شعله نوا خطيب
مولانا ماہر القادری
(عالمِ دین، مدیر فاران اور ممتاز شاعر )
اب سے 36 برس پہلے کی بات ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، 1937 ء کا ذکر ہے کہ روز نامہ رہبر دکن میں جلسۂ عام کا اعلان نظر سے گزرا کہ فلاں تاریخ کو نمازِ عشاء کے بعد محلّہ جدید ملک پیٹ کے میدان میں لسان الامّت نواب بہادر یار جنگ کی زیر صدارت جلسہ ہوگا۔ جس میں رشید ترابی، بی ایس سی تقریر کریں گے۔ عوام وخاص کے لیے بالکل نیا نام، پھر مقرر کے نام کے ساتھ مولوی، مولانا، حضرت قبلہ مدظلہٗ غرض تعظیم و تکریم کا کوئی لقب نہ تھا، مشرقی امتحانات اور دینی علوم کی کسی ڈگری کی بجائے بی ایس سی لکھا ہوا، جسے پڑھ کر ذہن اس طرف جاتا تھا کہ سائنس کا گریجویٹ مذہب و شریعت پر کیا بولے گا ؟ سائنس دانوں سے عام طور پر تقریر و خطابت اور تحریر و انشاء کی روایتیں وابستہ نہیں رہیں۔
جلسۂ عام میں لوگوں کے لیے سب سے بڑی کشش قائدِ ملّت نواب بہادر یار جنگ کا نام اور شخصیت تھی۔ ان کی تقریر سننے کے لیے لوگ دُور دُور سے پیدل چل کر آئے ۔ جدید ملک پیٹ کا میدان بجلی کے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ نواب صاحب مرحوم کے قریب ایک خوش پوشاک اور خوبرو جوان بیٹھا ہوا نظر آیا۔ عمر بہت سے بہت چو بیس پچیس سال ہوگی مگر شیخ سعدی کے بقول ؎
عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیّاحی میں
ماسٹر جی چلے گئے تو میں نے ایک لحظہ کے لیے سوچا۔ قدرے غور کیا، ایک دو شگفتہ جملے ذہن میں آگئے ۔ لیکن میں سوچ کو طرح دے گیا۔ یوں کہیے کہ اپنے طور پر مطمئن ہو گیا۔ شام پانچ بجے اجلاس تھا۔ علّامہ کے شیدائی اور فدائی اُن کے لیے آنکھیں بچھا رہے تھے۔ بعض ابتدائی چیزوں کے بعد میں تقریر کے لیے اٹھا تو علّامہ صاحب پر ایک استفہامیہ نگاہ ڈالی۔ ابھی دو جملے ہی بولے تھے کہ مجمع داد پر آ گیا۔ میں نے آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ علّامہ صاحب کھڑے ہوئے تو میرے متعلق نہایت خوبصورت الفاظ کہے ۔ اب جو رشتۂ سخن کھلا اور فلسفۂ شہادت بیان کیا تو مجمع بے خود تھا۔ شیعہ بھی تھے سنّی بھی، سبھی مسحور ہو گئے ۔ کوئی فرقہ وارانہ بول نہ تھا ۔ کوئی اختلافی پہلو نہ تھا۔ کوئی جلی و خفی طنز نہ تھا۔ نہ الفاظ کا خروش نہ آواز کا جوش، الفاظ انگشتری تھے، معانی نگینه، چشمۂ صافی بہہ رہا تھا۔ خوبی یہ تھی کہ ایک لالہ زار تھا جس میں بہت سی روِشیں، اَن گنت شاخیں اور اُن پر کھلے ہوئے رنگا رنگ پھول تھے ۔ لطف یہ کہ ؎
بالائے سرش زہو شمندی
می قافت ستاره بلندی
تلاوت کے بعد یہی جوان اس جلسے کا پہلا مقرر تھا۔ اس نے آغاز میں حمد و صلوٰۃ پر مشتمل عربی خطبہ اس انداز میں پڑھا کہ اس کا چہرہ سامعین کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ تقریر کا موضوع اچھوتا مگر ساتھ ہی انتہائی خشک ۔ وضو کرتے ہوئے جو ناک سے پانی لیتے ہیں یعنی استنشاق، تقریر کا عنوان تھا۔ تھوڑی سی دیر میں سامعین کو اندازہ ہوا کہ یہ تو بلبل ہزار داستان ہے، جس کی چہک کانوں میں رس گھول رہی ہے اور پھر صرف لب ولہجہ اور الفاظ ہی نہیں۔ استدلال بھی، معلومات بھی، تقریر و خطابت کے فن کا حسین مظاہرہ بھی۔ ترابی صاحب نے دماغی اعصاب، ناک اور حلق کی ساخت اور ان کے سائنسی وظیفۂ عمل Scientific Function کی نہایت ہی دلچسپ اور عالمانہ انداز میں تشریح فرمائی اور پھر طب مغربی کے اصولوں کی روشنی میں ثابت کیا کہ پانی لینے (استنشاق) سے دماغ سے کن امراض کا ازالہ ہوتا ہے اور وضو کا یہ عمل صحت کے لیے کس قدر مفید اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ مجمعے سے سبحان اللہ، جزاک اللہ اور نعرہ تکبیر کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ سارے شہر میں اس تقریر کی دھوم مچ گئی۔ وہ دن علّامہ رشید ترابی کے تعارف کا پہلا دن تھا۔ بس پھر اُن کی شہرت اور مقبولیت بُوئے گل کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ اتحاد المسلمین کے ہر بڑے جلسے میں اُن کی تقریر ہوتی اور ان کی خطابت سے سماں بندھ جا تا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، سعید الملک سراحمد سیّد خان نواب چھتاری جب صدرِ اعظم ہوئے تو حیدر آباد کے شہریوں نے ان کے اعزاز میں بڑے پیمانے پر ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس ضیافت پر جناب رشید ترابی نے مختصرسی تقریر کی اور لوگوں کے اصرار پر اپنے اشعار بھی سنائے۔ شعر سنانے سے پہلے فرمایا کہ تقریر مقامِ اختیار تھا اور شعر خوانی تقاضائے جبر ہے۔
بلدیہ حیدر آباد کے عظیم الشان جلسوں میں نواب بہادر یار جنگ اور علّامہ ترابی کی تقریروں کے ساتھ میری نظم بھی ہوتی تھی۔ اس طرح مرحوم سے ملنے جلنے کے مواقع ملتے رہتے۔ جب بھی آمنا سامنا ہوتا تو مصافحے کے ساتھ معانقہ بھی کرتے، اس پر اُن کا محویانہ تبسّم دل میں اتر جاتا۔
قائدِ ملّت نواب بہادر یار جنگ کے انتقال سے دو ڈھائی سال پہلے اتحاد المسلمین کے جلسوں میں علّامہ ترابی بہت ہی کم دیکھے گئے۔ اس کا سبب اُن کی گوناگوں مصروفیات بھی ہو سکتی ہیں اور یہ بھی ہے کہ دنیا ہے۔ روابط و تعلقات میں مدوجزر بھی آتے رہتے ہیں۔
نواب بہادر یار جنگ کی تقریریں ایسا محسوس ہوتا جیسے بادل برس رہا ہے۔ علّامہ ترابی کی تقریر میں ایسا لگتا جیسے کوہِ آتش فشاں حرکت میں آگیا ہے۔ پاکستان میں علّامہ رشید ترابی کی تقریر و خطابت اور ذہانت و قابلیت کے جو ہر پوری طرح ظاہر ہوئے۔ مجالسِ عزاء میں بس اُنہی کا طوطی بولتا تھا۔ ادبی اصطلاح میں جسے فضا پر چھا جانا کہتے ہیں، وہ چیز اُن کو حاصل تھی ۔ وہ جب تقریر کرتے تو مجمع اُن کی مٹھی میں ہوتا، جہاں چاہا رُلا دیا اور جہاں چاہا دلوں کو گرما دیا۔ اسی کا نام سحر خطابت ہے۔
راقم الحروف نے شیعہ مقررین میں علّامہ علی حائری مولانا سیّد سبطِ حسن، حکیم مرتضیٰ حسین، علّامه کفایت حسین، مولانا سیّد محمد دہلوی، علّامہ سیّد ابنِ حسن جارچوی، مولانا کبّن لکھنوی اور مولا نا لقاء علی بدایونی کو سنا ہے۔ مدرستہ الواعظین لکھنو کے پرنسپل مولانا سیّد سبطِ حسن تو تقریر وخطابت کے بادشاہ تھے۔ دوسرے مقررین کا اپنا اپنا انداز تھا مگر رشید ترابی مرحوم کی خطابت میں جو انفرادیت پائی جاتی تھی وہ اُنہی کا حصہ تھی۔ اپنی ذہانت سے نئے نئے موضوعات ایجاد کرتے اور ان پر الفاظ و بیان اور استدلال کی عمارت کھڑی کر دیتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ خالقدینا ہال میں جوان کے مواعظ ہوتے تھے، ان میں تقریر کا عنوان ”حسینؑ اور اقتصادیات“ بھی تھا۔ اس موضوع پر بولنا اور بھانا بس اُنہی کا کام تھا۔ تقریر میں الفاظ کی وہ پُرجوش روانی جیسے بھرا ہوا دریا اور متلاطم سمندر! اس طوفان میں بعض اوقات اتنے دُور نکل جاتے کہ خود ہی چونک کر موضوع کی طرف واپس آتے ۔
