب

زیرِ عَلم ہے وہی، سجدۂ عقل آج بھی
روک لے کوئی شقی ہے جو کسی کو یہ تاب

قول میں یہ وصل ہے حشر میں یہ عقل ہے
نفس ابوالفضل ہے، دوست ہوئے کامیاب

Scroll to Top