عقل و جہل

ذرّے ذرّے میں ہے تجلیٔ طُور
عقل و دل آج کیوں رہیں بے نور

یہ زمیں آسمان، لیل و نہار
دشت و در یہ فضا جبال و بحار

کشتیاں بحر میں ہوا میں طیور
یہ حدیں اور وجود سے معمور

گل و گلزار پر بہار و خزاں
یہ بدلتے ہوئے زمان و مکاں

ذرّے ذرّے میں بجلیوں کا اثر
قطرہ قطرہ حیات کا مظہر

مہر و ماہ و ثوابت و سیّار
فاصلوں کی کہیں حدیں نہ شمار

وحدتِ نظم اور نظمِ دوام
کیا عبث ہے یہ کائنات تمام؟

یہ نظامِ مقاصدِ عالم
جس کا محور بنا بنِ آدم

مرکزِ کائنات یہ انساں
کیا یہ بے وجہ آگیا ہے یہاں

یہ عناصر، مرکبّات تمام
ہے تعقّل کو ایک دعوتِ عام

ہے تعقّل نظامِ کُل کی حیات
ہے اِسی عقل سے بشر کا ثبات

وحیٔ رب ہے کہ ہر نَفَس یہ بشر
عقل سے کام لے اگر ہے نظر

ربطِ اشیاء کو عقل سے جانے
وحدتِ باطنی کو دِل مانے

عقل ہی کا ہے یہ کمالِ اَتم
مُتشابہ جو ہو بنے مُحکم

عقل ہو یا کہ قلب و سمع و بصر
ایک ہی سمت میں ہے سب کا سفر

اپنی حد پر اگر کوئی رُک جائے
باہمی اختلاف کیوں کہلائے

جب ہو تعریفِ عقل میں ابہام
آئے قلب و حواس پر الزام

عقل جو صدق و کذب کو جانے
فِسق و تقویٰ کو عقل پہچانے

حکم دے، خیر و شر کو بتلائے
خوب و ناخوب کو یہ سمجھائے

فیصلہ دے کہ یہ ہے حق کا اثر
یہ بتادے ہے کون باطل پر

صحبتوں کے اثر پہ حُکم کرے
چھوڑ دے پھر بشر جیے کہ مرے

ہے جو تعریفِ عقل میں اشکال
عقل اور دل میں چاہتے ہیں جدال

اکثریّت کا فیصلہ باطل
ہے یہ لایعقلون کا حاصل

ہے یہ قرآن اور یہ حجّت ہے
گر نہیں عقل تو نجاست ہے

ہے طہارت کے ساتھ مَسِّ کتاب
فاتقو اللہ یا اُولی الالباب

عقل سے ہے عبادتِ رحمان
عقل ہی سے ہے اکتسابِ جنان

عقل خِلقت میں خَلقِ اوّل ہے
بزمِ امکاں میں سب سے افضل ہے

عقل ہے حفظِ تجربات کا نام
مَکر سے دور جس کے سب احکام

عبد و معبود میں یہی حجّت
عقل پر ہے رسولؐ کی بعثت

ہے اِسی کے لیے نزول و صعود
ہے اِسی کی کمی سے ضعفِ وجود

حشر میں ہے بقدرِ عقل حساب
اور اِسی وزنِ عقل پر ہے ثواب

حُسنِ باطن پہ حُسنِ عقل دلیل
اِس کی قوت بشر کی ہے تکمیل

حُسنِ اَخلاق عقل کا ہے کمال
وجہِ بعثت بنے بصد اقبال

عقل ہر گام تازگی کی نوید
ہر نَفَس ارتقا ہے عقل کی عید

عقل ہی تو دلیلِ مومن ہے
قربِ واجب اِسی سے ممکن ہے

عقل ہے دینِ حُکم کا مفہوم
کاشفِ نص و مرضیِٔ معصوم

عقل پہ منحصر ہے طاعتِ رب
نہیں بے عقل پر عبادتِ رب

عقل کے ساتھ شرع کی تکلیف
عقل سے بندگی کی ہے توصیف

عقل سے ہے عِقال کا مقصود
حق کی پابند حق سے ہے محدود

جنسِ حیواں میں عقل فصلِ قریب
یہ ممیّز بنی بشر کا نصیب

جانور خواہشات رکھتے ہیں
جدّوجہدِ حیات رکھتے ہیں

خواہشِ نسل و قوت و نَوم یہاں
