عظمت محمدو آلِ محمدؐ

تاریخ بتاتی ہے کہ ایک مرتبہ بنی عباس کے آخری دور میں آخری بادشاہ سامرہ کی سیر کو چلا ۔ امام علی نقی ؈ اور امام حسن عسکری ؈ کے روضے پر پہنچا۔ پوچھا یہ کس کی قبر ہے۔ لوگوں نے کہا یہ امام علی نقی ؈ کی قبر ہے ۔ یہ شیعوں کا دسواں امام ہے اور یہ شیعوں کا گیارہواں امام ہے۔ اندر گیا زیارت کی اور زیارت کر کے دیر تک قبر کو دیکھتا رہا۔ اس کے بعد واپس گیا۔ لوگوں نے کہا کہ امیر آپ یہاں تک جب آئے ہیں۔ آپ کے دادا کی قبر بھی یہاں موجود ہے۔ یہیں متوکل دفن ہیں، یہیں معتمد دفن ہیں، یہیں معتمد کا بیٹا دفن ہے۔ یہیں متوکل کا باپ دفن ہے۔ کہا چل کے دیکھ تو لیجئے ۔ وہ چلا پیچھے پیچھے، دیکھا تو کھلا میدان ہے، اُجڑی ہوئی قبریں ہیں۔ جانورلوٹ رہے ہیں۔ کوئی اس طرف جاتا نہیں۔ مٹی کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ اس نے خاموشی سے ان قبروں کو دیکھا۔ وزیر نے کہا، اب آپ تختِ حکومت پر ہیں یہ آپ کے اجداد کی قبریں ہیں، وہ محمدؐ کے پوتوں کی قبریں ہیں۔ معلوم نہیں کہ دنیا نے جن پر ظلم کیے، ان کی قبریں بن رہی ہیں اور دنیا میں جنہوں نے حکومت کی، آج ان کی قبریں اُجڑی ہوئی حالت میں ہیں۔ یہ مناسب نہیں کہ آپ کی حکومت کا اقتدار ہو اور آپ کے پاس بیت المال بھی ہو، اور آباء و اجداد کی قبریں یا روضے نہ بنائے جائیں۔ بادشاہ جواب تک سکون و وقار کے ساتھ خاموش کھڑا تھا، وزیر کا جملہ ختم ہونے پر اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ اس نے کہا،” خدا نے ہمارے آباء و اجداد کو ذلیل ہونے کے لیے پیدا کیا تھا اورمحمدؐ اور آلِ محمدؑ کو عزت و عظمت کے لیے ۔ اگر میں دنیا کے خزانے بھی صرف کر دوں تو یہ جگہ پُر رونق یا آباد نہیں ہوگی۔ روضے اُنہی کے بنتے اور آباد ہوتے ہیں جن کو خدا عزت اور عظمت دیتا ہے دنیا اُنھیں دُور دُور سے آکر اسی لیے سلام کرتی ہے کہ خدا نے انہیں قابلِ سلام بنایا ہے ۔“ (علّامہ رشید ترابی کی تقریر ”کلمہ طیبہ“ سے اقتباس)

Scroll to Top