عدل اور توازن سے حُسن کی ہے سب خوبی

عدل اور توازن سے حُسن کی ہے سب خوبی
صد شباب رعنائی صد بہار محبوبی

منتظر زمانہ تھا کچھ مِری تباہی کا
دشمنِ خزاں نکلی ضبط کی خوش اسلوبی

سنگ و در، سَرو سجدہ، کون کس طرح سمجھے
عِلم یہ اشاروں میں، وہ بھی غیر مکتوبی

رُک گئی نظر جاکر بس ہَوس کے پردوں پر
پھر یہ ضد کہ دیکھیں گے آپ اپنی محجوبی

کس طرح پلٹ آئے روشنی نگاہوں میں
آج تو فسانہ ہے یوسفی و یعقوبی

دل بڑے بڑے طوفاں جھیل کر سلامت تھا
وقت یوں بدلتا ہے، دِل کو نبض لے ڈوبی

زیست سے غرض شاید صرف عشق و مستی ہے
عقل کے حوالے سے ہر طرف ہے مجذوبی

زندگی رشیدؔ اپنی تا کُجا پئے دنیا
ضعف سے نہیں خالی طالبی و مطلوبی

Scroll to Top