عرفانی تہذیب اور ثقافت کی تاب کارآواز ، علّامہ رشید ترابی
علّامہ سیّد عقیل الغروی (خطیب و دانشور، دہلی ۔ انڈیا )
( ترابی صدی یادگاری لیکچر سے اقتباس)
یہ وہ مطلعِ دیوان ہے جس سے حضرت علّامہ رشید ترابی کا مجموعۂ کلام شاخِ مرجان شروع ہوتا ہے اُردو میں شاذ و نادر کسی شاعر نے اس بحر میں طبع آزمائی کی۔ بڑے بڑے شعراء ہمارے سامنے ہیں، اُن کی یاد گار مثنویاں ،طویل منظو مے ہمارے سامنے ہیں۔
یہ بحر یعنی بحر سریح اُردو والوں سے برتی نہ گئی جسے علّامہ رشید ترابی نے بہت خوبصورتی سے برت کے دکھایا۔ اور میں داد دیتا ہوں اس مجموعے کی ترتیب دینے والے جناب نصیر ترابی صاحب کو کہ انھوں نے اس نظم کو مجموعے کی پہلی نظم قرار دیا۔ اس وقت کوشش کروں گا کہ کچھ سطریں اپنے لکھے ہوئے مقالے سے پڑھوں اور موضوع پر کچھ گفتگو کروں اور حضرت علّامہ رشید ترابی کے کلام سے استفادہ کروں، انھوں نے کس طریقے سے عرفانی تہذیب کی ترجمانی کی اور نہ یہ کہ ترجمانی کی، میں نے عنوان میں تابکاری آواز کی ترتیب خوب سوچ سمجھ کر رکھی ہے۔
بیا که قصرِ عمل سخت سست بنیاد است
بیار باده که بنیادِ عمر برباد است
بر باد است کو بھی اس طرح پڑھئے کہ باده است سمجھ میں آئے پھر رعایت اور کھلے گی ۔ بیار بادہ کہ بنیادِ عمر بر باد است ۔ اب آپ لفظ تعلق کو دیکھیں اور اس شاہکار شعر کو جو عرفانی تہذیب رکھنے والے حافظؔ نے پہلی بار اس خوبصورتی سے پیش کیا اور بعد میں ہمیں اس کی گونج حضرت علّامہ رشید ترابی کے یہاں نظر آتی ہے۔ کیا خوب کہا ہے:
غلام ہمّت آنم که دید چرخِ کبود
زہر چہ رنگِ تعلق پزیر آزاد است
افتخار عارف آج شاعری کر رہے ہیں۔ نصیر ترابی آج شاعری کر رہے ہیں، ان کی شاعری آج ان کی قدر و قیمت کا تعین نہیں کر سکتی بلکہ وہ چیز ان کی قدرو قیمت کا تعین کرے گی جو باقی رہ جائے گی اور اس سے یہ انداز ولگایا جائے گا کہ ان الفاظ میں کتنی قدر و طاقت تھی۔ انھوں نے اپنے الفاظ کا استعمال کس تجرد کے ساتھ کیا اور آج اگر ہم حضرت علّامہ رشید ترابی کو یاد کر رہے ہیں تو اسی لیے یاد کر رہے ہیں کہ ان کے الفاظ قدسیہ میں وہ جو ہر تخلیق ہو چکا تھا کہ جس سے پوری قوم ممنون ہے۔ وہ جوہر فنا نہیں ہوسکتا، وہ جو ہر ضائع نہیں ہوسکتا۔
عرفانی تہذیب کی علامتیں کیا ہیں ؟ منبرِ علم، محرابِ مصلّی، یہ سب عرفانی تہذیب کی علامتیں ہیں جو ایسی لازوال ہیں، منبر بھی کسی خاص زمین و زمان میں محدود ہیں۔ نہ کسی شکل میں محدود ہو سکتا ہے۔ کسی چیز کو بھی منبر کی شان عطا کر دیں۔ سجا سجا یا منبر موجود نہ ہو تو پالانِ شتر کا ہی منبر سہی، منبر بن جاتا ہے۔ اگر صاحبِ منبر ہو۔ اصل صاحبِ منبر ہے، منبر اصل نہیں ہے۔ یہی ایک بڑا معیارِ انتقاد ہے جو ہمیں اور آپ کو برتنا چاہیے کہ بعض وہ خطیب ہوتے ہیں جو منبر کی عطا ہوتے ہیں۔ بعض وہ منبر ہوتے ہیں جو خطیب کی عطا ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر کراچی گواہ ہے کہ بہت سے خطیب آپ نے دیکھے ہوں گے جو منبر کی عطا ہیں، لیکن بہت سے وہ منبر آپ کو یاد ہوں گے جو رشید ترابی کی عطا ہیں۔ Originality کا معیار یہ ہے، صاحب منبر ہونا چاہیے۔ منبر ایک بڑی علامت ہے تہذیبِ عرفانی کی۔
منبر نظریے کی علامت ہے۔ نظریئے کا امین ”علم“ نظام کی علامت ہے۔ علم کو دیکھیے، کس کس طریقے سے علّامہ رشید ترابی نے برتا ہے اور اس سے لگتا ہے کہ وہ تہذیبِ عرفانی کے نہ صرف خود عارف تھے اور ترجمان تھے بلکہ اُن کی زیادہ دلچسپی اِس تہذیبِ عرفانی کی حفاظت کے سلسلےمیں تھی، اس لیے منبر پہ شعر کہا ہو یا نہ کہا ہو لیکن ”علم“ کے موضوع پر جو آبدار اور شور انگیز اشعار کہے ہیں، میں چند اشعار آپ کی نذر کر رہا ہوں۔ نظم یا قصیدے کا عنوان ہے۔۔۔۔ میں نے عمداً یہ قصیدے کہا۔ نظم یا قصیدہ کا عنوان ہے عقل۔ علّامہ رشید ترابی کی نظم ہے جو شاخِ مرجان میں موجود ہے، اس کے اختتامی اشعار ہیں۔
