عبید اللہ بیگ

(دانشور و براڈ کاسٹر )

اتحاد بین المسلمین کا داعی۔۔۔۔ علّامہ رشید ترابی

(زیرِتحر یر یادگاری مضمون سے اقتباس)

۔۔۔ جو اُس نے کہا۔۔۔۔ اور جب مجلس ختم ہوئی اور اشک فشاں ہجوم، بالخصوص اگلی صف میں بیٹھے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے علماء ، علّامہ سے مصافحہ کرنے کے لیے ان کے گرد جمع ہو گئے تو میں اپنے ماموں (مولانامحمد علی خان مرحوم) کو ہجوم سے نکال کر اس طرف روانہ ہوا جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی۔ خالق دینا ہال کی ان مجالس میں شرکاء کی تعداد اتنی ہوتی تھی کہ محاور تاًتِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی۔۔۔ لہٰذا ہماری گاڑی خالق دینا ہال سے تقریباً ایک فرلانگ دُور کھڑی کی گئی تھی ۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اور مجلس کے بعد واپس جانے والے لوگوں کے کندھے سے کندھا ملاتے ہم راستہ طے کر رہے تھے ۔ مولانا خاموش تھے، لیکن میں اُن کی روشن پیشانی پر بل دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ یقیناً کچھ سوچ رہے تھے۔

”آپ کیا سوچ رہے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔

 اُن کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔

”بھئی میں نے ایسی عالمانہ تقریریں بہت کم سنی ہیں جیسی علّامہ نے کی ۔۔۔“ اُنھوں نے کہا۔

” کیا اُنھوں نے کسی قرآنی آیت کا ترجمہ ایسے کیا کہ جیسے آپ نہ کرتے ہوں؟“

میں نے دوسرا سوال کیا۔

”نہیں“

”کیا اُنھوں نے کوئی حدیث ایسی بیان کی جسے و ضعی یا غیر مستند کہا جا سکے؟“

میں نے تیسر اسوال کیا۔

”نہیں۔۔۔“ اُنھوں نے جواب دیا

”کیا علّامہ نے اپنی تقریر میں کوئی ایسا عقیدہ بیان کیا جو آپ کے اور ہمارے مسلک کے منافی ہو۔۔۔“ میں نے ایک اور سوال کیا۔

”نہیں“ انھوں نے جواب دیا۔

” آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اُن کی مجلس میں مسلمانوں کے ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے عام اور خاص لوگ بالخصوص علماء شریک تھے ۔۔۔ کیا یہ امراُن کی اصابتِ رائے، صدق بیانی اور دعوتِ اتحادِ فکر کا ثبوت نہیں ہے ۔ ۔ ۔؟“

      میں نے ایک اور سوال کیا۔

      مولا نا چلتے چلتے رک گئے، میرے کندھے پر اپنا سیدھا ہاتھ رکھا ۔۔۔ اور فرمایا

      ”جو کچھ علّامہ رشید ترابی نے کہا ، وہ سچ تھا ۔۔ ایسے علماء کی مجلس اور محفل میں حاضری تمہارے علم میں اضافہ اور عمل میں صالحیت پیدا کر سکتی ہے۔۔۔“

Scroll to Top