علّامہ مرحوم حیدرآباد دکن میں مجلس اتحاد المسلمین کے جلسوں میں ملّتِ اسلامیہ کے مشترک، مسلّم اور متفق علیہ عقائد و مسائل پر بولتے، مگر کراچی کی مجالس عزا میں اختلافی مسائل بھی چھڑ جاتے ۔ اس رواداری کو سراہا جائے گا کہ اس کا ردِّ عمل صرف چہ میگوئیوں تک محدود رہا۔ اللہ تعالیٰ اختلافِ عقائد کے باوجود ملت کے اتحاد کو قائم رکھے۔ (آمین ) کہ ہم سب ایک ہی شجرِ طیبہ کی شاخیں اور پھول پتّے ہیں۔
رشید ترابی مرحوم نے خاندانی منصوبہ بندی کی زبان سے نہیں، عملاً قانون شکنی اور خلاف ورزی کی کثیر الاولا د اور کثیر الازواج شہرت کے ساتھ خوشحالی اور ترفہ بھی انہیں میسر آیا۔ اتنا بڑا کنبہ رکھنے کے با وجود معاشی طور پر غیر مطمئن نہیں رہے۔ انھیں ہر طرح کا آرام میسر تھا۔ چونکہ پراگندہ روزی نہ تھے۔ اس لیے پراگندہ دل بھی نہ تھے۔ جمعیتِ خاطر اور اطمینان قلب بڑی چیز ہے۔
ملک کے سیاسی حالات پر اخباروں میں ان کا ردِّ عمل عوام کے سامنے نہیں آتا تھا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ سیاسیات کے خارزار سے اپنے دامن کو بچائے رکھا۔ اُن کی اس روِش کے سبب کسی بھی دورِ حکومت میں اُن کو خطر ناک نہیں سمجھا گیا۔
خود صاحبِ کمال اور اہلِ کمال کے قدردان بھی تھے۔ مشہور شاعر اُستاد قمر جلالوی کو برسوں اپنے یہاں مہمان رکھا اور اُن کی ہر طرح کی خاطر داری اور پزیرائی کی۔ اُستاد قمر رشید ترابی مرحوم کی مہمان نوازی اور سیر چشمی کے بڑے مدّاح تھے۔
اس بات کو سات آٹھ سال ہوئے ہوں گے، جوش ملیح آبادی صاحب کے یہاں صبح کے ناشتے کے بعد شعر و شاعری کی محفل گرم ہوئی۔ اُس میں علّامہ مرحوم نے اپنی دو نظمیں سنائیں جن میں خاص روانی اور رفعت فکر پائی جاتی تھی۔ شاعری پر پوری طرح وقت صرف کرنے اور توجّہ دینے کا انھیں موقع نہیں ملا، مگر پھر بھی اُن کا کلام بعض مشہور شاعروں کے کلام کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
سال ہوا، اُن کے صاحبزادے نصیر ترابی صاحب غریب خانے پر تشریف لائے۔ اپنی شادی کی دعوتِ ولیمہ کا رُقعہ دیتے ہوئے بولے، بابا نے کہا ہے کہ ملے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں۔ آپ اس دعوت میں ضرور آئیں۔ اُن دنوں میری بعض مصروفیات بھی تھیں۔ اپنے رسالے کی تیاری اس پر مستزاد، مگر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ علّامہ رشید ترابی محبت سے یاد فرما ئیں اور میں طرح دے جاؤں! چنانچہ میں حاضر ہوا۔ دوسروں سے تو مصافحہ کرتے رہے مگر مجھے دیکھ کر بے ساختہ آگے بڑھے اور گلے سے لگا لیا، مگر اس المیے کا اظہار کن لفظوں میں کیجئے کہ وہ جسم جو چلتا پھرتا دابستانِ علم وادب تھا، قبر میں محوِ خواب ہے ۔ ”محرّم کی اے شامِ غریباں تجھے کس جی سے پُرسا دوں ! رہے نام اللہ کا۔