موضوع اسمِ عظیم ہر جگہ آپ قاف سے تاقاف رہے جو شام و سَحر اُن کے آستاں کو سلام اندھیرے میں اضافہ ہوگیا یہ روشنی کیسی تغیّردہر کا فطری ہے لیکن ناگہاں کیوں ہو ذکرِ ستم رَوا ہے صوتِ کرخت تک محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے وقت توحید مجبور تِرے ذکر سے ہیں ذکر نہیں اور عِلم نظر شناس رفیقوں کا ساتھ جب چُھوٹا نہیں ہے آتشِ زرتُشت روز و شب نہ جلے آپ کھائیں قسم زمانے کی داستاں صبر کی غیروں کو سنائی نہ گئی کیا بتائوں کَش مکَش کب سے حق و باطل میں ہے اب کیا کسی اور سے گلہ ہے مٹا ہے کبرِ عبادت کس اہتمام کے ساتھ ہَوا ہَوس کی چلی نفس مشتعل نہ ہوا پھر اُس کو غرض کیا ہے بہارِ گزراں سے ڈرتے رہو بنے نہ فلک مہرباں کہیں سیرِ تکمیلِ بشر عقل جوشِ اثر کو دیکھیے غیب پہ اعتماد کے عقل و جہل امرِ باطل میں ہے مطلوب تتبعُ ہم سے ہَوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے سَحر اور شباب سفرِ زیست کو لازم ہے ہر اِک گام چراغ عدل اور توازن ہے حُسن کی بڑی خوبی کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی کیا خبر دل کا رُخ ہے کس کی طرف حوّائے عالمِ عقلی رہوں کچھ ایسے خیالات میں جو بدعت ہیں وہ جو اِک قطرہ ہے پانی کا ہَوا سے خالی حق آگاہی کی بستی میں عجب نظم و نسق پایا ارمان نکلتے دِلِ پُرفن کے برابر کیوں کوئی بیٹھے کہیں دیوار وار صبحِ قریب اِس بزم میں رُکتے بھی تو دوچار گھڑی ہم فیصلے میں ہوئی تعجیل تاسف نہ ہوا کیا معرفتِ حق کا کوئی رنگ رہے گا اجنبی اشیاء میں باہم جذب کی خواہش نہیں اندھیرا خوب ہے اس سے کہ روشنی ہوجائے جوابِ شکوہ نہ دشمنی نہ محبّت اگر نگاہ نہ ہو کیا اُن کا کرم ہم پہ ستم جن کے نہیں ہیں میری موت گھر کا وارث خواب اِس طرح پریشاں ہیں اِن ارمانوں کے کیا بتائیں نزع میں یہ رُوح کیوں بالیدہ ہے زباں پہ سب کی ہے ضرب المثل جزاک اللہ جو بہار آکے نکل گئی نہ وہ مئے رہی نہ سُبو رہا فکر میں اپنی ڈوب کر قوتِ امتیاز دیکھ