وارثِ کُل انبیاءؑ عازمِ سجدہ ہوا
ساتھ وہ لشکر چلا جس کا علم ماہتاب
حافظ امرِ اتم حق کی سِپر ہر دم
تا بہ قیامت علم عقل کا ہے ہم رکاب
زیرِ علم ہے وہی سجدۂ عقل آج بھی
روک لے کوئی شقی ہے جو کسی کو یہ تاب
اب ظاہر ہے چونکہ علم کی بات تھی تو آخری شعر جو انھوں نے کہا، اُس کی قدرآپ ہی کر سکتے ہیں۔
قول میں یہ وصل ہے حشر میں یہ عقل ہے
دوسری نظم ہے، اس میں بھی تہذیب عرفانی کی علامتِ علم کو انھوں نے اسی طرح پیش کیا ہے۔
جانِ احمدؐ کا محافظ ہے شبابِ حیدرؑ
ایک سجدے کی حفاظت میں کھنچی ہے تلوار
ہاں اسی حفظِ امانت کا ہے اِک رمز علم
طُور و جُودی کی طرح حق کی بلندی کا وقار
راہِ گم کردہ کسی دور میں مڑ کر دیکھے
یعنی زمانی و مکانی تمدن میں اسیر ذہنوں کو حصارِ زمان تو ڑنے کی جہد دے رہا ہے یہ شعر
راهِ گم کرده کسی دور میں مڑ کر دیکھے
نظر آئے وہ علم راه نمائے ابرار
وہ علم جس پہ بھروسہ ہے خدا والوں کا
وہ علَم دار کہ ہاتھوں پہ خدائی ہے نثار
یہ اشعار ان کی نظم سیرِ تکمیلِ بشر سے لیے گئے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ وقت تمام ہو چکا ہے۔ بحث ادھوری رہ گئی ہے بلکہ میں یہ کہوں کہ بحث تمہیدی مراحل میں رہ گئی اور یہ اتنا وسیع عنوان ہے کہ جس پر ایک چھوٹا سا مقالہ نہیں ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے، لیکن میں آپ سے مخاطب ہوں، آپ میری آواز سن رہے ہیں اور میرے سامنے پیکرِ حضرتِ رشید ترابی مجسّم ہیں ۔ میں ان کی آواز سن رہا ہوں اور وہ یہ کہہ ر ہے ہیں ۔
یہ تیرے ذکر کی عطا ذکرِ رشیدؔ ہے یہاں
سب کو میں یاد رہ گیا صدقے میں تیری یاد کے
اُن کا سب سے بڑا افتخار یہ ہے کہ انھوں نے تہذیب عرفانی کی امانت داری کے ساتھ ایسی تابکاری کے ساتھ آواز بلند کی ہے کہ جس کا اعتراف اچھے اچھے دانشوروں نے کیا ہے۔ میں نے عنوان میں عرض کیا تھا کہ میں نے جو تابکاری کا لفظ استعمال کیا ہے بہت سوچ سمجھ کر ۔
کچھ چیزیں ہوتی ہیں تابناک اور کچھ چیزیں ہوتی ہیں تابکار۔ تابناک وہ چیزیں ہوتی ہیں جو خو د روشن ہوتی ہیں۔ تابکار وہ ہوتی ہیں کہ جس چیز میں صلاحیت ہو اسے تابناک بنادیتی ہیں اور اس آواز کی تابکاری کا اثر دیکھنا ہو تو یہ اعتراف نامہ پڑھ لیجیے، جو ہمارے ایک معاصر نقّاد اور دانشور کے قلم سے صادر ہوا ۔ انھوں نے مجھے ایک کتا بچہ بھجوایا تھا، اُس سے یہ تین سطریں میں اقتباس کر رہا ہوں۔ احمد جاوید صاحب کی یہ سطریں ہیں۔
”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے ہر خطاب کے خاتمے پر میں کس طرح مسلمان ہونے کی نئی کیفیت میں اور تازہ و معنویت سے سرشار ہو کر اُٹھتا تھا۔“
یہ تابکاری ہے۔ ویسے حقیقتاً یہ عالی ظرفی ہے اور صادقانہ لہجہ ہے۔ ہمارے احمد جاوید صاحب کا، ور نہ طویل تاریخ میں بہت سے ایسے گزرے ہیں جنہیں بار بارتجدیدِ ایمان بہ اسلام کی ضرورت پیش آئی مگر کبھی کسی نے اعتراف نہیں کیا۔
اب قدرے وثوق کے ساتھ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ علّامہ کو سُن کر مجھے ہمیشہ یہ تجربہ ہوا کہ سرشاری کا اصل ماخذ عقل ہے۔
یہ اُن کا اقتباس تھا جو میں مثال کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ اُن کی تابکار آواز نے نہ جانے کتنے جو ہرِ قابل اُبھارے اور کتنے آئینوں کو روشن کیا اور چونکہ وہ آواز ، وہ خطابت ، وہ شاعری، دو شخصیت تجرد کے عمل سے گزر چکی ہے۔ اس لیے اس کی تابکاری کا عمل آج بھی جاری ہے۔ ہر اہلِ طبیعت کو اُس کا قد رو حصہ مل رہا ہے اور ملتا رہے گا۔