صبحِ قریب
زمین تھی نہ زماں تھا نہ آسماں قائم
ازل کی صبح تھی وحدت کا تھا سماں قائم
تجلّیوں کا تسلسل تھا، نور تھا ہَرسُو
تھا علمِ حق میں محبّت کا بوستاں قائم
فضائے ہُو میں بگولے وفا کے اُٹھتے تھے
مکانِ عقل تھا مابینِ لامکاں قائم
کمالِ غیب میں چاہا یہ کنزِ مخفی نے
شہود میں کوئی حق کا ہو رازداں قائم
مقامِ عقل و محبّت میں صبحِ اوّل سے
ہوا وَجوب کا امکاں میں اِک نشاں قائم
تنزُّلات میں آیا وجود پے دَر پے
بہ حسبِ کیف ہُوا دارِ کُن فکاں قائم
ہوائے کُن سے کھلے ہیں گُلِ ریاضِ مُراد
مقامِ ہُو میں ہوئی ہستیٔ جہاں قائم
صدا سُنی نہ کسی نے مگر کلام کِیا
کلام جس سے ہوئی بزمِ دوجہاں قائم
فضائے لامتناہی پہ چھا گئی حرکت
حیات خلق ہوئی، ہوگیا جہاں قائم
یہ ماہ و انجم و خورشید و ارض و بحر و جبال
جہاں تھی جس کی جگہ وہ ہُوا وہاں قائم
نہالِ گلشنِ کُن جب بہار پر آیا
تو آب و گِل سے ہوا ربطِ جسم و جاں قائم
ملائکہ کا وہ مسجود اشرفِ مخلوق
ہُوا خلیفۂ معبود وہ یہاں قائم
اِسی طرح سے ہر اِک عہد میں بہ مرضیٔ رب
ہوئے شریعتِ حق کے نگاہباں قائم
ہر ایک مرضیٔ معبود کا نمائندہ
بقیدِ وقت و مکاں بعدِ امتحاں قائم
کہیں تھا خونِ تمنّا کہیں تھا خونِ جگر
ہُوئیں فسانۂ الفت کی سُرخیاں قائم
رہا یہ دَور صفیؑ سے وصیِ خاتمؑ تک
پھر اُن کے بعد ہوئے میرِ کارواں قائم
چلے ازل سے کہاں وہ، کہاں کہاں ٹھیرے
کہاں کہاں ہُوا اللہ کا نشاں قائم
اگر کتاب ہے لاریب امرِ رب ہے غیب
یہی وہ غیب ہے ایماں رہے جہاں قائم
جو ذات اوّل و آخر وہ ظاہر و باطن
اِسی دلیل سے ہے ربطِ داستاں قائم
جو نُور مظہرِ حق ہے وہ مظہرِ کُل ہے
یہیں وجود کا ہے فیضِ جاوداں قائم
خدا کی ذات ہے قیّوم امرِ حق قیّم
ہے اِن حدود میں یہ بحرِ بیکراں قائم
اگرچہ ہیں پسِ پردہ مثالِ رُوحِ یقیں
رگِ حیات میں لیکن رواں دواں قائم
وہ نور کوکبِ دُرّی وہ غیب صبحِ قریب
بہ قدرِ ذوقِ نظر ہے عیاں نہاں قائم
کمالِ عقل کو لازم نہیں زمان و مکاں
تلاشِ عقل میں لیکن زماں مکاں قائم
بشر کے سلسلۂ سیر میں یہی ہے کمال
کہ قِسط و عدل کا مرکز ہو بے گماں قائم
ہر اِک طلب ہے غلط گر نہیں کوئی مطلوب
نہ ہو مکیں تو رہے کس لیے مکاں قائم
ہے اضطراب میں کیوں فکرِ دیگراں پہ نظر
حدیثِ دوست میں ہے سرِّ دلبراں قائم
اُدھر چھپی ہوئی باطل کی قوتِ مضطر
اِدھر ہے مرکزِ حق پردے میں نہاں قائم
حضورِ حق کا تقاضا فقط اقامت ہے
قیامِ امر کا منشا یہی کہ ہاں قائم
خدا کے ساتھ محمدؐ کا نام لینا ہے
اِسی اُصول پہ تاحشر ہے اذاں قائم
یہ آئینہ وہ تجلّی، یہی تو ہے معراج
حضور و غیب میں ہے قربِ دو کماں قائم
یہی تو اوّل و آخر ہے معنیٔ لولاک
یہی حقیقتِ محبوب، جاوداں قائم
اُسی کی ذاتِ مقدّس میں اہلِ دل کے لیے
دلیلِ ہستیٔ مطلق ہے بے گماں قائم
اُسی کے دم سے ہے دِیں کی رگوں میں تازہ لہو
اُسی قدم سے ہدایت کے ہیں نشاں قائم
اُسی کی برقِ نظر میں حیات کی تجدید
ہے اِس اُمید پہ میرا بھی آشیاں قائم
جو انتظار کے قابل بنوں تو پھر کیا غم
رہیں یہ جیب و گریباں کی دھجّیاں قائم
نماز ادا میںکروں وہ کہ جس میں قصر نہ ہو
نظر کی حد پہ ہو تیرا جو آستاں قائم
چراغِ ہوش بجھاکر میں راہ تکتا ہوں
خدا کرے کہ رہیں یہ تجلّیاں قائم
رشیدؔ جلوہ طلب ہے، نہیں ہے استقرار
کہاں یہ مضطرب اُلحال اور کہاں قائم
ہر ایک عقل کی فریاد، العجل مولاؑ
ہر ایک قلب کی آواز، الاماں قائمؑ