سب پہ غالب جبلّتِ حیواں

اور یہی تو ہیں خواہشاتِ بشر
جن میں انساں کی عقل ہے رہبر

اور انہی خواہشوں میں عقلِ نبیؐ
وحیٔ معبود کی نظر میں رہی

کیوں ہوس سے ہو عقل کی تعبیر
عقل کی وحیٔ رب میں ہے تفسیر

وحی میں عقل حُبِّ حق سے مراد
یہی مبدا ہے اور یہی ہے معاد

ہے اِسی عقل کو تو حُکمِ دُعا
اور اُدھر اِستجِب لَکُم کی صدا

تابعِ وحی بن کے عقلِ بشر
عشقِ حق بن گئی ہے سر تا سر

عقل ہے مظہرِ جلال و جمال
حفظِ ماضی ہے عزمِ استقبال

دِیدنی ہے محاذ پیمائی
عقل اور جہل کی صف آرائی

کیوں رہے عقل و عشق میں پیکار
عقل ہے حق کا عشق آخرِکار

ہاں یہاں زور آزمائی ہے
عقل اور جہل میں لڑائی ہے

میمنہ، میسرہ معونہ سب
قلب میں شہسوار آگئے اب

قدرتاً عقل ہی کی شاہی ہے
جہل میں ضد ہے اِک تباہی ہے

عقل کو خیر سا وزیر ملا
جہل میں ضد ہے، شر مشیر ملا

عقل کے ساتھ اِس طرف ایماں
جہل کے ساتھ کفر اور طغیاں

اِس طرف شکر اُس طرف کُفران
ہے اِدھر ذکر تو اُدھر نِسیان

یہ سعادت اُدھر شقاوت ہے
یہ مودّت اُدھر عداوت ہے

ہے اِدھر توبہ اور اُدھر اِصرار
ضدِّ تسلیم پر ہے اِستکبار

یہ امانت ہے، وہ خیانت ہے
ضدِّ انصاف پر حمیّت ہے

اِدھر اخلاص اُس طرف ہے ریا
اور حکمت کے سامنے ہے ہَوا

معرفت اِس طرف اُدھر انکار
جہل مغرور، عقل استغفار

عقل ہے عدل اور جہل ہے جَور
حق و باطل کی جنگ کا ہے یہ طَور

اِس طرف ہے وفا کے ہاتھ عَلم
غَدر کا اُس طرف کھلا پَرچم

کربلا عقل و جہل کی پیکار
ہے جہاں حُسن و قُبح برسرِکار

کربلا استقامتِ انساں
کربلا صورتِ عمل میں اذاں

کربلا صِدق و کذب کی پہچان
بالمقابل ہے صبر اور عُدوان

کربلا وہ جہاں قدم نہ ہٹیں
دل بڑھیں اور بھی یہ سَر جو کٹیں

کربلا صَرفِ اختیارِ بشر
کہ رہِ حق میں عمر یوں ہو بسر

کربلا رُوح و معنیٔ ہجرت
غیرِ حق سے ہے سُوئے حق رحلت

کربلا عقل ہے وہ عقل جہاد
حفظِ حق جس جہاد سے ہے مراد

کربلا عقل کی کوئی حد ہے
مظہرِ مقصدِ محمدؐ ہے

کربلا مطلعِٔ محمدؐ و آلؑ
کربلا ہے علیؑ، علیؑ کا جلال

کربلا اِک مِنائے اُلفت ہے
کربلا موقفِ شہادت ہے

تہِ خنجر بھی عقل و دل ہیں گواہ
کربَلا، لَا اِلٰہ اِلاَّ اللہ

مطمئن دل وہ تین روز کی پیاس
عزمِ پیہم، نہ غم نہ خوف و ہراس

اِک یقیں اور گلے میں ہے پیکاں
علمِ حق اور دل میں نوکِ سناں

نصرتِ حق، کٹے ہوئے بازو
شکر کا سجدہ اور تیغ و گُلو

فتح کی شان وہ جلے ہوئے گھر
پَردہ اُمّت کا اور کھلے ہوئے سَر

ذکرِ مظلوم کررہے ہیں سبھی
پردے والے ہیں اور در بدری

یہ علامات ہیں یہ رمزیّت
دِل میں ہو کربلا بہر صورت

معرکہ عقل و جہل کا ہو جہاں
کربَلا کربَلا ہو وردِ زباں

خالقِ کربَلا بمنزلتِک
ما عرفناکِ حق معرفتِک

Scroll to Top